ترتیبِ قرآن کے سلسلے میں یہ بات بھی ناظرین کو معلوم ہونی چاہیے کہ یہ ترتیب بعد کے لوگوں کی دی ہوئی نہیں ہے، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلّم ہی نے قرآن کو اس طرح مرتّب فرمایا تھا۔ قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی سُورۃ تازل ہوتی تو آپ اُسی وقت اپنے کاتبوں میں سے کسی کو بُلاتے اور اس کو ٹھیک ٹھیک قلمبند کرانے کے بعد ہدایت فرمادیتے کہ یہ سُورۃ فلاں سُورۃ کے بعد اور فلاں سُورۃ سے پہلے رکھی جائے۔ اسی طرح اگر قرآن کا کوئی ایسا حصّہ نازل ہوتا جس کو مستقل سُورۃ بنانا پیشِ نظر نہ ہوتا، تو آپ ہدایت فرما دیتے تھے کہ اسے فلاں سُورۃ میں فلاں مقام پر درج کیا جائے۔ پھر اس ترتیب سے آپ خود بھی نماز میں اور دُوسرے مواقع پر قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے اور اسی ترتیب کے مطابق صحابہء کرام بھی اس کو یاد کرتے تھے۔ لہٰذا یہ ایک ثابِت شُدہ تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن مجید کا نُز ُول جس روز مکمل ہوا اسی روز اس کی ترتیب بھی مکمل ہوگئی۔ جو اس کا نازِل کرنے والا تھا وہی اس کا مرتّب کرنے والا بھی تھا۔ جس کے قلب پروہ نازل کیا گیا اُسی کے ہاتھوں اسے مرتّب بھی کرا دیا گیا۔ کسی دُوسرے کی مجال نہ تھی کہ اس میں مداخلت کرتا۔
____________________________
چونکہ نماز ابتداء ہی سے مسلمانوں پر فرض
۱؎ تھی، اور تلاوتِ قرآن کو نماز کا ایک ضروری جُزء قرار دیا گیا تھا، اس لیے نزولِ قرآن کے ساتھ ہی مسلمانوں میں حفظِ قرآن کا سلسلہ جاری ہوگیا اور جیسے جیسے قرآن اُترتا گیا مسلمان اس کو یاد بھی کرتے چلے گئے۔ اس طرح قرآن کی حفاظت کا انحصار صرف کھجور کے اُن پتّوں اور ہڈّی اور جھِلّی کے اُن ٹکڑوں ہی پر نہ تھا جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے کاتبوں سے اس کو قلمبند کرایا کرتے تھے، بلکہ وہ اُترتے ہی بیسیوں، پھر سینکڑوں، پھر ہزاروں، پھر لاکھوں دلوں پر نقش ہو جاتا تھا اور کسی شیطان کے لیے اس کا امکان ہی نہ تھا کہ اس میں ایک لفظ کا بھی ردّو بدل کر سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی وفات کے بعد جب عرب میں اِرتدار کا طوفان اُٹھا اور اس کے فرو کرنے کے لیے صحابہء کرام کو سخت خونریز لڑائیاں لڑنی پڑیں، تو ان معرکوں میں ایسے صحابہ کی ایک کثیر تعداد شہید ہوگئی جن کو پُورا قرآن حِفظ تھا۔ اِ س سے حضرت عمر ؓ کو خیال پیدا ہوا کہ قرآن کی حفاظت کے معاملے میں صرفف ایک ہی ذریعے پر اعتماد کر لینا مناسب نہیں ہے ، بلکہ الواحِ قلب کے ساتھ ساتھ صفحاتِ قرطاس پر بھی اس کو محفوظ کرنے کا انتظام کر لینا چاہیے ۔ چنانچہ اس کام کی ضرورت انہوں نے حضرت ابو بکر ؓ پر واضح کی اور انہوں نے کچھ تامّل کے بعد اس سے اتفاق کر کے حضرت زید بن ثابت انصاری ؓ کی، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے کاتب (سیکرٹری) رہ چکے تھے اس خدمت پر مامور فرمایا۔ قاعدہ یہ مقرر کیا گیا کہ ایک طرف تو وہ تمام لکھے ہوئے اجزاء فراہم کر لیے جائیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے چھوڑے
۲؎ ، اور پھر حفّاظ ِ قرآن سے بھی مدد لی جائے، اور ان تینوں ذرائع کی متّفقہ شہادت پر ، کام صحت کا اطمینان کرنے کے بعد ، قرآن کا ایک ایک لفظ مصحف میں ثبت کیا جائے۔ اس تجویز کے مطابق قرآن مجید کا ایک مستند نسخہ تیار کر کے اُمّ المومنین حضرت حفصہ ؓ کے ہاں رکھوا دیا گیا اور لوگوں کو عام اجازت دے دی گئی کہ جو چاہے اس کی نقل کرے اور جو چاہے اِس سے مقابلہ کر کے اپنے نسخے کی تصحیح کر لے۔
____________________________
عرب میں مختلف علاقوں اور قبیلوں کی بولیوں میں ویسے ہی فرق پائے جاتے تھے جیسے ہمارے ملک میں شہر شہر کی بولی اور ضلع ضلع کی بولی میں فرق ہے، حالانکہ زبان سب کی وہی ایک اُردو یا پنجابی یا بنگالی وغیرہ ہے۔ قرآن مجید اگرچہ نازل اُس زبان میں ہوا تھا جو مَکّہ میں قریش کے لوگ بولتے تھے، لیکن ابتداءً اس امر کی اجازت دے دی گئی تھی کہ دُوسرے علاقوں اور قبیلوں کے لوگ اپنے اپنے لہجے اور محاورے کے مطابق اسے پڑھ لیا کریں، کیونکہ اس طرح معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، صرف عبارت اُن کے لیے ملائم ہو جاتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ جب اسلام پھیلا اور عرب کے لوگوں نے اپنے ریگستا ن سے نِکل کر دُنیا کے ایک بڑے حصّے کو فتح کر لیا، اور دُوسری قوموں کے لوگ بھی دائرہءِ اِسلام میں آنے لگے، اور بڑے پیمانے پر عرب و عجم کے اِختلاط سے عربی زبان متاثر ہونے لگی، تو یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر اب بھی دُوسرے لہجوں اور محاوروں کے مطابق قرآن پڑھنے کی اجازت باقی رہی تو اس سے طرح طرح کے فتنے کھڑے ہو جائیں گے۔ مثلاً یہ کہ ایک شخص کسی دُوسرے شخص کو غیر مانوس طریقے پر کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہوئے سُنے گا اور یہ سمجھ کر اس سے لڑ پڑے گا کہ وہ دانستہ کلامِ الہٰی میں تحریف کر رہا ہے۔ یا یہ کہ یہ لفظی اختلافات رفتہ رفتہ واقعی تحریفات کا دروازہ کھول دیں گے۔ یا یہ کہ عرب وعجم کے اختلاط سے جن لوگوں کی زبان بگڑے گی وہ اپنی بگڑی ہوئی زبان کے مطابق قرآن میں تصرّف کر کے اس کے حُسنِ کلام کو بغاڑ دیں گے۔ ان وجوہ سے حضرت عثمان ؓ نے صحابہء کرام کے مشورے سے یہ طے کیا کہ تمام ممالکِ اسلامیہ میں صرف اُس معیاری نسخہء قرآن کی نقلیں شائع کی جائیں جو حضرت ابو بکر ؓ کے حکم سے ضبطِ تحریر میں لایا گیا تھا، اور باقی تمام دُوسرے لہجوں اور محاوروں پر لکھے ہوئے مَصاحف کی اشاعت ممنُوع قرار دے دی جائے۔ آج جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے، یہ ٹھیک ٹھیک اُسی مَصْحَفِ صدّیقی کے مطابق ہے جس کی نقلیں حضرت عثمان ؓ نے سرکاری اہتمام سے تمام دیا ر و امصار میں بھجوائی تھیں۔ اِس وقت بھی دُنیا میں متعدّد مقامات پر قرآن کے وہ مستند نسخے موجود ہیں۔ کسی کو اگر قرآن کی محفوظیّت میں ذرہ برابر بھی شک ہو تو وہ اپنا اطمینان اس طرح کر سکتا ہے کہ مغربی افریقہ میں کسی کتاب فروش سے قرآن کا ایک نسخہ خریدے، اور جاوا میں کسی حافظ سے زبانی قرآن سُن کر اس کا مقابلہ کرے، اور پھر دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں میں حضرت عثمان ؓ کے وقت سے لے کر آج تک مختلف صدیوں کے لکھے ہوئے جو مصاحف رکھے ہیں، ان سے اس کا تقابل کر لے۔ اگر کسی حرف یا شوشے کا فرق وہ پائے تو اس کا فرض ہے کہ دُنیا کو اس سب سے بڑے تاریخی انکشاف سے ضرور مطلع کرے۔ کوئی شک نواز قرآن کے مُنَزّل مِنَ اللہ ہونے میں شک کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ، لیکن یہ بات کہ جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے یہ بلا کسی کمی بیشی کے ٹھیک وہی قرآن ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے دُنیا کے سامنے پیش کیا تھا، یہ تو ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جس میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی دُوسری چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو اس قدر قطعیِ الثُّبوت ہو۔ اگر کوئی شخص اس کی صحت میں شک کر تا ہے تو وہ پھر اس میں بھی شک کر سکتا ہے کہ رومن امپائر نامی کوئی سلطنت دُنیا میں رہ چکی ہے، اور کبھی مغل ہندوستان پر حکومت کر چکے ہیں، اور ”نپولین“ نام کا کوئی شخص بھی دنیا میں پایا گیا ہے۔ ایسے ایسے تاریخی حقائق پر شکوک کا اظہار کرنا علم کا نہیں، جہالت کا ثبوت ہے۔
________________________________
قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی طرف دنیا میں بے شمار انسان بے شمار مقاصد لے کر رجوع کرتے ہیں۔ ان سب کی ضروریات اور اغراض کو پیشِ نظر رکھ کر کوئی مشورہ دینا آدمی کے لیے ممکن نہیں ہے۔ طالبوں کے اس ہجوم میں مجھ کو صرف ان لوگوں سے دلچسپی ہے جو اس کو سمجھنا چاہتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کے خواہشمند ہیں کہ یہ کتاب انسان کے مسائل ِ زندگی میں اس کی کیا رہنمائی کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کو میں یہاں طریقِ مطالعہ ء قرآن کے بارے میں کچھ مشورے دُوں گا اور کچھ ان مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کروں گا جو بالعمُوم انسان کو اس معاملہ میں پیش آتی ہیں۔ کوئی شخص چاہے قرآن پر ایمان رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، بہر حال اگر وہ اس کتاب کو فی الواقع سمجھنا چاہتا ہے تو اوّلیں کام اسے یہ کرنا چاہیے کہ اپنے ذہن کو پہلے سے قائم کیے ہوئے تصوّرات سے ، اور موافقانہ یا مخالفانہ اغراض سے جس حد تک ممکن ہو خالی کرے اور سمجھنے کا خالص مقصد لے کر کھُلے دل سے اس کو پڑھنا شروع کرے۔ جو لوگ چند مخصُوص قسم کے خیالات ذہن میں لے کر اس کتاب کو پڑھتے ہیں وہ اس کی سطروں کے درمیان اپنے ہی خیالات پڑھتے چلے جاتے ہیں، قرآن کی اُن کو ہوا بھی نہیں لگنے پاتی۔ یہ طریقِ مطالعہ کسی کتاب کو پڑھنے کے لیے بھی صحیح نہیں ہے، مگر خصُوصیّت کے ساتھ قرآن تو اس طرز کے پڑھنے والوں کے لیے اپنے معانی کے دروازے کھولتا ہی نہیں۔ پھر جو شخص محض سرسری سی واقفیت بہم پہنچانا چاہتا ہو، اُس کے لیے تو شاید ایک دفعہ پڑھ لینا کافی ہو جائے، لیکن جو اس کی گہرائیوں میں اُترنا چاہے اس کے لیے دوچار دفعہ کا پڑھنا بھی کافی نہیں ہوسکتا۔ اس کو بار بار پڑھنا چاہیے، ہر مرتبہ ایک خاص ڈھنگ سے پڑھنا چاہیے، اور ایک طالب ِ علم کی طرح پنسل اور کاپی ساتھ لے کر بیٹھنا چاہیے تاکہ ضروری نِکات توٹ کر تا جائے۔ اِس طرح جو لوگ پڑھنے پر آمادہ ہوں اُن کو کم از کم دو مرتبہ پُورے قرآن کو صرف اس غرض کے لیے پڑھنا چاہیے کہ ان کے سامنے بحیثیت مجموعی وہ پُورا نظامِ فکر وعمل آجائے جسے یہ کتاب پیش کرنا چاہتی ہے۔ اِس ابتدائی مطالعہ کے دَوران میں وہ قرآن کے پُورے منظر پر ایک جامع نظر حاصل کرنے کی کوشش کریں اور یہ دیکھتے جائیں کہ یہ کتاب کیا بُنیادی تصوّرات پیش کرتی ہے اور پھر ان تصوّرات پر کِس قسم کا نظامِ زندگی تعمیر کرتی ہے۔ اِس اثنا میں اگر کسی مقام پر کوئی سوال ذہن میں کھٹکے تو اس پر وہیں اُسی وقت کوئی فیصلہ نہ کر بیٹھیں بلکہ اسے نوٹ کر لیں اور صبر کے ساتھ آگے مطالعہ جاری رکھیں۔ اغلب یہ ہے کہ آگے کہیں نہ کہیں انہیں اس کا جواب مِل جائے گا۔ اگر جواب مِل جائے تو اپنے سوال کے ساتھ اسے نوٹ کر لیں۔ لیکن اگر پہلے مطالعہ کے دَوران میں انہیں اپنے کسی سوال کا جواب نہ ملے تو صبر کے ساتھ دُوسری بار پڑھیں۔ میں اپنے تجربے کی بنا پر یہ کہتا ہوں کہ دُوسری بار کے غائر مطالعہ میں شاذ و نادر ہی کوئی سوال جواب طلب باقی رہ جاتا ہے۔ اِس طرح قرآن پر ایک جامع نظر حاصل کر لینے کے بعد تفصیلی مطالعہ کی ابتدا کر نی چاہیے۔ اس سلسلے میں ناظر کو تعلیماتِ قرآن کا ایک ایک پہلو ذہن نشین کر کے نوٹ کرتے جانا چاہیے۔ مثلاً وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے کہ انسانیت کا کونسا نمو نہ ہے جسے قرآن پسندیدہ قرار دیتاہے اور کس نمونے کے انسان اس کے نزدیک مبغوض و مردُود ہیں۔ اس مضمُون کو اچھی طرح اپنی گرفت میں لانے کے لیے اس کو چاہیے کہ اپنی کاپی پر ایک طرف”پسندیدہ انسان“ اور دُوسری طرف ”نا پسندیدہ انسان“ کی خصُوصیات آمنے سامنے نوٹ کر تا چلا جائے۔ یا مثلاً وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ قرآن کے نزدیک انسان کی فلاح و نجات کا مدار کن اُمُور پر ہے، اور کیا چیزیں ہیں جن کو وہ انسان کے لیے نقصان اور ہلاکت اور بربادی کا موجب قرار دیتا ہے ۔ اس مضمون کو بھی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ جاننے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی کاپی پر”موجباتِ فلاح“ اور”موجباتِ خُسران“ کے دو عنوانات ایک دُوسرے کے مقابل قائم کر لے اور مطالعہ ءِ قرآن کے دَوران دونوں قسم کی چیزوں کو نوٹ کرتا جائے۔ علیٰ ہٰذ ا القیاس عقائد، اخلاق، حقوق، فرائض، معاشرت، تمدّن، معیشت، سیاست، قانون، نظمِ جماعت، صلح، جنگ اور دُوسرے مسائلِ زندگی میں سے ایک ایک کے متعلق قرآن کی ہدایات کو آدمی نوٹ کر تا چلا جائے، اور یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ ان میں سے ہر ہر شعبے کی مجمُوعی شکل کیا بنتی ہے اور پھر ان سب کو مِلا کر جوڑ دینے سے پُورا نقشہء زندگی کِس قسم کا بنتا ہے۔ پھر جب آدمی کسی خاص مسئلہ ء زندگی کے بارے میں تحقیق کرنا چاہے کہ قرآن کا نقطہ ء نظر اس کے متعلق کیا ہے، تو اس کے لیے عمدہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے وہ اس مسئلے کے متعلق قدیم و جدید لٹریچر کا گہرا مطالعہ کر کے واضح طور پر یہ معلوم کر لے کہ اس مسئلے کے بُنیادی نکات کیا ہیں، انسان نے اب تک اس پر کیا سوچا اور سمجھا ہے، کیا اُمور اس میں تصفیہ طلب ہیں، اور کہاں جا کر انسانی فکر کی گاڑی اٹک جاتی ہے۔ اس کے بعد انہی تصفیہ طلب مسائل کو نگاہ میں رکھ کر آدمی کو قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ میرا تجربہ ہے کہ اس طرح جب آدمی کسی مسئلے کی تحقیق کے لیے قرآن پڑھنے بیٹھتا ہے تو اسے ایسی ایسی آیتوں میں اپنے سوالات کا جواب ملتا ہے جنہیں وہ اس سے پہلے بیسیوں مرتبہ پڑھ چکا ہوتا ہے اور کبھی اس کے حاشیہ ء خیال میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ یہاں یہ مضمون بھی چھُپا ہوا ہے۔
________________________________