فسانہ عجائب جس کے مصنف مرزا رجب علی بیگ سرور تھے اردو زبان کی ایک نہایت مشہور و معروف کتاب ہے ۔ہر چند یہ کتاب اس طرز تحریر کا ایک مکمل نمومنہ ہے جس کی بنیاد محض آورداور تصنع پر قائم ہے اور جس کے موضوع میں بھی کوئی خاص دلکشی نہیں مگر آج تک یہ کتاب نہایت مقبول ہے اور باوجود ان تمام باتوں کے جو بظاہر معائب معلوم ہوتی ہیں ۔ اس کتاب کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ باتیں جو عام نظروں کو معائب معلوم ہوتی ہیں ایک نقاد سخن کے نزدیک معائب نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک اپنے اندر ایک تاریخی خصوصیت پنہاں رکھتی ہے ۔
فسانہ عجائب کی اصلی اہمیت اردو زبان کی تاریخ کے سلسلہ میں معلوم ہوتی ہے اس زبان نے موجودہ حالت تک پہنچنے کے لئے مختلف مدارج طے کئے ہیں اور ان میں ہر درجہ اپنے مقام پر ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے اور ارتقائے زبان کا مطالعہ کرنے والوں کے لئے بیش از بیش دلچسپیوں کا حامل ہے ۔ ہر ایسے عہد کو جس کی زبان گذشته عہد کی زبان سے ممیز کی جا سکے ارتقا کی ایک کڑی کہا جاتا ہے اور ان تمام کڑیوں کے مجموعہ کا نام تاریخ ہے اگر ایک بھی کڑی کھو جائے یا اسکی بابت پورے حالات مہیا نہ ہو سکیں تو تاریخ نامکمل رہ جائیگی۔ چنانچہ اردو کی تدریجی ترقیوں کے زمانہ میں ایک وقت ایسا بھی گذرا ہے جب فارسی کا بہت چرچا تھا اور اہل علم اردو میں تصنیف و تالیف حتی کہ مراسلت کرنا بھی اپنے لئے باعث لذت سمجھتے تھے۔ آخر جب اردو کی جانب میلان ہوا تو نشر مقفی اور دوسری قسم کی نشروں کو جس میں نثر معری شامل نہ تھی اظہارخیال کا وسیلہ قرار دیا۔ رفتہ رفتہ یہ طرز تحریر باوجود نہایت محدود و مصنوعی ہونے کے نہ صرف رائج بلکه مقبول ہوگیا۔ سرور نثر مقفّی کے بہترین لکھنے والے تھے اور فسانہ عجائب ان کا شہ پارہ خیال کیا جاتا ہے۔ تاریخی حیثیت سے اس کتاب کی نہایت عزت کی جاتی ہے مگر اس سے یہ نہ سمجھ لیاجائے کہ صرف یہی ایک سبب اس کے اعزاز کا ہے حقیقت یہ ہے کہ کتاب ادبی محاسن کا ایک مجموعہ ہے جبکی ساری خوبیوں کو تفصیل کے ساتھ ظاہر کرنےکے لیے ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے۔
سرور کے والد کا نام مرزا اصغر علی بیگ تھا اور وہ ایک نہایت معزز خاندان کے ایک فرد تھے۔ سرور کا سنہ پیدائش 1201ھ یا 1202ھ خیال کیاجاتا ہے سرور کے وطن کے متعلق بڑا اختلاف ہے۔ زیادہ لوگوں کا فیصلہ تو یہی ہے کہ سرور لکھنو کے باشندے تھے مگر واقعہ اس کے خلاف ہے ۔ سرور کی تصانیف میں اس قسم کی شہادت موجود ہے کہ وہ لکھنو کے باشندے نہیں تھے اس لئے ظاہر ہے کہ ان کا آبائی وطن اکبر آباد تھا۔ چونکہ یہ مقام اس بحث کے لیے مناسب نہیں ہے اس لئے صرف یہ بتا کر کہ سرور کا وطن آگرہ تھا۔ یہ بات ختم کی جاتی ہے ۔ سرور فارسی اور عربی میں دستگاه کامل رکھتے تھے اور انکی تربیت ذوق لکھنو کی رنگین وادبی فضا میں ہوئی تھی۔ شاعری کی طرح ۔سرور کو خطاطی میں بھی کمال حاصل تھا اور اس فن میں وہ محمد ابراہیم کے شاگرد تھے جنکا ذکر فسانہ عجائب میں نہایت عزت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سرور کو موسیقی کے علم و فن دونوں شعبوں میں پورا کمال حاصل تھا مگر اس علم پر انھوں نے کوئی تصنیف نہیں چھوڑی۔ فن شعر میں سرور ، آغا نوازش حسین عرف مرزا خانی متخلص به نوازش
ص 3
کے شاگرد تھے جن کا ذکر نام عجائب میں نہایت احترام کے ساتھ موجود ہے ۔
سرور لکھنو کے قدیم نثرنگاروں میں ایک نہایت بلند پایه استاد سمجھے جاتے ہیں اور نثرمقفّٰی کے بڑے زبردست ماہر تھے۔ غالباََ یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ اس طرز کے لکھنے والوں میں کوئی دوسرا نثار ، ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا جو سرور سے دعوائے ہمسری رکھتا ہو۔ ایک انسان کی حیثیت سے سرور نہایت خوش مزاج ، زندہ دل اور صحبت پسند آدمی تھے۔ اس کے علاوہ خوش گفتار اور حسین بھی تھے۔ ان خصوصیات کی بنا پر لوگوں کا ان کی جانب میلان تھا۔ شرف الدین میرٹھی اور غالب کے ساتھ ان کے خاص تعلقات تھے۔ غالب نے گلزار سرور پر ایک تبصرہ بھی لکھا ہے اور فسانہ عجائب کے ذکرمیں سرور کو اپنے عہد کا بہترین نثر نگار تسلیم کیا ہے۔
1240ھ میں سرور کانپور میں وارد ہوئے کہا جاتا ہے کہ نواب غازی حیدر کے حکم سے جلا وطن کرکے سرور کو کانپور بھیجا گیا تھا۔ فسانہ عجائب میں ، صاف الفاظ میں ، کانپور کی ہجو کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرور کو اس مقام سے کس قدر نفرت تھی۔
فسانہ عجائب سرور نے یہیں تصنیف کیا اور ایک قصیده نواب غازی الدین حیدر کی شان میں اس امید پر لکھا کہ وطن عزیز کو واپس جانے کی اجازت مل جائے۔ آخر غازی الدین کے مرجانے کے بعد ایک قصیده نواب نصیر الدین حیدر کی شان میں اضافہ کیا اور مسودہ لیکر لکھنو آئے۔ ۔ 1824ء میں سرور نے اپنی نہایت مشہور معروف کتاب فسانہ عجائب تصنيف کی تداء میں ان کی زوجہ نے انتقال کیا مگر اسی سال واجد علی شاہ والئ اودھ نے سرور کو اپنے شعرائے در بارمیں داخل کرکے پچاس روپے ماہوار تنخواہ مقرر