x boy
محفلین
نہیں پڑھی آپ بتادیں کامل اور ساتھ میں اسکے معنی بمع تفسیر۔شائد یہ آیات آپ نے ہی پڑھی ہیں اور حضرت علی نے نہیں پڑھی تھیں جو ساری عمر یہودیوں کے باغات میں کام کرتے تھے؟
نہیں پڑھی آپ بتادیں کامل اور ساتھ میں اسکے معنی بمع تفسیر۔شائد یہ آیات آپ نے ہی پڑھی ہیں اور حضرت علی نے نہیں پڑھی تھیں جو ساری عمر یہودیوں کے باغات میں کام کرتے تھے؟
میری ناقص رائے میں ان آیات کا ایک مخصوص سیاق و سباق ہے اور انکی شانِ نزول کا تعلق اس زمان و مکان میں پائے جانے والے مخصوص کفار سے ہے جو مسلمانوں کے ساتھ شدید مخالفت، حالتِ جنگ اور کولڈ وار کی حالت میں تھے ۔ کیونکہ اگر یہ حکم ہر قسم کے بشمول غیر حربی یہود و نصاریٰ سے بھی ہوتا تو کسی یہودیہ یا نصرانیہ عورت سے شادی کی اجازت بھی نہ ہوتی (جو کہ تمام فقہی مذاہب میں جائز ہے)۔کیونکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ایک یہودیہ یا نصرانیہ سے شادی تو کرسکتے ہیں لیکن اس کے بعد اسے دوست نہیں بلکہ دشمن کی حیثیت سے گھر میں رکھیں۔۔۔واللہ اعلم بالصوابویسے لگے ہاتھوں ارباب حل وعقد ایسی آیات کا عملی مطلب مجھے بھی سمجھا دیں کہ جن میں یہود و نصارٰی سے دوستی کی ممانعت ہے مجھے آج تک ان آیات کا صحیح محمل سمجھ میں نہیں آسکا کہ ایک مخلوط سوسائٹی میں رہتے ہوئے ان آیات پر قرآنی مراد کے مطابق کیسے عمل کیا جاسکتا ہے خصوصا ایسے میں کہ جب اسلام کا آفاقی پیغام ساری دنیا تک پہنچانا بھی اسلام نے مسلمانوں ہی کہ ذمہ لگا دیا ہو؟؟؟
اگر رشدی کا جرم توہین رسالت تھا تو اس کے خلاف دیئے گئے فتوے کیسے واپس ہو گئے؟ مان لیں کہ فتویٰ غلط دیا گیا تھاتجربے کا نتیجہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا۔ لیکن میری بات کا مقصد یہ تھا کہ اس کتاب کو عام فکشن نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ رشدی کی طرف سے مسلمانوں کے مذہب کی دانستہ طور پر توہین تھی۔ اسلام پر بہت لوگوں نے اعتراضات کئے ہیں لیکن رشدی کا طریقہ کار بہت ہی بھونڈا تھا اور اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی۔
اگر رشدی کا جرم توہین رسالت تھا تو اس کے خلاف دیئے گئے فتوے کیسے واپس ہو گئے؟ مان لیں کہ فتویٰ غلط دیا گیا تھا
دراصل آپ کی پوسٹ کا اقتباس میں نے محض اس لئے دیا تھا کہ چند دیگر اراکین کی پوسٹ کا اقتباس محض شرانگیزی کی نظر ہو جاتافتویٰ پر تو میں نے کچھ کہا بھی نہیں ہے۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے
تھوڑی تصحیح البتہ کر لوں کہ فتویٰ البتہ واپس نہیں ہوا تھا۔ فتویٰ کے کچھ عرصے بعد ہی خمینی فوت ہو گئے تھے۔
دراصل آپ کی پوسٹ کا اقتباس میں نے محض اس لئے دیا تھا کہ چند دیگر اراکین کی پوسٹ کا اقتباس محض شرانگیزی کی نظر ہو جاتا
خمینی تو فوت ہو گئے تھے لیکن ابھی چند برس قبل میڈیا پر بہت چرچا تھا کہ ایران کی حکومت نے فتویٰ واپس لے لیا ہے
آپ کا شکریہ کہ آپ آئے۔ دراصل اس طرح کے جس دھاگے پر آپ آتے ہیں تو وہاں سکون آ جاتا ہے آپ اور زیک کی آمد سے کافی تسلی ہو جاتی ہےجھوٹو ں پر خدا کی لعنت اور جھوٹ پھیلانے والوں پر خدا کی لعنت۔
قیصرانی آپ نے ٹیگ کیا تو یہاں پیغام پوسٹ کر رہا ہوں تاہم میں پروپیگنڈا مشینوں سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مان لیا بھئی ان کا کام ہی زندگی میں ایک ہے اور وہ ملالہ کے خلاف آرٹیکل ڈھونڈ ڈھونڈ کر پوسٹ کر کے آگ لگانا اور خود پتلی گلی سے نکل لینا ہے۔
میں لعنت بھیجتا ہوں جھوٹ پھیلانے والوں پر اور جھوٹ کہنے والوں پر۔ سلمان رشدی سے ملالہ کی ہمدردی ہونے کی بات اس فورم پر کم از کم دو مرتبہ دو مختلف لوگ اس کی کتاب سے اقتباسات سے غلط ثابت کر چکے ہیں۔ اور یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ دائیں بازو کے بیمار ذہن دانشور اپنی دانشوری کو سیاہی لگا کر چمکانے کی خاطر اس بچی کو اس بے بنیاد الزام میں گھسیٹ رہے ہیں۔ پھر بھی کسی کے دماغ میں یہ فتور بھرا رہے تو اس کا علاج قرآن کے مطابق لکم دینکم ولی دین ہے۔
اسرائیلیوں کے ذریعے نہیں، یہودیت سے مسلمان ہو جانے والوں کی طرف سے شامل ہوں گئی۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پاک میں بھی تو زیادہ ذکر حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کا ہے تو یہ والا حصہ کہاں سے آگیا جو کہ یہودی بائیبل میں بھی موجود ہے۔روایات سے مراد صرف حدیث ہے۔ قرآن کی بات نہیں کی گئی ہے۔ اور حدیث میں آپ کو معلوم ہو گا کہ کافی من گھڑت قصے کہانیاں بھی شامل ہو گئیں ہیں۔ ان میں سے ایک حصہ اسرائلیات ہے جو کہ وہ روایات ہیں جو اسرائیلیوں کے ذریعے سے کتب احادیث میں شامل ہوئی ہیں لیکن حضور(ص) سے منقول نہیں ہیں۔
دوغلہ پن! مسلمان اسی دوغلے پن اور تضادات کی وجہ سے غیر مسلمین کے ہاتھوں مار کھا جاتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے اگر اسلام کا پیغام پوری دنیا میں پہنچانا ہے مقصود ہے تو دین ابراہیمی کی الہامی کتب والے یہودیوں اور عیسائیوں کیساتھ دوستی پر اعتراض کیوں؟ویسے لگے ہاتھوں ارباب حل وعقد ایسی آیات کا عملی مطلب مجھے بھی سمجھا دیں کہ جن میں یہود و نصارٰی سے دوستی کی ممانعت ہے مجھے آج تک ان آیات کا صحیح محمل سمجھ میں نہیں آسکا کہ ایک مخلوط سوسائٹی میں رہتے ہوئے ان آیات پر قرآنی مراد کے مطابق کیسے عمل کیا جاسکتا ہے خصوصا ایسے میں کہ جب اسلام کا آفاقی پیغام ساری دنیا تک پہنچانا بھی اسلام نے مسلمانوں ہی کہ ذمہ لگا دیا ہو؟؟؟
فتویٰ دینے والا کون تھا، ذرا اسکی دماغی اوراخلاقی حالت کا جائزہ بھی لے لیاجائے تو بہتر ہوگا:اگر رشدی کا جرم توہین رسالت تھا تو اس کے خلاف دیئے گئے فتوے کیسے واپس ہو گئے؟ مان لیں کہ فتویٰ غلط دیا گیا تھا
فتویٰ دینے والا کون تھا، ذرا اسکی دماغی اوراخلاقی حالت کا جائزہ بھی لے لیاجائے تو بہتر ہوگا:
Ayatollah Khomeini’s rape of a small 4-year old child
An excerpt from ‘Hal Ataaka Hadeeth ur-Raafidah’ by the late Sheikh Abu Mus’abaz-Zarqaawi (discussed here)
“The author of the book ‘For Allah, Then For History’ [1] mentions to us an event that took place before his very eyes, when al-Khomeini [2] was living in Iraq, and was visiting an Iranian individual by the name of Sayyid Sahib.
He says: ‘Sayyid Sahib was joyous with our visit, and we arrived at his house around the time of Dhuhr. So, he prepared for us a lavish dinner, and called some of his relatives, who came to see us, and the house became crowded in celebration of our presence.
Sayyid Sahib then requested that we spend that night at his home, to which the Imam agreed. When it was night time, we were given our supper, and the guests would take the Imam’s hand and kiss it, and they would ask him questions, with him answering their questions.
When it was time to sleep, the guests had all left, except for the inhabitants of the house. Al-Khomeini laid his eyes on a young girl who, despite being only four or five years of age, was very beautiful.
So, the Imam requested from her father, Sayyid Sahib, that he spend the night with her in order to enjoy her. Her father happily agreed, and Imam al-Khomeini spent the night with the girl in his arms, and we could hear her crying and screaming [through the night].’”
______________________
http://themuslimissue.wordpress.com/2013/02/03/when-imam-ayatollah-khomeini-raped-a-4-year-old-girl-خميني-هتك-ناموس-كودك/
اسرائیلیوں کے ذریعے نہیں، یہودیت سے مسلمان ہو جانے والوں کی طرف سے شامل ہوں گئی۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پاک میں بھی تو زیادہ ذکر حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کا ہے تو یہ والا حصہ کہاں سے آگیا جو کہ یہودی بائیبل میں بھی موجود ہے۔
سارے یہودی اسرائیلی نہیں ہیں۔ بنی اسرائیل ایک قدیم عبرانی قوم تھی جو کہ کنان کے علاقہ میں رہتی تھی۔ گو کہ یہ لوگ زیادہ تر موسوی شریعت پر چلنے کی وجہ سے یہودی کہلاتے ہیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ یہ سب کے سب اسرائیلی ہیں۔ اپنے آبائی وطن اسرائیل سے انخلاء کے بعد یہ پوری دنیا میں پھیل گئے اور غیر اسرائیلیوں کیساتھ باہم تعلقات کے بعد بہت سے غیر یہودی یعنی موسوی شریعت کے پیروکار ہو گئے لیکن وہ اسرائیلی قوم کا حصہ نہیں کہلا سکتے۔ اسکو سمجھنے کیلئے یہ مضامین کافی ہیں:اسرائلیوں سے مراد یہودی ہی ہیں۔ تھوڑا وکیپیڈیا کا استعمال کر کے دیکھ لیں۔