ماوراء
محفلین
صفحہ : 20 - 16
خود مختار بادشاہ جن کا کوئی ہاتھ روکنے والا نہیں ہوتا اور تمام بیت المال جس کا جیب خرچ ہوتا ہے اس کی بے دریغ بخشش شعراء کی آزادی کے حق میں سم قاتل ہوتی ہے۔ وہ شاعر جس کو قوم کا سرتاج اور سرمایہء افتخار ہونا چاہیے تھا۔ ایک بندہ ہو اوہوس کے دروازہ پر دریوزہ گروں کی طرح صدا لگاتا اور شیئاللہ کہتا ہوا پہنچتا ہے۔ اول اول مدح و ستائش میں سچ بالکل قطع نظر نہیں کی جاتی۔ کیونکہ قومی عروج کی ابتدا میں ممدوح اکثر مدح کے مستحق ہوتے ہیں اور شاعر کی طبیعت سے آزادی کا جوہر رفتہ رفتہ زائل نہیں ہو جاتا لیکن جب واقعات نبٹ جاتے ہیں اور مداح سرائی کی کر ہمیشہ کے لیے شاعر کے ذمہ لگ جاتی ہے تو اس کی شاعری کا مدار صرف جھوٹی تہمتیں باندھنے پر رہ جاتا ہے۔ پھر جب آفتابِ اقبال کا دورہ جس کی عمر طبیعی شخصی سلطنتوں میں اکثر سو برس سے زیادہ نہیں ہوئی ختم ہونے کو ہوتا ہے اور سلاطین و امراء میں خوبیاں جن کے سبب سے وہ جمہور انام کے شکر و سپاس و مدح و ستائش کے مستحق اور شعراء کی مداحی سے مستغنی ہوں باقی نہیں رہتیں تو ان شاعروں کی بھٹی کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں سوجھتی جس کو سن کر ان کا نفس مونا ہو۔ لہذا ان کو شعرا کی زیادہ قدر کرنی پڑتی ہے۔ اس سے جھوٹی شاعری کو اور زیادہ ترقی ہوتی ہے پھر بہت سے نا شاعر جب شاعروں کو گراں بہا صلے اور خلعت و انعام برابر پاتے دیکھتے ہیں تو ان کو بہ تکلف اپنے تیئں شاعر بنانا پڑتا ہے لیکن چونکہ ان کی طبیعت میں شاعرانی جدت و اختراع کا مادہ نہیں ہوتا وہ اصلی شاعروں کی نہایت بھونڈی تقلید کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جس طرح بڑھاپے کی تصویر بچپن سے کچھ مناسبت نہیں رکھتی اسی طرح رفتہ رفتہ شعر کی صورت کو یا مسخ ہو جاتی ہے اور شاعری کا ماحصل سوا اس کے کہ اس سے قربِ سلطانی ہوتا ہے اور کچھ نہیں رہتا۔