طارق شاہ
محفلین
غزل
مقرّر کچھ نہ کچھ اِس میں رقیبوں کی بھی سازش ہے
وہ بے پروا الٰہی مجھ پہ کیوں گرمِ نوازش ہے
پے مشق ِتغافل آپ نے مخصُوص ٹھہرایا
ہمیں یہ بات بھی مُنجملۂ اسبابِ نازش ہے
مِٹا دے خود ہمیں گر شِکوۂ غم مِٹ نہیں سکتا
جفائے یار سے یہ آخری اپنی گزارش ہے
کہاں ممکن کسی کو باریابی اُن کی محِفل میں
نہ اطمینانِ کوشش ہے نہ اُمیدِسفارش ہے
نہاں ہے دِل پذِیری جس کے ہر ہر لفظِ شیریں میں
یہ کس جانِ وفا کے ہاتھ کی رنگیں نِگارش ہے
کیا تھا ایک دِن دِل نے جو دعویِٰ شکیبائی !
سَو، اب تک اُن کے نازِ دِلبَرِی کو ہم سے کاوِش ہے
ہُجوم ِیاس نے بےدِل کیا ایسا ، کہ حسرؔت کو !
تِرے آنے کی اب اُمید باقی ہے، نہ خواہش ہے
مولانا حسرؔت موہانی