محمد علم اللہ
محفلین
ضیا ء الرحمان اصلاحی
اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں اپنے پیغمبروں کی زبانی یہ دعا نقل کی ہے ’’رب اغفر لی ولوالدیَّ وللمومین الخ‘‘ اور یہ دعا بھی سکھائی ’’رب ارحمہما کما ربیٰنی صغیراً‘ اور یہ تعلیم بھی دی ’’وَبَرًّا بوالدتی ولَم یجعلنی جباراً شقیاً‘‘ اور جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ صلہ رحمی کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ تو حضور نے تین بار فرمایا’’تمہاری ماں‘‘ پھر فرمایا ’’تمہاراباپ‘‘ مزید فرمایا ’’باپ جنت کا دروازہ ہے جو چاہے اسے اپنے لیے کھول لے اور چاہے تو بندکر لے‘‘ اوکماقال علیہ الصلوٰ والسلام۔
ایک طرف وحی الٰہی اور کلام نبوت ہے اور دوسری طرف معصوم ذہنوں میں پرورش پاتے باغیانہ خیالات، والدین کے اپنے تعلق سے کچھ فیصلوں کو ان کی غیر ذمہ دارانہ روش سمجھ کر ان سے نالاں بچے اور وہ والدین جو اپنے مذاق اور ذہنی سطح کے لحاظ سے اپنے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے لیے فکر مند ہوتے ہیں، یہ ایک حد درجہ حساس موضوع ہے، تعلیم وتربیت کی جہت سے والدین کی ذمہ داریاں غیر معمولی ہیں، سن رشد کو پہنچ جانے کے بعد بچوں کی اپنے والدین کے باب میں ذمہ داریاں بدرجہا بڑ ھ جاتی ہیں، حقوق کی کماحقہ ادائیگی میں افراط وتفریط دونوں طرف سے ہوجاتی ہے، جس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں، لیکن اس المیہ پر اگر انسان تمام عمر افسوس کرتا رہے اور اپنے جی میں کڑھتا رہے تو صورت حال مزید سنگین ہوجاتی ہے، اس طرح کے حالات ہمارے سوسائٹی کے ایک بہت بڑے طبقہ کا المیہ بھی ہیں، لیکن جب ایسے ماحول سے اکتائے ہوئے لوگ اس طرح کے واقعات کو اپنی اصلاح کا ذریعہ بنالیتے ہیں تو وہ اپنے گھر کے اسی کرب ناک ماحول اور ناپسندیدہ صورت حال کو قابو میں بھی کرلیتے ہیں اور اپنی آئندہ زندگی کے لیے لائحۂ عمل مرتب کرنے میں بھی بڑی حد تک کامیاب ہوجاتے ہیں، لیکن اگر ان کا رویہ انتقامی صورت اختیار کرلیتا ہے اور ان سوچ کے دھارے میں باغیانہ خیالات کا عنصر غالب آجاتاہے تو ایک کرب مسلسل میں وہ نہ صرف خود جاپڑتے ہیں بلکہ ان سے وابستہ افراد بھی ان کے اس طرز فکر سے نہ متاثر ہوتے ہیں اوروہ بھی دوسروں کے لیے اسی طرح کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں،ایسے حالات میں وہ بچے جنہیں فطرت عقل سلیم عطاکرتی ہے اپنی دانش مندی سے حالات کے رخ کو بدلتے اور تلخ اور ناگوار کیفیت کو حد درجہ خوش گوار بنادیتے ہیں۔
وہ بچے جو قسمت سے فیض اسلام سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور ان کی شخصیت میں مذہب کا رسوخ ہوتا ہے ان کی نگاہوں میں لوگوں کے مراتب واضح ہوتے ہیں ، پھر انہیں اس بات کا گلہ نہیں ہوتا ہے کہ ان کے حقوق سلب ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنی عمر عزیز کا ایک نازک دور محرومیوں میں گذاراہے، وہ اپنے ذمہ داروں کو اس بات کا احساس کبھی نہیں دلاتے بلکہ اب جو ان پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ ان کو احسن طریقہ سے ادا کرنے کی کوشش کرتے اور تلافیِ مافات کرتے ہیں، ان کے مستحسن اقدامات سے سب لوگ خوش ہوتے ہیں اور جنہوں نے حقوق کی ادائیگی میں تساہل برتا ہے انہیں بھی اس کا احساس ہوجاتاہے ، اس کی مثالیں بھی بآسانی مل سکتی ہیں۔ اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب ضرور تلاش کرنا چاہیے، لیکن انہیں ایسا رخ نہ دیا جائے جس سے خود انسان کی اپنی شخصیت کو نقصان پہنچے، مثبت انداز فکر بہت سے تفکرات سے نجات دیتا اور ذہن کی صحیح نہج پر تربیت کرتاہے۔
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’اَمَرَنَا رَسْولْ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہْ عَلَیہِ وَسَلَّمَ اَن نْنَزِّلَ النَّاسَ مَنَازِلَہْم‘‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم لوگوں کو ان کے مرتبوں پر رکھا کریں‘‘یہ تعلیم خود بہت سی ناپسندیدگیوں کو ختم کردیتی اور ایسے معاشرہ کی تشکیل کرتی ہیں جس میں حفظ مراتب کو اولیت مل جاتی ہے پھرہر فرد خوش وخرم ہوتاہے اور زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔میری یہ باتیں دراصل ان تفکرات کا جواب ہے جو وقتا فوقتا مختلف مواقع پر نوجوانوں نے اپنی محرومی کے ذکر میں پیش کیے اس کے اسباب و عواقب پر نظر ڈالیں تو کئی چیزیں سامنےآتی ہیں مثلا ۔آج کل کے تیزی سے بدلتے ہوئے مقابلے کے رجحانات نے جہاں بچوں میں آگے بڑھنے کی لگن پیدا کی جا چکی ہے کی جا چکی اس لیے کہا کہ ابتدا ہی سے بچوں کے کان میں یہ بات ڈالنا شروع کر دیتے ہیں کہ تم کو بڑے ہو کر یہ بننا ہے تو وہیں سے ہی بچوں سے ان کے انتخاب کاموقع نہیں دیتے اور ان سے ان کے اظہار اور پسند وناپسند کی آزادی سلب ہوجاتی ہے، والدین میں بھی ایک عجب بے چینی و اضطراب پایاجاتاہے وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ اچھی تعلیم حاصل کرے اور اس کے لیے وہ انہیں اپنے سے دور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔جب کہ کچھ والدین اس قدر غافل ہو جاتے ہیں کہ اپنے بچہ کو کسی تعلیمی وتربیتی ادارہ میں داخل کرنے کے بعد اپنی کسی بھی قسم کی تربیتی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے اور یہ روش خطرناک صورت حال پر منتج ہوتی ہے۔
ایک اور بات آج کل اکثردیکھنے میں آتی ہے والدین نے مادیت پرستی کو اس قدر اپنے دل و دماغ پر سوار کررکھا ہے کہ ان کے پاس اپنی اولاد کے لئے بھی وقت نہیں ہے اور دن رات اسی فکر میں سرگرداں ہیں کہ کس طرح دنیاوی اسباب ووسائل کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر کیا جائے۔ ایسے والدین کے بچے احساس محرومی کے بوجھ تلے دفن ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو تپے ہوئے صحرا میں محسوس کرتے ہیں، جہاں دور دور تک کہیں سایہ نظر نہیں آتا۔ دنیا کمانا اور روزی کے اسباب اختیار کرنا ہر انسان کے لئے ضروری ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو بھی پس پشت ڈال دے۔ بعض والدین اپنے بچوں پر بے جا سختی کرتے ہیں اور ان کو معمولی بات پر بھی سخت سزا یا شدید ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے تمام جذبات و احساسات مرجاتے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں اور گھر کو جیل خانہ تصور کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسے بچے والدین سے نفرت کرتے ہیں اور ان سے دور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ بعض والدین تو اس قدر سخت مزاج ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔
بعض والدین اپنی اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کا اہتمام نہیں کرتے۔ وہ بڑے بچے کو چھوٹوں پر یا لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ جس بچے کے ساتھ زیادہ شفقت اور پیار کا رویہ رکھا جائے اور دوسروں کی حق تلفی کرکے اسے اہمیت دی جائے گی وہ ضدی، ہٹ دھرم اور خودسر بن جائے گا جبکہ بقیہ بچے احساس کمتری کاشکار ہوکر والدین کے خلاف سوچنے پر مجبور ہوں گے۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض والدین اپنے بچوں کو نوکروں، خادماؤں اور ڈرائیوروں کے سپرد کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ براں ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ ان لوگوں کا تعاون حاصل کرنا بعض دفعہ مجبوری ہوسکتا ہے مگر بچوں کو اپنی محبت سے محروم کردینا عقلمندی نہیں۔ جو حقیقی پیار، محبت، مودت، عاطفیت اور شفقت ماں باپ کی آغوش میں اولاد کو مل سکتی ہے، وہ پرائے ہاتھوں میں کہاں ہے؟ والدین کو چاہئے کہ بچوں کا خود خیال رکھیں اور مجبوری کے وقت نوکروں اور خادماؤں سے مدد لیں۔
میں نے خود کئی والدین سے یہ تذکرہ کرتے ہوئے سنا ہے کہ بچے ان کی قدر نہیں کرتے۔آخر اس کی وجہ کیا ہے اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، کہیں دانستہ یا نا دا نستہ طور پر ہم سے اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی چوک تو نہیں ہو رہی اس تناظر میں بھی حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، سارا قصور بچوں کے اوپر ڈال دینے سے کام نہیں بنے گا کیوں کہ شریعت نے اگر بچوں کے والدین کے اوپر حقوق کی صراحت کی ہے تو والدین کو بھی بچوں کے حقوق بتائے ہیں۔ جن کا خیال رکھنا اور پورا کرنا اولاد پر واجب ہے،شریعت نے ویسے ہی اولاد کے کے لئے کچھ حقوق بیان فرمائے ہیں جن کا اہتمام والدین پر فرض ہے اور ان میں کوتاہی یا سستی دراصل اولاد کے ساتھ خیانت کے زمرے میں آتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کُلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ (بخاری)’’ترجمہ:تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور اپنی رعایا اور ماتحتوں کے بارے میں تم سے جواب طلبی کی جائے گی‘‘۔والدین چونکہ اولاد کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ اس لئے بچوں کے حقوق کا تحفظ ہر لحاظ سے کرنا ہوگا ورنہ ناقص تربیت اور لاپرواہی کی پاداش میں جہاں نئی نسل کا مستقبل تباہ و برباد ہوگا وہاں والدین پروردگار عالم کے حضور ایک مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے اور اس کی گرفت سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
علم نفسیات کے ماہرین بچوں کے انفرادی اِمتیازات پر درجنوں کتابیں تحریر کر چکے ہیں،ان کے مطابق ہر بچے کی اپنی شناخت ہوتی ہے، اپنی طبیعت،اپنی پسند ناپسند، اس کا اپنا مزاج،گویا ہر بچہ دوسرے کسی بھی بچے سے قطعی مختلف اورانفرادی شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔معلوم ہوا تمام بچے یکساں نہیں ہوتے ،نہ تمام بچوں کی ایک ہی طریقے سے تربیت کی جاسکتی ہے اور نہ پرورش۔بچوں کی طبیعت،پسند ناپسند،مزاج اور معیار کو ان کے اپنے والدین سے بہتر دْنیاکا دوسرا کوئی فرد نہیں سمجھ سکتا۔کسی بھی اعلیٰ تربیت یافتہ تربیت کار کی بہ نسبت والدین ہی اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔بچے والدین کی ذمہ داری ہوتے ہیں، یہ کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں کہ انہیں خود سے دور کرکے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی جائے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ والدین کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ ان کے بچے ان سے دور رہ کر کس قسم کی تعلیم اور تربیت پا رہے ہیں، اس لیے انہیں سنبھالنا ان کا فرض منصبی بھی ہے، ورنہ ایسے حالات میں بچوں کے نازک ذہنوں پر بے حد منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ایسے میں ان کے ساتھ خدانخواستہ کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے جو وہ آپ کو زندگی بھر نہ بتائیں تو اس اثرات کا تدارک کرنے والا کون ہوگا؟
یہ کچھ سنجیدہ سوالات ہیں جن کے جواب کی تلاش مہتم بالشان معاملہ ہے، یہ سوالات اگر چہ اول اول نہیں پیدا ہوئے ہیں بلکہ ہمیشہ حساس موضوع رہے ہیں اور ہر دور میں ان کی اہمیت اسی طرح برقرار رہی ہے اور اس جہت میں مثبت پیش رفت بھی ہوتی ہے، لیکن زمینی سطح پر اس کے اثرات بہت ہی کم مرتب ہوپاتے ہیں جس کا جائزہ بھی اہمیت کا حامل ہے، قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں اس موضوع پر بے داری لانا بھی ضروری ہے، یہ ہر نئی نسل کی تربیت کا مسئلہ ہے اور ہر دور کے افراد کی ذمہ داری بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں اپنے پیغمبروں کی زبانی یہ دعا نقل کی ہے ’’رب اغفر لی ولوالدیَّ وللمومین الخ‘‘ اور یہ دعا بھی سکھائی ’’رب ارحمہما کما ربیٰنی صغیراً‘ اور یہ تعلیم بھی دی ’’وَبَرًّا بوالدتی ولَم یجعلنی جباراً شقیاً‘‘ اور جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ صلہ رحمی کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ تو حضور نے تین بار فرمایا’’تمہاری ماں‘‘ پھر فرمایا ’’تمہاراباپ‘‘ مزید فرمایا ’’باپ جنت کا دروازہ ہے جو چاہے اسے اپنے لیے کھول لے اور چاہے تو بندکر لے‘‘ اوکماقال علیہ الصلوٰ والسلام۔
ایک طرف وحی الٰہی اور کلام نبوت ہے اور دوسری طرف معصوم ذہنوں میں پرورش پاتے باغیانہ خیالات، والدین کے اپنے تعلق سے کچھ فیصلوں کو ان کی غیر ذمہ دارانہ روش سمجھ کر ان سے نالاں بچے اور وہ والدین جو اپنے مذاق اور ذہنی سطح کے لحاظ سے اپنے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے لیے فکر مند ہوتے ہیں، یہ ایک حد درجہ حساس موضوع ہے، تعلیم وتربیت کی جہت سے والدین کی ذمہ داریاں غیر معمولی ہیں، سن رشد کو پہنچ جانے کے بعد بچوں کی اپنے والدین کے باب میں ذمہ داریاں بدرجہا بڑ ھ جاتی ہیں، حقوق کی کماحقہ ادائیگی میں افراط وتفریط دونوں طرف سے ہوجاتی ہے، جس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں، لیکن اس المیہ پر اگر انسان تمام عمر افسوس کرتا رہے اور اپنے جی میں کڑھتا رہے تو صورت حال مزید سنگین ہوجاتی ہے، اس طرح کے حالات ہمارے سوسائٹی کے ایک بہت بڑے طبقہ کا المیہ بھی ہیں، لیکن جب ایسے ماحول سے اکتائے ہوئے لوگ اس طرح کے واقعات کو اپنی اصلاح کا ذریعہ بنالیتے ہیں تو وہ اپنے گھر کے اسی کرب ناک ماحول اور ناپسندیدہ صورت حال کو قابو میں بھی کرلیتے ہیں اور اپنی آئندہ زندگی کے لیے لائحۂ عمل مرتب کرنے میں بھی بڑی حد تک کامیاب ہوجاتے ہیں، لیکن اگر ان کا رویہ انتقامی صورت اختیار کرلیتا ہے اور ان سوچ کے دھارے میں باغیانہ خیالات کا عنصر غالب آجاتاہے تو ایک کرب مسلسل میں وہ نہ صرف خود جاپڑتے ہیں بلکہ ان سے وابستہ افراد بھی ان کے اس طرز فکر سے نہ متاثر ہوتے ہیں اوروہ بھی دوسروں کے لیے اسی طرح کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں،ایسے حالات میں وہ بچے جنہیں فطرت عقل سلیم عطاکرتی ہے اپنی دانش مندی سے حالات کے رخ کو بدلتے اور تلخ اور ناگوار کیفیت کو حد درجہ خوش گوار بنادیتے ہیں۔
وہ بچے جو قسمت سے فیض اسلام سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور ان کی شخصیت میں مذہب کا رسوخ ہوتا ہے ان کی نگاہوں میں لوگوں کے مراتب واضح ہوتے ہیں ، پھر انہیں اس بات کا گلہ نہیں ہوتا ہے کہ ان کے حقوق سلب ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنی عمر عزیز کا ایک نازک دور محرومیوں میں گذاراہے، وہ اپنے ذمہ داروں کو اس بات کا احساس کبھی نہیں دلاتے بلکہ اب جو ان پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ ان کو احسن طریقہ سے ادا کرنے کی کوشش کرتے اور تلافیِ مافات کرتے ہیں، ان کے مستحسن اقدامات سے سب لوگ خوش ہوتے ہیں اور جنہوں نے حقوق کی ادائیگی میں تساہل برتا ہے انہیں بھی اس کا احساس ہوجاتاہے ، اس کی مثالیں بھی بآسانی مل سکتی ہیں۔ اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب ضرور تلاش کرنا چاہیے، لیکن انہیں ایسا رخ نہ دیا جائے جس سے خود انسان کی اپنی شخصیت کو نقصان پہنچے، مثبت انداز فکر بہت سے تفکرات سے نجات دیتا اور ذہن کی صحیح نہج پر تربیت کرتاہے۔
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’اَمَرَنَا رَسْولْ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہْ عَلَیہِ وَسَلَّمَ اَن نْنَزِّلَ النَّاسَ مَنَازِلَہْم‘‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم لوگوں کو ان کے مرتبوں پر رکھا کریں‘‘یہ تعلیم خود بہت سی ناپسندیدگیوں کو ختم کردیتی اور ایسے معاشرہ کی تشکیل کرتی ہیں جس میں حفظ مراتب کو اولیت مل جاتی ہے پھرہر فرد خوش وخرم ہوتاہے اور زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔میری یہ باتیں دراصل ان تفکرات کا جواب ہے جو وقتا فوقتا مختلف مواقع پر نوجوانوں نے اپنی محرومی کے ذکر میں پیش کیے اس کے اسباب و عواقب پر نظر ڈالیں تو کئی چیزیں سامنےآتی ہیں مثلا ۔آج کل کے تیزی سے بدلتے ہوئے مقابلے کے رجحانات نے جہاں بچوں میں آگے بڑھنے کی لگن پیدا کی جا چکی ہے کی جا چکی اس لیے کہا کہ ابتدا ہی سے بچوں کے کان میں یہ بات ڈالنا شروع کر دیتے ہیں کہ تم کو بڑے ہو کر یہ بننا ہے تو وہیں سے ہی بچوں سے ان کے انتخاب کاموقع نہیں دیتے اور ان سے ان کے اظہار اور پسند وناپسند کی آزادی سلب ہوجاتی ہے، والدین میں بھی ایک عجب بے چینی و اضطراب پایاجاتاہے وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ اچھی تعلیم حاصل کرے اور اس کے لیے وہ انہیں اپنے سے دور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔جب کہ کچھ والدین اس قدر غافل ہو جاتے ہیں کہ اپنے بچہ کو کسی تعلیمی وتربیتی ادارہ میں داخل کرنے کے بعد اپنی کسی بھی قسم کی تربیتی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے اور یہ روش خطرناک صورت حال پر منتج ہوتی ہے۔
ایک اور بات آج کل اکثردیکھنے میں آتی ہے والدین نے مادیت پرستی کو اس قدر اپنے دل و دماغ پر سوار کررکھا ہے کہ ان کے پاس اپنی اولاد کے لئے بھی وقت نہیں ہے اور دن رات اسی فکر میں سرگرداں ہیں کہ کس طرح دنیاوی اسباب ووسائل کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر کیا جائے۔ ایسے والدین کے بچے احساس محرومی کے بوجھ تلے دفن ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو تپے ہوئے صحرا میں محسوس کرتے ہیں، جہاں دور دور تک کہیں سایہ نظر نہیں آتا۔ دنیا کمانا اور روزی کے اسباب اختیار کرنا ہر انسان کے لئے ضروری ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو بھی پس پشت ڈال دے۔ بعض والدین اپنے بچوں پر بے جا سختی کرتے ہیں اور ان کو معمولی بات پر بھی سخت سزا یا شدید ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے تمام جذبات و احساسات مرجاتے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں اور گھر کو جیل خانہ تصور کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسے بچے والدین سے نفرت کرتے ہیں اور ان سے دور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ بعض والدین تو اس قدر سخت مزاج ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔
بعض والدین اپنی اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کا اہتمام نہیں کرتے۔ وہ بڑے بچے کو چھوٹوں پر یا لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ جس بچے کے ساتھ زیادہ شفقت اور پیار کا رویہ رکھا جائے اور دوسروں کی حق تلفی کرکے اسے اہمیت دی جائے گی وہ ضدی، ہٹ دھرم اور خودسر بن جائے گا جبکہ بقیہ بچے احساس کمتری کاشکار ہوکر والدین کے خلاف سوچنے پر مجبور ہوں گے۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض والدین اپنے بچوں کو نوکروں، خادماؤں اور ڈرائیوروں کے سپرد کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ براں ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ ان لوگوں کا تعاون حاصل کرنا بعض دفعہ مجبوری ہوسکتا ہے مگر بچوں کو اپنی محبت سے محروم کردینا عقلمندی نہیں۔ جو حقیقی پیار، محبت، مودت، عاطفیت اور شفقت ماں باپ کی آغوش میں اولاد کو مل سکتی ہے، وہ پرائے ہاتھوں میں کہاں ہے؟ والدین کو چاہئے کہ بچوں کا خود خیال رکھیں اور مجبوری کے وقت نوکروں اور خادماؤں سے مدد لیں۔
میں نے خود کئی والدین سے یہ تذکرہ کرتے ہوئے سنا ہے کہ بچے ان کی قدر نہیں کرتے۔آخر اس کی وجہ کیا ہے اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، کہیں دانستہ یا نا دا نستہ طور پر ہم سے اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی چوک تو نہیں ہو رہی اس تناظر میں بھی حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، سارا قصور بچوں کے اوپر ڈال دینے سے کام نہیں بنے گا کیوں کہ شریعت نے اگر بچوں کے والدین کے اوپر حقوق کی صراحت کی ہے تو والدین کو بھی بچوں کے حقوق بتائے ہیں۔ جن کا خیال رکھنا اور پورا کرنا اولاد پر واجب ہے،شریعت نے ویسے ہی اولاد کے کے لئے کچھ حقوق بیان فرمائے ہیں جن کا اہتمام والدین پر فرض ہے اور ان میں کوتاہی یا سستی دراصل اولاد کے ساتھ خیانت کے زمرے میں آتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کُلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ (بخاری)’’ترجمہ:تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور اپنی رعایا اور ماتحتوں کے بارے میں تم سے جواب طلبی کی جائے گی‘‘۔والدین چونکہ اولاد کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ اس لئے بچوں کے حقوق کا تحفظ ہر لحاظ سے کرنا ہوگا ورنہ ناقص تربیت اور لاپرواہی کی پاداش میں جہاں نئی نسل کا مستقبل تباہ و برباد ہوگا وہاں والدین پروردگار عالم کے حضور ایک مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے اور اس کی گرفت سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
علم نفسیات کے ماہرین بچوں کے انفرادی اِمتیازات پر درجنوں کتابیں تحریر کر چکے ہیں،ان کے مطابق ہر بچے کی اپنی شناخت ہوتی ہے، اپنی طبیعت،اپنی پسند ناپسند، اس کا اپنا مزاج،گویا ہر بچہ دوسرے کسی بھی بچے سے قطعی مختلف اورانفرادی شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔معلوم ہوا تمام بچے یکساں نہیں ہوتے ،نہ تمام بچوں کی ایک ہی طریقے سے تربیت کی جاسکتی ہے اور نہ پرورش۔بچوں کی طبیعت،پسند ناپسند،مزاج اور معیار کو ان کے اپنے والدین سے بہتر دْنیاکا دوسرا کوئی فرد نہیں سمجھ سکتا۔کسی بھی اعلیٰ تربیت یافتہ تربیت کار کی بہ نسبت والدین ہی اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔بچے والدین کی ذمہ داری ہوتے ہیں، یہ کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں کہ انہیں خود سے دور کرکے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی جائے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ والدین کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ ان کے بچے ان سے دور رہ کر کس قسم کی تعلیم اور تربیت پا رہے ہیں، اس لیے انہیں سنبھالنا ان کا فرض منصبی بھی ہے، ورنہ ایسے حالات میں بچوں کے نازک ذہنوں پر بے حد منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ایسے میں ان کے ساتھ خدانخواستہ کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے جو وہ آپ کو زندگی بھر نہ بتائیں تو اس اثرات کا تدارک کرنے والا کون ہوگا؟
یہ کچھ سنجیدہ سوالات ہیں جن کے جواب کی تلاش مہتم بالشان معاملہ ہے، یہ سوالات اگر چہ اول اول نہیں پیدا ہوئے ہیں بلکہ ہمیشہ حساس موضوع رہے ہیں اور ہر دور میں ان کی اہمیت اسی طرح برقرار رہی ہے اور اس جہت میں مثبت پیش رفت بھی ہوتی ہے، لیکن زمینی سطح پر اس کے اثرات بہت ہی کم مرتب ہوپاتے ہیں جس کا جائزہ بھی اہمیت کا حامل ہے، قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں اس موضوع پر بے داری لانا بھی ضروری ہے، یہ ہر نئی نسل کی تربیت کا مسئلہ ہے اور ہر دور کے افراد کی ذمہ داری بھی ہے۔
مدیر کی آخری تدوین: