محمد اجمل خان
محفلین
مقبرے اور امت مسلمہ کی تباہی
مقبرے بنانے اور ان کی تزیئن‘ آرائش و زیبائش کرنے والی قوم کے مقدر میں سمندر میں ڈوبنا (یعنی تباہی و بربادی) لکھ دیا جاتا ہے۔
تاریخ میں سب سے پہلے اہل فرعون نے مقبرے بنائے اور ان کی آرائش و زیبائش کی۔ آج ان کے وہ مقبرے اہرام مصر کے نام سے نشان عبرت بنے کهڑے ہیں- پهر یہودیوں نے ، پهر عیسائیوں نے اور پهر مسلمان اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے مزارات اور درگاہیں تعمیر کیئے اور ان کی تزیئن و آرائش کی جس کی پاداش میں انہیں تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑا اور صدیوں تک سارے مسلمانوں کو غلامی کا طوق پہننا پڑا - پھر اللہ نے مسلمانوں پر رحم کیا اور انہیں انگریزوں کی غلامی سے آزادی دے کر ایک موقع دیا لیکن پھر بھی مسلمانوں نے قبروں کو پختہ کرنا اور اسکی تزین و آرائش پر کثیر دولت خرچ کرنا نہ چهوڑا جبکہ ہم مسلمانوں کے نبی رحمت صلی اللہ علیہ و الیہ و سلم نے قبروں کو پختہ کرنے سے منع فرمایا ہے-
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر بیٹھنے اور ان پر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 223
اور ترمذی شریف میں یہ حدیث اس طرح بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے ‘ ان پر لکھنے‘ ان پر تعمیر کرنے اور ان پر چلنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور کئی سندوں سے حضرت جابؓر سے مروی ہے۔ (جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 1049)
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کو چونے وغیرہ سے پختہ بنانے سے منع فرمایا۔ (صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 2240)
قبروں کے بارے میں اس طرح کی احادیث سنن ابوداؤد‘ سنن ابن ماجہ‘ مسند احمد وغیرہ میں بھی مرقوم ہے۔
حضرت ثمامہ بن شفی سے روایت ہے کہ ہم فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقام رودس ملک روم میں تھے ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہوگیا تو حضرت فضالہؓ نے اس کی قبر کا حکم دیا جب وہ برابر کر دی گئی‘ پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبروں کو ہموار (برابر) کرنے کا حکم فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 2235)
ابوہیاج (حیان بن حصین اسدی) کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا: تم کوئی بھی اونچی قبر نہ چھوڑنا مگر اسے برابر کر دینا، اور نہ کسی گھر میں کوئی مجسمہ (تصویر) چھوڑنا مگر اسے مٹا دینا۔ (سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ جنائز کے متعلق احادیث ۔ حدیث 2037) ۔ اس حديث ميں برابر سے مراد يہ ہے كہ اسے باقى سب قبروں كے برابر كر دو۔
ان احادیث میں قبر ’‘ برابر ’‘ یا ’‘ ہموار ’‘ کردینے سے مراد سطح زمین سے ہموار کر دینا نہیں ، کیونکہ اس طرح تو قبر پاوں کے نیچے روندی جائے گی۔ برابر کردینے سے مراد دوسری شرعی حد کے مطابق بنی قبروں کے برابر کرنا ہے ۔
بعض دیگر احادیث سے ثابت سنت صرف اتنا ہے كہ قبر زمين سے صرف ايك بالشت اونچى كى جائے‘ اسے كوہان كى طرح بنائى جائے اور اپنے مرحوم کی قبر کی پہچان کیلئے قبر کے سر کی جانب کوئی پتھر وغیرہ علامت کے طور پر رکھ دیا جائے۔
لیکن مسلمانوں کی اکثریت نے اپنے پیارے نبی ﷺ کی سنتوں کو پامال کرتے ہوئے قومِ فرعون کے طریقوں پر عمل کیا اور آج بھی اسی پر عمل کر رہے ہیں۔
قبروں پر عماررات‘ مزارات اور درگاہیں وغیرہ تعمیر کرکے اس کی تزیئن و آرائش کرنے کی جو قباحتیں ہیں آج وہ سب پر عیاں ہیں‘ اسی لئے نبی کریم ﷺ اس کی سختی سے ممانت کی تھی۔ نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ سارے کام بدعات اور حرام ہیں لیکن افسوس کہ صدیوں سے امت مسلمہ کی اکثریت ان بدعات اور حرام کا ارتکاب کرتی چلی آ رہی ہے اور ان سے منع کرنے والوں کو گمراہ اور کافر کہتی ہے۔
پھر ایسی امت جو اپنے نبی ﷺ کی سنت کو ٹھکرائے اور ال فرعون کی نقش قدم پر چلے ان کا مقدر ال فرعون سے جدا کیونکر ہو سکتا ہے؟ وہ سمندر برد ہونے سے کیسے بچ سکتی ہے؟
لہذا یہ امت مسلمہ ماضی میں بھی تباہی سے دوچار ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی ان کی مقدر میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں حتٰی کہ یہ امت لوٹ آئے اور قرآن و سنت کے مطابق اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرنے لگے۔
اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔
* محمد اجمل خان *
مقبرے بنانے اور ان کی تزیئن‘ آرائش و زیبائش کرنے والی قوم کے مقدر میں سمندر میں ڈوبنا (یعنی تباہی و بربادی) لکھ دیا جاتا ہے۔
تاریخ میں سب سے پہلے اہل فرعون نے مقبرے بنائے اور ان کی آرائش و زیبائش کی۔ آج ان کے وہ مقبرے اہرام مصر کے نام سے نشان عبرت بنے کهڑے ہیں- پهر یہودیوں نے ، پهر عیسائیوں نے اور پهر مسلمان اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے مزارات اور درگاہیں تعمیر کیئے اور ان کی تزیئن و آرائش کی جس کی پاداش میں انہیں تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑا اور صدیوں تک سارے مسلمانوں کو غلامی کا طوق پہننا پڑا - پھر اللہ نے مسلمانوں پر رحم کیا اور انہیں انگریزوں کی غلامی سے آزادی دے کر ایک موقع دیا لیکن پھر بھی مسلمانوں نے قبروں کو پختہ کرنا اور اسکی تزین و آرائش پر کثیر دولت خرچ کرنا نہ چهوڑا جبکہ ہم مسلمانوں کے نبی رحمت صلی اللہ علیہ و الیہ و سلم نے قبروں کو پختہ کرنے سے منع فرمایا ہے-
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر بیٹھنے اور ان پر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 223
اور ترمذی شریف میں یہ حدیث اس طرح بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے ‘ ان پر لکھنے‘ ان پر تعمیر کرنے اور ان پر چلنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور کئی سندوں سے حضرت جابؓر سے مروی ہے۔ (جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 1049)
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کو چونے وغیرہ سے پختہ بنانے سے منع فرمایا۔ (صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 2240)
قبروں کے بارے میں اس طرح کی احادیث سنن ابوداؤد‘ سنن ابن ماجہ‘ مسند احمد وغیرہ میں بھی مرقوم ہے۔
حضرت ثمامہ بن شفی سے روایت ہے کہ ہم فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقام رودس ملک روم میں تھے ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہوگیا تو حضرت فضالہؓ نے اس کی قبر کا حکم دیا جب وہ برابر کر دی گئی‘ پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبروں کو ہموار (برابر) کرنے کا حکم فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 2235)
ابوہیاج (حیان بن حصین اسدی) کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا: تم کوئی بھی اونچی قبر نہ چھوڑنا مگر اسے برابر کر دینا، اور نہ کسی گھر میں کوئی مجسمہ (تصویر) چھوڑنا مگر اسے مٹا دینا۔ (سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ جنائز کے متعلق احادیث ۔ حدیث 2037) ۔ اس حديث ميں برابر سے مراد يہ ہے كہ اسے باقى سب قبروں كے برابر كر دو۔
ان احادیث میں قبر ’‘ برابر ’‘ یا ’‘ ہموار ’‘ کردینے سے مراد سطح زمین سے ہموار کر دینا نہیں ، کیونکہ اس طرح تو قبر پاوں کے نیچے روندی جائے گی۔ برابر کردینے سے مراد دوسری شرعی حد کے مطابق بنی قبروں کے برابر کرنا ہے ۔
بعض دیگر احادیث سے ثابت سنت صرف اتنا ہے كہ قبر زمين سے صرف ايك بالشت اونچى كى جائے‘ اسے كوہان كى طرح بنائى جائے اور اپنے مرحوم کی قبر کی پہچان کیلئے قبر کے سر کی جانب کوئی پتھر وغیرہ علامت کے طور پر رکھ دیا جائے۔
لیکن مسلمانوں کی اکثریت نے اپنے پیارے نبی ﷺ کی سنتوں کو پامال کرتے ہوئے قومِ فرعون کے طریقوں پر عمل کیا اور آج بھی اسی پر عمل کر رہے ہیں۔
قبروں پر عماررات‘ مزارات اور درگاہیں وغیرہ تعمیر کرکے اس کی تزیئن و آرائش کرنے کی جو قباحتیں ہیں آج وہ سب پر عیاں ہیں‘ اسی لئے نبی کریم ﷺ اس کی سختی سے ممانت کی تھی۔ نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ سارے کام بدعات اور حرام ہیں لیکن افسوس کہ صدیوں سے امت مسلمہ کی اکثریت ان بدعات اور حرام کا ارتکاب کرتی چلی آ رہی ہے اور ان سے منع کرنے والوں کو گمراہ اور کافر کہتی ہے۔
پھر ایسی امت جو اپنے نبی ﷺ کی سنت کو ٹھکرائے اور ال فرعون کی نقش قدم پر چلے ان کا مقدر ال فرعون سے جدا کیونکر ہو سکتا ہے؟ وہ سمندر برد ہونے سے کیسے بچ سکتی ہے؟
لہذا یہ امت مسلمہ ماضی میں بھی تباہی سے دوچار ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی ان کی مقدر میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں حتٰی کہ یہ امت لوٹ آئے اور قرآن و سنت کے مطابق اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرنے لگے۔
اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔
* محمد اجمل خان *