حیرت انگیز طور پر یہاں احمدیوں کی جگہ قادیانیوں اور ربوہ کی جگہ پنجاب نگر استعمال نہیں کیا گیا۔ شاید کالم نگار کا اسلامی اسپیل چیکر اسے درست کرنے میں ناکام رہا ہوپاکستان کی قسمت دیکھیں کہ یہاں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالسلام جن کو 1979 میں نوبل ایوارڈ ملا وہ بھی شدید تنازع کا شکار رہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان میں اہم عہدوں پر فائز رہے مگر1974 میں جب پارلیمنٹ نے قادیانی گروپ، لاہوری گروپ یا جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تواس پر ڈاکٹر عبدالسلام احتجاجاً پاکستان کو چھوڑ کر برطانیہ منتقل ہو گئے جہاں اُن کا 1996 میں انتقال ہوا۔اُن کی خواہش پر انہیں احمدیوں کے مرکز ربوہ کے ایک قبرستان میں دفنایا گیا۔
اسلامی تعلیمات کے خلاف یعنی ایک خاص مذہبی ذہنیت رکھنے والوں کے خلاف بات کی گئی جس سے ان لوگوں کو بہت دکھ اور صدمہ پہنچا۔ جیسے طالبان کو لڑکیوں کی تعلیم سے بہت رنج و غم پہنچتا ہےمگر I am Malala نے ملالہ کو مزید متنازعہ بنا دیا کیوں کہ اس کتاب کے کچھ حصوں میں ایک ایسی سوچ کی عکاسی کی گئی جو نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف تھی بلکہ اس سے بہت سے لوگوں کو دکھ ہوا۔
کیوں نہیں ہو سکتا؟ ملالہ کے لب آزاد ہیں۔ وہ مغرب کی آزاد فضا میں رہتے ہوئے جو چاہے کہہ سکتی ہے اور لکھ سکتی ہے۔ یہاں گستاخانہ مواد شائع کرنے پر سزائے موت نہیں دی جاتی۔ کچھ سزائے خدا کے لئے بھی چھوڑ دی جاتی ہیںاس کتاب میں ایسے نازک مسائل پر بھی بات کی گئی جن پر ملالہ نے اس کے شائع ہونے سے پہلے یا بعد میں کبھی بھی لب گشائی نہیں کی۔ میں نے ملالہ کی اس کتاب پر دو تین کالم گزشتہ سال لکھے اور آج بھی مجھے یقین ہے کہ جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا وہ ایک 16 سالہ بچی کا کام نہیں ہو سکتا۔
ہاہاہا۔ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کیا آسمان سے ٹپکے ہیں جو انہیں مجروح کرے اسپر ایٹم بم چل جائیں گے؟اس کتاب کو پڑھنے پر میرا یہ کہنا تھا کہ ملالہ پر ایک حملہ سوات کے طالبان نے کیا اور دوسرا حملہ اُن لوگوں نے کر دیا جنہوں نے اس کا نام استعمال کر کے ایسی ایسی باتیں I am Malala میں لکھ دیں جو مسلمانوں کی مذہبی جذبات کو مجروح کرتی تھیں۔
سلمان رشدی کا ذکر کرنا غیر ضروری نہیں تھا۔ اس کا تعلق ایک مسلمان گھرانے سے تھا جسکی قلمی آواز کو بندوق کے زور پر دبانے کی ناکام کوشش کی گئی جس کی وجہ سے اسلام کا امن پسند چہرہ پوری دنیا میں سب کے سامنے آگیا۔ایک بچی جس نے اپنی تعلیم کے حصول کے حق کے لیے اپنی جان تک کو دائو پر لگا دیا اُس کے نام کو استعمال کر کے کتاب میں تقریباً ہر اس مسئلہ کو چھیڑا گیا جو ہمارے اور مغرب کے درمیان ہمیشہ سے تنازع کا باعث رہا۔ پاکستانی میڈیا میں اس کتاب پر جب اعتراضات اٹھائے گئے تو حامد میر صاحب نے اپنے ایک کالم میں یہ لکھا کہ ملالہ کے والد نے انہیں فون کیا اور اعتراف کیا کہ نہ صرف ملعون سلمان رشدی کا ذکر کتاب میں غیر ضروری تھا بلکہ حضرت محمدﷺ کے نام کے ساتھ PBUH بھی لکھا جانا چاہیے تھا جو غلطی سے رہ گیا۔
پاکستان کی اسلامی شناخت؟ یعنی طالبان، لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی، جیش محمد وغیرہ؟اُن سیکولر قوتوں کے حملہ سے بھی بچنا ہو گا جو ملالہ کے نام کو استعمال کر کے اپنے اپنے مزموم ایجنڈوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ امید ہے کہ ملالہ اب کسی دوسرے کو اپنا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی اور نہ ہی اپنے نام سے منسوب کسی ایسی نئی کتاب کی اشاعت کی اجازت دے گی جو مسلمانوں کے جذبات یا پاکستان کی اسلامی شناخت کو مجروع کرے یا مغربی ایجنڈے کی ترجمانی کرتی ہو۔
پاکستان میں سب سے زیادہ بچے اسلامی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرکے باقی ماندہ سیکولرازم کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ اگر اسلامی مدرسوں سے سائنس، انجینئرنگ ، طب، میڈیا وغیرہ کی اعلیٰ ترین ڈگریاں ملتیں تو یہاں تمام بچوں کا جانا لازمی کر دینا چاہئے۔ملالہ کو یہ مقام اُس کی تعلیم سے کمٹمنٹکی بنیاد پر حاصل ہوا اور اُسے اپنے اسی کام پر توجہ دینی چاہیے۔ اور جب تعلیم کی بات ہو تو ہم دنیا کے علم کی بات تو کرتے ہیں مگر اُس حقیقی علم سے ناواقف اور بے نیاز رہتے ہیں جو ہمیں قرآن اور حدیث کی صورت میں ملا ہے اور جسے پڑھے اور سمجھے بغیر نہ تو ہم حرام اورحلال، حق اور با طل کے درمیان کے فرق کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی زندگی کے اصل مقصد کو پہچان سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ امن کی نوبیل کمیٹی میں ہم یعنی نارویجنوں کا اکلوتاراج ہے۔ یہاں آپکے سعودی آقاؤں کی ایک نہیں چلتی کہ تیل اور گیس وافر مقدار میں ہمارے پاس بھی موجود ہےآپ لوگ خوامخواہ اعتراض کررہے ہیں۔ نوبیل انعام والوں نے انعام دے دیا ہے۔ ملالہ کو مبارک دینی چاہیے
بےچاری کو طالبان نے گولی ماری۔ گولی نے اس کے چہرے کو زخمی کیا۔اس کے باوجود وہ ڈٹی ہوئی ہے۔ بہادر لڑکی ہے۔آخر یوسف زئی ہے۔ اس کو مبارکباد دینی چاہیے۔ انعام ہم نے نہیں بلکہ نوبیل انعام کمیٹی نے دیا ہے۔ ہم صرف مبارک باد دے سکتے ہیں۔
یہ اس کی مرضی جہاں چاہے رہے۔
بھارت میں ایسی"صحافت" کو کیا کہا جاتا ہے؟ ادھر پاکستان میں اسے زرد صحافت یا لفافا جرنلزم بھی کہتے ہیں۔انڈیا میں شاہد صدیقی کے زیر ادارت نکلنے والا رسالہ نئی دنیا اور پاکستان کا امت ۔۔۔ دونوں فرضی رپورٹیں شائع کرنے میں ماہر ہیں ۔۔۔۔گھر بیٹھے بیٹھے ان کے نامہ نگاران دنیا جہان کی رپورٹنگ کر لیتے ہیں ۔
جی امریکہ اور اسرائیل کو عمران خان سے تب بہت مایوسی ہوئی جب اسنے یہودی آئی ایم ایف سے مزید قرضے لینے اور سابقہ قرضے بمعہ سودواپس کرنے سے انکار کر دیا!لیکن عوام میں کچھ اور قسم کے پریشان کن سوال اٹھنا شروع ہوگئے ہیں مثلاً یہ کہ کیا اسرائیل اور امریکہ عمران خان سے مایوس ہو گئے؟
یقیناً، اگر اگلے الیکشن تک ملالہ کسی سیاسی کنٹینر تک زندہ پہنچ سکی تو!کیا وائٹ ہاؤس نے پاکستان کی اگلی وزیراعظم ملالہ کو بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے؟
نوبل انعام انسان کا مذہب ، شہریت، قومیت دیکھ کر نہیں دیا جاتا بلکہ اسکا کام دیکھ کر دیا جاتا ہے۔ جیسے اس کالم نگار کو سنجیدہ مزاح کا عالمی انعام مل سکتا ہے۔ملالہ یوسف زئی نوبل انعام پانے والی پہلی پاکستانی مسلمان ہیں۔ ان سے پہلے ایک پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی یہ انعام ملا جو قادیانی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔
جی بالکل۔ نارویجن اور اسویڈش دہریوں کو جو نوبیل کمیٹی چلاتے ہیں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پاکستان کے 1974 آئین کے مطابق قادیانی غیر مسلم اقلیت ہیں یا نہیں۔ چونکہ ڈاکٹر عبدالسلام اپنے آپکو مسلمان کہتے تھےیوں وہ انکی فہرست میں مسلمان ہی شمار کئے جاتے ہیں۔نوبل انعام کے ادارے کے مطابق یہ تعداد 11ہے کیونکہ وہ ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی مسلمانوں کے کھاتے میں گنتے ہیں۔
اسلامی قوتوں کیلئے ایک مفت کا مشورہ ہے کہ وہ اسلام پسندوں کو کافرانہ نوبیل انعام نہ ملنے پر جلنے کڑھنے کی بجائے خود ہی سے بین الاقوامی جہادی ایوارڈز کا انعقاد کردیں اور رواں سال کے نمایاں دہشت گردوں کو یہ ایوارڈ تھما دیں۔ اگر موصوف کسی خود کش حملہ میں شہید ہو چکے ہوں تو اسکے ورثا کو بھی یہ ایوارڈ دیا جا سکتا ہے۔ اس ایوارڈ کو مختلف زمرہ جات میں تقسیم کر دیں ۔جیسے سب سے زیادہ غلط فرقہ کے لوگوں کو شہید کرکے جنت میں لیجانے والے کا ایوارڈ۔ جدید مغربی اسلحہ اور مہلک ہتھیار بہترین طریقہ سے چوری کرنے یا سمگل کرنے کا ایوارڈ۔ توہین اسلام مواد شائع کرنے والوں کے خلا ف سب سے زیادہ قتال کرنے والے کیلئے ایک ایوارڈ۔ اور آخرمیں مغربی مغویوں کے سب سے زیادہ سر قلم کرنے والے کی شجاعت اوربہادری کی حوصلہ افزائی کیلئے ایک خصوصی ایوارڈ بھی شامل کر لیںوہ چونکہ اسلام پرست بھی ہیں‘ یعنی تاریک خیال‘ اس لئے نوبل انعام کے اردگرد ان کا نام پھٹک بھی نہیں سکتا۔
جی بالکل۔ جبھی تو اسلامی ریاست ہائے ہائے پاکستان کی پہلی کابینہ میں قائد اعظم محمد علی جناح نے امریکہ کے کہنے پر قادیانی، عیسائی، ہندو، یہودی اور دیگر اقلیتیں گھسیڑ دی تھیں جنکا ضیاء الحق کے دور میں جاکر صفایا ممکن ہوا۔ جسکے بعد یہ ملک جنت کی نظیر بن گیا اور دودھ و شہد کی نہریں یہاں بہنے لگیںامریکہ جب کسی کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر لے تو ’’مقامی قوّتیں‘‘ سارے راستے ہموار کر لیتی ہیں
رائٹر شاید قائد اعظم کو سی آئی اے کا ایجنٹ کہنا بھول گیا کہ اسوقت ابھی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد وجود میں نہیں آئی تھی۔ بیچاری برطانوی راج ہی کافی تھیرائٹر نے لکھا ہے کہ فیس بک پر ملالہ کو سی آئی اے کی ایجنٹ بتایا جا رہا ہے۔ اس میں کیا خرابی ہے۔ سی آئی اے کا ایجنٹ ہونا کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لئے اعزاز کی آخری معراج ہوا کرتا ہے۔
واقعی عمران خان امریکہ اور اسرائیل یعنی افواج پاکستان کے کندھے پر سوار ہوئے بغیر ملک میں عوام کی طاقت پر حکومت نہیں کر سکتا۔ اس سے بہتر ہے ملک میں شریف اور زرداری خاندان کی بادشاہت نافذ کر دیں۔ دونوں خاندانوں کے بچے بھی اب شادی کی عمروں کو پہنچ گئے ہیں۔ خاندانی حکومت اچھی چلے گی۔شک ہے تو پاشا سے پوچھ لو‘ عمران سے پوچھ لو‘ طاہر القادری سے پوچھ لو‘ شاہ محمود قریشی سے پوچھو یا پاشا کارپوریشن کے کسی بھی تعلّق دار سے پوچھ لو۔ عام پاکستانی کو اس معاملے پر کوئی تحفظات نہیں ہیں‘ اسے تو صرف یہ پریشانی ہے کہ عمران سے کیا غلطی ہوگئی کہ اس کا متبادل ڈھونڈ لیا گیا‘ بلکہ ڈھونڈ لی گئی۔یا یہ کہ اگلی باری عمران کی‘ اس سے اگلی ملالہ کی !
آئی تھی۔ کچھ دن قبل کا جیو نیوز پر نشر ہونے والا خبرناک دیکھ لیں۔یار وہ اوریا مقبول جان کی چیخ و پکار اب تک منظر عام پر نہیں آئی۔
یہ کونسے صحافی ہیں بھیامڈغاسکر کے صحافیوں کے خیالات بھی شئیر کیجیے۔
بھارت میں ایسی"صحافت" کو کیا کہا جاتا ہے؟ ادھر پاکستان میں اسے زرد صحافت یا لفافا جرنلزم بھی کہتے ہیں۔
پہلے یہ کام آپکے عربی آقا توکر دیں۔ خود تو فلسطین جاتے نہیں۔ خالی دور دور سے مذمتیں کر کے کیا خاک حاصل ہوگا!
یہ "امت" ہے ہی جھوٹ کا پلندہ۔ پاکستانی زرد صحافت کا اعلیٰ ترین شاہکار!
میں یہ پہلے بھی پوسٹ کر چکا ہوں کہ صیہونی اخباروں میں اس خبر کو بہت پزیرائی ملی تھی۔
بس کسی طالبان کے ترجمان سے مبارک باد وصول کرنا ابھی باقی ہے۔ ملالہ کا نوبل انعام تک کا سفر اس ایک طالبانی گولی کے بغیر تو ممکن نہیں تھا!
اصل میں اوپر یہ تصویر اسرائیل کے سابق نہ کہ حالیہ صدر کی ہے۔ اُمتی اخبار تک شاید صیہونی میڈیا کی رسائی نہیں وگرنہ وہ خود اسے چیک کر لیتے
http://www.timesofisrael.com/peres-lauds-malalas-selection-for-nobel-peace-prize/
فلسطینی ذرائع یعنی حماس کا ہیڈ آفس!
جی کچھ ایسی ہی خبر میں نے بھی پڑھی تھی:
http://www.thenews.com.pk/Todays-News-13-31750-Malala-Yousafzai-condemns-Gaza-violence
کاش اس افریقی جزیرہ پر بھی صیہونی آباد ہوتے!
نہیں امتیوں کا۔
ہممظاہر ہے یہاں بھی وہی کہا جاتا ہے جو پاکستان میں کہا جاتا ہے ۔سنجیدہ طبقہ اس اخبار کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔تھرڈ کلاس لوگ ہی اس کو پڑھتے اور آہ واہ کرتے ہیں ۔
کم از کم یہاں ہمارے خیالات یکساں ہیںمعاف مجھے تو بھارت کے اکثر اخبار اور تمام چینلز تھرڈ کلاس ہی لگتے ہیں
ظاہر ہے یہاں بھی وہی کہا جاتا ہے جو پاکستان میں کہا جاتا ہے ۔سنجیدہ طبقہ اس اخبار کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔تھرڈ کلاس لوگ ہی اس کو پڑھتے اور آہ واہ کرتے ہیں ۔
آپ کے خیال سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں ، کچھ کمیاں ہو سکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں لیکن سب کو بیک جنبش قلم تھرڈ کلاس کہنا درست نہیں ۔یہ ٹھیک ویسے ہی ہے جیسے کوئی ہمارے یہاں کا بندہ کہے کہ پاکستان کے سارے چینل گھٹیا ہیں تو ایسے شخص کو میں انتہائی احمق،بے وقوف اور گدھا قرار دوں اور آپ بھی اسی زمرے میں آئیں گے ۔ کمیاں دونوں جگہ ہیں اور دونوں جگہ کی کچھ خصوصیات بھی ہیں ۔[/QUOTE]معاف مجھے تو بھارت کے اکثر اخبار اور تمام چینلز تھرڈ کلاس ہی لگتے ہیں
آپ کے خیال سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں ، کچھ کمیاں ہو سکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں لیکن سب کو بیک جنبش قلم تھرڈ کلاس کہنا درست نہیں ۔یہ ٹھیک ویسے ہی ہے جیسے کوئی ہمارے یہاں کا بندہ کہے کہ پاکستان کے سارے چینل گھٹیا ہیں تو ایسے شخص کو میں انتہائی احمق،بے وقوف اور گدھا قرار دوں اور آپ بھی اسی زمرے میں آئیں گے ۔ کمیاں دونوں جگہ ہیں اور دونوں جگہ کی کچھ خصوصیات بھی ہیں ۔[/QUOTE]معاف مجھے تو بھارت کے اکثر اخبار اور تمام چینلز تھرڈ کلاس ہی لگتے ہیں
آپ کے خیال سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں ، کچھ کمیاں ہو سکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں لیکن سب کو بیک جنبش قلم تھرڈ کلاس کہنا درست نہیں ۔یہ ٹھیک ویسے ہی ہے جیسے کوئی ہمارے یہاں کا بندہ کہے کہ پاکستان کے سارے چینل گھٹیا ہیں تو ایسے شخص کو میں انتہائی احمق،بے وقوف اور گدھا قرار دوں اور آپ بھی اسی زمرے میں آئیں گے ۔ کمیاں دونوں جگہ ہیں اور دونوں جگہ کی کچھ خصوصیات بھی ہیں ۔
کم از کم آپ کی طرح جاہلوں والی باتیں نہیں کرتا ۔بلکل یہی بات ہے
آپ کی ہر بات بھی سونے کی نہیں ہوتی نہ ہی درست ہوتی ہے۔ اب بات سمجھ ائی؟
کم از کم آپ کی طرح جاہلوں والی باتیں نہیں کرتا ۔
یہی وجہ سے کہ ہر جگہ آپ کو پھٹکار پڑتی ہے ۔
اللہ کا شکر ہے مجھے نہیں ۔میں سوچ سمجھ اور تول کر بولنے کی کوشش کرتا ہوں ۔اور انسان غلطیوں کا پتلا ہے غلطی تو ہو ہی سکتی ہے ۔ لیکن آپ کی طرح جان بوجھ کر غلطی نہیں کرتا ۔
بیٹے اپ ایک بات کہہ کر اس کا ہی نشانہ بن گئے ہیں
مگر یہ بات حقیقت ہےکہ اس طرح کا سوئپنگ اسٹیمٹنٹ دیں گے تو کوئی اپ کو بھی اس طرح کہہ سکتا ہے۔ پھر اپ اپنی بات سے پھر جاتے ہیں۔
بہرحال خوش رہو۔ انڈیا میرا بھی ملک ہے