مقیم اثر بیاولی(مالیگاوں) آنسووں کا شہر :: مالیگاوں

آنسووں کا شہر : مالیگاؤں
مالیگاؤں کے بزرگ و معتبر شاعر جناب مقیم اثر بیاولی کی ایک شاہ کار نظم
شہر تو اور بھی ہیں مثالی کئی​
شان سب سے نرالی مرے شہر کی​
تان سب سے انوکھی مرے شہر کی​
اہل دیں خدمتِ دیں میں ڈوبے ہوئے​
اہل دانش مسائل میں الجھے ہوئے​
قائدینِ سیاست ، سیاست میں گم​
اہل فن رہتے ہیں فن کی عظمت میں گم​
اس کی آغوش گہوارۂ علم و فن​
اس کی محنت میں ہے زیست کا بانکپن​
اس کی بانہیں محبت کی پیغام بر​
کوئی آئے کھلی ہیں سبھی کے لیے​
سب کو سامانِ روزی مہیا کرریں​
بابِ رحمت ہے محنت کشوں کے لیے​
ساڑیوں میں ہیں گل زار کشمیر کے​
دھوتیوں میں ہے دیہات کی سادگی​
رقص کرتی ہے راہوں میں دوشیزگی​
شاعروں اور ادیبوں کی کثرت سے ہے شہر البیلی تانوں میں ڈوبا ہوا​
شور ہی شور ہے گویا چاروں طرف​
لیکن اس شور میں اے مرے دوستو دھڑکنیں بھی ہیں شامل اسی شہر کی​
جو ابھی تک سماعت سے محروم ہیں​
مختلف رنگ اور روپ کا شہر ہے​
چھاوں کاشہر ہے دھوپ کا شہر ہے​
دوہی تاروں پہ موقوف ہے زندگی​
ایک تارِ نفَس ، دوسرا سوت کا​
ان میں سےایک بھی ٹوٹ جائے اگر​
زندگی سب کی ہوجائے نامعتبر​
اِس کی صبحوں کو ہے آفتابوں کا غم​
اس کی شامیں نہیں ہیں ابھی محترم​
راتیں بے نور ہیں مثلِ طاقِ حرم​
گویا ہونٹوں پہ ہے وقت کا مرثیہ​
اس کی صبحوں میں رنگِ بنارس نہیں​
اس کی شامیں اودھ کا سنگھاسن نہیں​
پھر بھی مستی میں ڈوبا ہوا شہر ہے​
سلسلہ محنتوں کا ازل تا ابد​
دستِ کاوش میں ہے کپڑا بُننے کافن​
چار جانب مشینوں کااک شور ہے​
زندگی باوجود اس کے کمزور ہے​
صبح تا شام کرگھوں میں ڈوبا ہوا​
بھوک اور پیاس ہے محنتوں کا صلا​
ٹیکس کا بوجھ سر پر اٹھائے ہوئے​
لر رہا ہے تمدن کے بحران سے​
یہ نوازش ، کرم ، مہربانی ، عطا​
میری اپنی حکومت ہی کی دین ہے​
کوئی مونس نہیں کوئی پُرساں نہیں​
آنسووں کی تمازت میں ڈوبا ہوا​
یہ مرا شہر ہے ، یہ مرا شہر ہے​
میں اسی شہر کا ایک فن کار ہوں​
شان سب سے نرالی مرےشہر کی​
تان سب سے انوکھی مرے شہر کی​
منتظر ہوں میں اس صبحِ امید کا​
جو مرے درد و غم کا مداوا کرے​
جو غریبوں کو آسودگی بخش دے​
میری تہذیب کو ،میرے احساس کو​
میر ےجذبات کو میرے حالات کو​
اک نئی روشنی ، اک نئی تازگی​
اک نئی آرزو ، اک نئی جستجو​
بے تکان اک سفر اک نئی سمت دے​
منتظر ہوں میں جس صبحِ امید کا​
اے خدا! موت اور زندگی کے خدا!!​
زندگی کے افق سے وہ سورج اُگا !!​
 
اے خدا موت اور زندگی کے خدا
زندگی کے اُفق سے وہ سورج اُگا
واہ واہ ۔۔۔
درد و کرب میں ڈوبی ہوئی نہایت بہت عمدہ پیشکش ہے۔
ارسال فرمانے کا شکریہ رضوی صاحب ۔
 
اگر مقیم اثر صاحب خود یہ نظم یہاں پوسٹ کرتے تو میں ان سے گذارش کرتا بزرگوار محترم فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ والے اس شہر میں بم دھماکہ اور اس کے بعد پیدا ہونے والے واقعات ،مسلمانوں کے املاک کو تباہ و برباد کئے جانے کی داستان الم کا بھی ذکر کر دیتے تو کیا ہی بہتر ہوتا کہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے تاریخ کا حصہ ہوتی ۔:-(:sad:
 
اگر مقیم اثر صاحب خود یہ نظم یہاں پوسٹ کرتے تو میں ان سے گذارش کرتا بزرگوار محترم فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ والے اس شہر میں بم دھماکہ اور اس کے بعد پیدا ہونے والے واقعات ،مسلمانوں کے املاک کو تباہ و برباد کئے جانے کی داستان الم کا بھی ذکر کر دیتے تو کیا ہی بہتر ہوتا کہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے تاریخ کا حصہ ہوتی ۔
جناب مقیم صاحب کی یہ نظم 1978 سے قبل کی ہے ۔
 
Top