ملا عمر کی ڈانٹ سن کر سعودی انٹیلی جنس وزیر سہم گیا تھا۔ کرنل امام کی کہانی۔2

ملا عمر کی ڈانٹ سن کر سعودی انٹیلی جنس وزیر سہم گیا تھا۔ کرنل امام کی کہانی۔2
------------.jpgqw.jpg11aa11111zz.jpg

عبدالہادی احمد

میرے دل میں اس روسی جرنیل کا بڑا احترام ہے جس نے افغانستان میں روسی فوجوں کی کمان کی تھی اور جب روس کے صدرنے اپنی فوج واپس بلانے کا اعلان کیا تواس نے ہی ایک کمانڈر اور ایک سپاہی کے طور پر سب سے آخر میں دریائے آمو کاپل عبور کیاتھا۔اس موقعے پر اس نے پیچھے مڑ کر سرحد کے اس پار دیکھا اوریہ یادگار فقرہ کہا :" آئندہ افغانستان پر حملہ کرنے والوں کو حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچنا ہو گا"۔حالانکہ روسی فوج برطانوی اور امریکی فوج کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہادرسپاہیوں پر مشتمل ہے۔ اس نے مختلف جنگوں میں اپنی پامردی ثابت کی ہے؛جب کہ برطانیہ اور امریکا نے تو دنیا میں پست ہمتی اور بزدلی کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔وہ زمانہ کہ جب روسی افغانستان پر حملہ کر چکے تھے اور ہم افغانوں کے ساتھ مل کر ان کے خلاف لڑ رہے تھے۔ رروس نےجن دنوں افغانستان پر حملہ اور قبضہ کررکھا تھا،میرا ایک روسی سفارت کار سے دلچسپ مکالمہ ہوا تھا۔ میں نے جب اسے کہاتھا:
"آپ افغانوں کو کبھی شکست نہیں دے پائیں گے ،بہتر ہے اپنی توانائی بچا کر رکھیں،آپ کے کام آئے گی"۔ مجھے یاد ہے اس نے کہاتھا:
"مجھے آپ سے اتفاق نہیں ۔ ہم روسیوں کے قدم دنیا بھر میں ہر جگہ پہنچے ہیں اور ہم ہر مقام پر فتح مند رہے ہیں۔کیا آپ اس حقیقت کا انکار کرتے ہیں؟" اس پرمیں نے اپنی بات کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا:
"جناب والا مجھے آپ کی فوجوں کی بہادری کا اعتراف ہے،لیکن تاریخ کی گواہی یہی ہے۔ گزشتہ تین ہزار برس کے عرصے میں کئی بار یہاں بیرونی طاقتوں نے حملے کیے،ان میں عام مملکتیں بھی تھیں اور سپر پاورز بھی ۔ سکندر اعظم حملہ آور ہوا،ہُن آئے،آریا آئے،منگول آئے ، ازبک آئے اور برطانوی بھی بار بار حملہ آور ہوئے مگر کوئی ایک بھی یہاں سے کامیاب ہو کر واپس نہیں گیا،بلکہ سب ہی اپنے خون میں ڈوب کر لوٹے اور افغانستان ہمیشہ حملہ آوروں کے لیے قبرستان ثابت ہوتا رہاہے۔ وہ جو طاقت ور تھے اور جنہوں نے شروع میں افغانوں کا قتل عام کیا،ان کو افغان قوم نے کبھی معاف نہیں کیا۔اس لیے کہ وہ کسی حملہ آور کے سامنے سر نگوں نہیں ہوتے ،بلکہ پہاڑوں میں گم ہو جاتے ہیں۔پھر جب وہ سامنے آتے ہیں تو حملہ آور اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔انگریزجب دنیا کی بڑی سپر پاور تھے،تین بار افغانستان پر حملہ آور ہوئے اور ہر بار منہ کی کھائی۔ایک بار تو ساری فوج میں سے صرف ایک ڈاکٹر زندہ بچاجس نے واپس جاکر یہ داستان غم انگریزوں کو سنائی۔ دوسری افغان جنگ میں ہرات کے گورنر نے انگریزوں کو عبرت ناک شکست دی۔ اس پرروسی سفارت کار نے کہا:
آپ روسیوں کو نہیں جانتے ،ہم جہاں قدم رکھتے ہیں اچھی طرح جما کر رکھتے ہیں۔اور جہاں ہم جم جاتے ہیں وہاں سے کوئی ہمیں نکال نہیں سکتا۔ میں نے کہا:
یور ایکسی لنسی افغان بالکل مختلف لوگ ہیں یہ اپنی آبرو اور آزادی کے لیے کوئی بھی قربانی دینے سے نہیں ڈرتے۔ وقت میر ی بات کی صداقت ثابت کرے گا۔ اس روسی سفارت کار نے تب میری بات تسلیم نہیں کی تھی ،مگر آج روسی مان گئے ہیں کہ افغان ناقابل شکست قوم ہے۔ مجھے یقین ہے امریکہ کو بھی اللہ تعالیٰ ذلت آمیز شکست سے دوچار کرنے کے لیے گھیر کر افغانستان میں لایا ہے۔ اس کو بھی پہلی دو سپر طاقتوں کی طرح افغان شکست دیں گے اورافغانستان اس مرتبہ بھی حملہ آوروں کا قبرستان ثابت ہونے کا اپنا کردار باقی رکھے گا ۔اللہ نے افغانستان کے کہساروں کو جب تک قائم رکھنا ہے افغانوں کو بھی قائم رکھے گا۔
افغان باقی کوہسار باقی
الحکم للہ والملک للہ
دس برس کے اندر اندر امریکا اعتراف کر رہا ہے کہ وہ افغانستان کے پہاڑوں پھنس گیا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکا افغانستان میں آنے سے پہلے ہی وہ غلطیاں دہرانا نہیں چاہتا تھاجو انگریزوں اور روسیوں سے ہوئیں۔امریکا اسی لیے اپنے ساتھ ساری دنیا کے لشکر اور جدید اسلحے کے پہاڑلے کر آیا۔ پھر وہ اپنی فوج کے بجائے میزائل اور بم استعمال کرتا رہا ہے،ڈرون طیاروں کو لڑا تارہا ،تاکہ جانی نقصان کم سے کم ہولیکن یہی اس کی اصل کمزوری ثابت ہوئی۔اس کا سپاہی لڑنے کے لیے تیار نہیں،خصوصاًمرنے کے لیے تو بالکل ہی تیار نہیں ،کیوں کہ اس کے سامنے کوئی مقصد نہیں۔ ان میں ہر ایک بھاگنے کی فکر میں رہتا ہے،ان کی نصف سے زیادہ فوجی لڑکیاں افغانستان سے فرار ہونے کے لیے آبرو باختہ ہونے کا اعتراف کر لیتی ہیں ۔ وہ یہ بہانہ بنا کر امریکا واپس بھاگ جاتی ہیں کہ وہ مرد سپاہیوں سے دوستی کے نتیجے میں امید سے ہیں۔ایسےبد کردار لوگ افغان مجاہدین سے کیسے لڑ سکتے ہیں؟بے شک افغانوں کے پاس لڑنے کے لیے کبھی اچھااسلحہ نہیں رہا،مگر ان کے پاس مضبوط عقیدہ اور ایمان ہے جواسلحے سے بڑھ کر ہے اورآزادی سے محبت انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ پھران کے پاس جنگ کا بہترین تجربہ ہے۔ وہ تیس برس سے اس طرزِ جنگ کے خوگر ہیں،ان کی ایک پوری نسل میدانِ جنگ میں پیدا ہوئی ہے۔امریکا کو معلوم تھاکہ وہ تنہا افغانوں سے نہیں جیت سکتا،اس لیے اس نے اقوام متحدہ کی چھتری کے نیچے نیٹو کی فوجوں کو ساتھ ملایا،مگربندوقوں کے ساتھ ایمان کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔امریکیوں کے پاس ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ تو ہے ،لیکن وہ ایمان سے محروم ہیں۔ اسی لیے میدان میں سپر پاور بری طرح شکست کھا چکی ہے ،اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں میں اربوں ڈالر رشوت بانٹ کر ساتھ ملانے کی کوشش کی جا رہی ہے،لیکن افغان قوم کے ساتھ اپنے گزرے ہوئے طویل برسوں کےبعد میں کہ سکتا ہوں کہ یہ قوم ڈالروں کے بدلے اپنی فتح نہیں بیچے گی۔
روس کو شکست دینے کے لیے پندرہ لاکھ افغان شہید ہوئے۔افغانوں کے پاس ڈالر نہیں تھے اپنے سر ہی تھے،سر کٹانے میں انہوں نے بخل نہیں کیا۔اس جنگ پر کل پانچ ارب ڈالر خرچ ہوئے،ڈیڑھ ارب ڈالر سعودی عرب ،پاکستان اور دوسرے اسلامی ملکوں نے دیے اورساڑھے تین ارب ڈالر امریکا نے خرچ کیے۔ امریکا(2010ءمیں) آج تک افغانستان کی جنگ پر 12 ٹریلین ڈالر لٹا چکا ہے،اس کے ہزاروں تابوت امریکا پہنچ چکے ہیں اورمسلسل پہنچ رہے ہیں ،ہزاروں زخمی ہیسپتالوں میں پڑے ہیں اور ہزاروں ذہنی طور پر معذور ہو چکے ہیں۔اس کے سوا شکست کا شرم ناک داغ اس کے چہرے پر لگنے والا ہے۔اس سے بچنے کے لیے وہ اپنا بوریا بستر لپیٹ کر پاکستان آرہا ہے۔انہوں نے اپنے انخلا کے لیے جو مدت مقرر کی ہے،اس سے امریکی شکست فتح میں نہیں بدل جائے گی،صرف یہ ہوگا کہ دنیا کو دکھانے کے لیے افغانستان میں بھاری بم باری کی جائے گی۔ بہت زیادہ شہری شہید ہوں گے اور امریکا کہے گا ہم نے القاعدہ کی کمر توڑ دی ہے اورطالبان کو کمزور کر دیاہے،ہمارا مشن مکمل ہو گیا ہے اس لیے ہم واپس جاہے ہیں۔ یوں امریکابزعمِ خویش اپنی ناک کٹنے سے بچا لے گا،لیکن ناک تو پہلے ہی کٹ چکی ہے،اس کے برے اثرات تو امریکی پوزیشن پر پڑ رہے ہیں، لوگ جان گئے ہیں کہ نام نہاد سپر پاور اندر سے کتنی کھوکھلی ہو چکی ہے،لیکن اس کے پاکستان پر بھی بے حد برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت قبائلی علاقہ عدم استحکام کا مرکز بنا ہوا ہے،امریکی مداخلت جاری رہی تو پنجاب بھی بدامنی کی لپیٹ میں آ جائے گا اور موجودہ حالات میں امریکا اس سے زیادہ کی آرزو بھی نہیں رکھتا۔
نائن الیون اورپاکستان
نائن الیون کے بعد پاکستان کی حکومت یک لخت امریکا کے سامنے سجدہ ریز ہو گئی۔ شیروں کا سردار کوئی گیدڑ ہو تو وہ سب کو گیدڑ بنا دیتا ہے۔ ہماری قیادت نہایت بزدل تھی۔جنرل مشرف نہ صرف سیاسی بصیرت سے محروم شخص تھا،بلکہ اس کے اندر ملی غیرت اور حمیت کی بھی سخت کمی تھی۔دنیا بھر میں کوئی فوجی جرنیل اور سربراہ ایسا ڈرپوک نہیں ہوا ہوگا جس نے ایک ٹیلی فون سے ڈر کر وہ ساری بات قبول کر لی جس کی خود امریکیوں کو بھی توقع نہیں تھی کہ مان لی جائے گی ۔عراق پر حملے کے لیے ترکی سے 26ملین ڈالر کے بدلے میں راستہ مانگا گیاتھا،ترک قیادت نے کہا، ہم اپنی پارلیمنٹ سے پوچھیں گے۔پارلیمنٹ نے اجازت نہیں دی ،ترکی نے صاف انکار کر دیا۔ ہمارے ہاں پارلیمنٹ کہاں تھی،بزدل جرنیل نے کسی سے مشاورت کیے بغیراپنا سب کچھ امریکا کے قدموں میں ڈھیر کر دیا اورہم نے امریکا سے نہایت گھٹیا قسم کا تعاون شروع کر دیا جس سے آہستہ آہستہ ہماری گردن پرامریکی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔اب امریکا ہمارے شہریوں کو اپنے ڈرون طیاروں کے ذریعے مار رہا ہے اور ہم سب اس کے زر خرید بنے ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان کو اپنی غلام ریاست سمجھتا ہے۔
ملا عمر سے ملاقات
ملامحمد عمر مجاہد سے میری پہلی ملاقات1985ءمیں ہوئی جب وہ ایک عام مجاہد کے طور پر میرے کیمپ میں ٹریننگ حاصل کرنے آئے تھے۔ تاہم میں اس وقت انہیں جانتا نہیں تھا، کیوں کہ وہ کوئی کمانڈر نہیں تھے،عام مجاہد تھے۔ وہ استاذ ربانی کی پارٹی میں تھے اور ایک عام مجاہد کے طور پر لڑتے رہے تھے۔ 1994ءمیں جب میری ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی تب انھوں نے مجھے بتایا کہ میں آپ کا شاگرد ہوں اور آپ سے ملاقات کر چکا ہوں اور میں نے فلاں کیمپ میں آپ کی نگرانی میں ٹریننگ حاصل کی تھی۔ مجھے اس موقعے پر وہ کمانڈر تو یاد آگیا جس کا وہ حوالہ دے رہے تھے،یعنی تب میں ان کے کمانڈر کو جانتا تھا لیکن ملا محمد عمر کو نہیں۔ بعد میں ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ملا عمرایک سچے اور مخلص مسلمان ہیں،ان کا انداز بہت صاف اور پر اثر ہے۔ ان کی شخصیت، بات چیت کا انداز بھی متاثر کن ہے۔ایک لڑائی کے دوران وہ زخمی ہوئے اور ان کی ایک آنکھ بھی شہید ہوگئی۔ ہم نے کراچی کے ایک ہسپتال میں ان کاعلاج کرایا ۔ کچھ لوگ انہیں مافوق الفطرت ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی آنکھ کو زخمی ہونے کے بعد چاقو کے ذریعے ڈھیلے سے سے نکالا اورخود ہی سی دیا،یہ سراسر افسانہ ہے ،حقیقت یہ ہے کہ ان کی آنکھ کا باقاعدہ ہسپتال میں آپریشن ہواتھا۔
باپ نہیں خادم
اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ مجھے طالبان کو منظم کرنے کا کام سونپا گیاتھا۔ مجھے با بائے طالبان بھی کہا گیا۔مجھے ان سے وابستہ اس لیے سمجھا گیا کہ میں آخر تک افغانستان سے وابستہ رہا۔ میرے بچوں نے بھی مجھ سےکہا کہ وہ سارے لوگ جو افغان جہاد سے منسلک رہے تھے سب نکل گئے ہیں، آپ کیوں ابھی تک ادھر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب طالبان افغانستان میں منظم ہونا شروع ہوئے تو آئی ایس آئی بھی مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ یہ کون لوگ ہیں؟میں نے کہا یہ ہمارے شاگرد ہیں۔ مجھ سے پھرپوچھا گیا، مزید تفصیل سے بتاﺅ کہ یہ کون لوگ ہیں۔میں نے یقین دلانےکی کوشش کی مگرانہیں میری بات کا اس وقت تک یقین نہ آیا جب تک میں نے ان کو تفصیل سے بتا نہ دیاکہ فلاں الماری میں ، فلاں دراز میں اورفلاں فائل میں دیکھو تمہیں ملا محمد عمر کا نام مل جائے گا،فلاں صفحے پر ملا ربانی کا نام ہو گا۔تب انھیں یقین آیا کہ یہ طالبان تو ہمارے اپنے ٹرینڈ لوگ ہیں،اس وقت تک وہ انہیں امریکی سمجھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ سابق ڈائرکٹر جنرل آئی ایس آئی بھی یہی سمجھ رہے تھے۔ان کے خلاف پروپیگنڈا ہی ایسا تھا کہ لوگ کہتے تھے کہ ملا بورجان ملا بورجان نہیں کوئی انگریز جرنیل ہے۔ میں نے انھیں بتایا کہ یہ ہمارے سب سے اچھے شاگردوں میں سے ہیں۔ میں نے انہیں باور کرایا کہ پہلے یہ لوگ مختلف پارٹیوں میں تھے اب اکٹھے ہو کر ایک ہی جھنڈے کے نیچے کام کر رہے ہیں۔مجھے طالبان سے محبت ہے۔ان کے کردار کی وجہ سے۔میں ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا تھا۔میں نے ملا عمر سے آخری ملاقات کی تو ان سے کہا تھاکہ اگر وہ کہیں تو میں پاکستان کو خدا حافظ کہ کر یہیں ان کے ساتھ رہ جاتا ہوں۔ ملا عمر نے کہا، نہیں آپ جائیں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہیں،مجھے آپ کے یہاں رہنے کا اتنا فائدہ نہیں ہوگا۔ جاتے جاتے میں نے کہا ،ملا صاحب ایک بات یاد رکھنا امریکیوں کے ساتھ دو بدو جنگ (Conventional Warfare)نہیں کرنا ،آپ مارے جاﺅ گے، ان کے خلاف ہمیشہ گوریلا جنگ (Guerrilla Warfare)لڑیں۔ اس پرملا عمر نے کہا:"امام صاحب ایک بار میں دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں کہ افغان دو بدو جنگ میں کیسے ہیں، پھر میں گوریلا جنگ شروع کروں گا۔" تاہم امریکا نے انہیں اس کاموقع ہی نہیں دیا۔ انھوں نے نہایت سخت کارپٹ بمباری کی ۔ طالبان نے جب دیکھا کہ مجاہدین سے زیادہ عام شہری شہید ہو رہے ہیں تو وہ کابل سے نکل گئے۔
اس میں شبہ نہیں کہ ملا عمر کو حالات نے قائد بنایا،لیکن انہوں نے اپنی بہترین اہلیت ثابت کی۔موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراس کا مقابلہ کرنا آسان کام نہیں۔انہوں نے دشمنوں اور دوستوں دونوں کے دباﺅ کا یکساں مقابلہ کیااور کبھی کمزوری نہیں دکھائی۔بڑے سے بڑا دبائو برداشت کیا۔نہ صرف اسامہ بن لادن کے معاملے میں وہ ثابت قدم رہے،بلکہ ہر معاملے میں ثابت قدمی دکھائی۔
یہ نائن الیون سے تین برس پہلے کی بات ہے ،ستمبر1998ءمیں پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ نے سعودی انٹیلی جنس کے وزیر پرنس ترکی الفیصل کے ساتھ ملا عمر سے قندھار میں ملاقات کی اوراسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے پر زوردیا۔ شہزادے نے طالبان کے قائد سے کہا کہ آپ نے تین ماہ پہلے وعدہ کیا تھا کہ اسامہ کو ہمارے حوالے کر دیں گے،مگر اب آپ اسامہ کو سعودی عرب کے حوالے کرنے سے گریزاں ہیں۔ شہزادے نے ملا عمر سے شکایت کی کہ یہ صرف امریکا کا معاملہ نہیں، اسامہ سعودی عرب میں بھی حکومت کے خلاف تحریک کاروحِ رواں ہے۔ طالبان اسے سعودی عرب کے حوالے کرنے کا وعدہ کیوں پورا نہیں کرتے۔
اس موقعے پرآئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نے ملا عمر سے کہا، روسیوں کے خلاف جہاد کو پاکستان اور سعودی عرب دونوں نے سپورٹ کیا تھا،لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ پاکستان اور سعودی عرب کو ناراض نہ کریں۔ وہ اسامہ کو یا تو افغانستان سے نکال دیں یا پھر اسے اس کے اپنے ملک کی حکومت کے حوالے کردیں۔ آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر نے ملا عمرسے کہا ،اسامہ پاکستان سے طالبان کے تعلقات پر بھی برے اثرات ڈال سکتا ہے۔انہوں نے اس اندیشے کا اظہاربھی کیا کہ امریکا اسامہ کا بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ بھی کر سکتا ہے۔ اگر اسامہ کو افغانستان سے نکال دیا جائے گا تو دوسرے ممالک بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلیں گے۔ شہزادے نے بار بار تین ماہ پہلے کے وعدے کا حوالہ دیا۔ ملا عمر نے بڑی استقامت سے یہ دباﺅ سہا،آخر میں کہا،شہزادہ صاحب آپ کو جھوٹ زیب نہیں دیتا،میں نے آپ کے ساتھ کبھی کوئی ایسا وعدہ نہیں کیا تھا۔ ملا عمر نے کہا،بڑے افسوس کی بات ہے کہ سعودی اس موقعے پر افغانستان کی مدد کرنے کی بجائے ہم پر اسامہ کا بہانہ بنا کر دبائو ڈال رہے ہیں۔اسامہ کو اس وقت بے یار ومدد گار کیسے چھوڑا جا سکتا ہے کہ جب کوئی بھی ملک انہیں پناہ دینے کے لیے تیارنہیں اور ان کو شمالی اتحاد والوں سے بھی خطرہ ہے جنہیں ایران کی مدد حاصل ہے۔ شہزادہ کچھ دیر تک ضبط کرتا رہا لیکن پھر وہ اپنے حواس کھو بیٹھا۔ اس نے ملا عمر پر انگلی تانی جو ملا عمر کو خاصی ناگوار گزری۔ اچانک ملا عمر اٹھے اورغصے میں باہر چلے گئے۔ ایک گارڈ بھی ان کے پیچھے گیا۔ چند منٹ بعد ملا عمر واپس آئے تو ان کے سر کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا اورقمیص بازوئوں سمیت گیلی ہورہی تھی۔ ملا عمر نے کہا ،میں دوسرے کمرے میں اس لیے گیا تھاتاکہ اپنے سر پر ٹھنڈا پانی ڈال کر اپنے آپ کو ٹھنڈا کرسکوں۔ شہزادے اگر تم میرے مہمان نہ ہوتے تو آج میں تمہیں عبرت ناک سزا دیتا، ملاعمر کی اس سخت ڈانٹ پر عرب شہزادہ سہم سا گیا۔اس کے بعدملا عمر کا غصہ آہستہ آہستہ فرو ہو گیا۔انہوں نے کہا،میں اسامہ کا فیصلہ کرنے کے لیے سعودی اور افغان علماءپر مشتمل ایک کونسل بنانے کے لیے تیار ہوں۔ اس موقعے پرملا عمرنے اسامہ ہی کی طرح سعودی عرب میں امریکی فوج کے آنے کی سخت الفاط میں مخالفت کی اور کہا کہ سعودی عرب کو آزاد کرانے کے لیے ساری مسلم امہ کو متحد ہوجانا چاہیے۔ ملا عمرنے کہا، پرانے سعودیوں کو اپنی عزت کا احساس ہوتا تھا،وہ کبھی بھی امریکی فوجوں کو سعودی عرب میں داخل نہ ہونے دیتے۔انہوں نے کہا،میں نے اسامہ سے یہ لکھوا لیا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت میں رہ کر کسی دوسرے ملک کے خلاف کارروائی میں ملوث نہیں ہوں گے۔ انہوں نے مہمانوں کو رخصت کرتے ہوئے ایک بار پھر لگی لپٹی رکھے بغیر کہا: مجھے بہت افسوس ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان اسامہ کے بحران میں طالبان کے بجائے امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ملا عمر کی یہ جرات گفتار ان کے ایمان ویقین کا منہ بولتا ثبوت تھی۔
(جاری ہے)
بحوالہ:
http://ahwaal.com/index.php?option=com_content&view=article&id=12455:-2&catid=31:2011-08-25-09-52-49&Itemid=35&lang=ur
 

ہادی

محفلین
یہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں میرے پاس موجود ہے۔ اگر کسی دوست کو چاہئیے تو میں اپلوڈ کر دیتا ہو ں
 

سویدا

محفلین
یہ تحریر کیا واقعی کرنل امام مرحوم کی ہے ؟
کیونکہ اس قسم کی اکثر تحریرات مشکوک ہی ہوتی ہیں اور اکثر وبیشتر بعد از مرگ ہی منظر عام پر پیش ہوجاتی ہے
 

سویدا

محفلین
بعد از مرگ جو تحریرات منظر عام پر آئیں ان سے حقائق منظر عام پر نہیں آسکتے
اور کرنل امام کی زندگی اور کردار خود ایک سوال ہے یہ حقائق پتہ نہیں کب سامنے آئیں گے
 

ابن محمد جی

محفلین
اگر آپ حقائق جاننا چاہتے ہیں تو ان لوگوں سے معلوم کریے جو کرنل امام رحمہ اللہ کی ذاتی زندگی سے واقف ہوں۔انکا تعلق تنظیم الاخوان سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ سے تھا۔
 
Top