آصف اثر
معطل
اردو ادب ، تصنیف وتالیف اور سائنسی ترجمہ نگاری کے مختلف کورسز میں چوں کہ بہترین ادب کو اپنا اوڑھنا بچھوڑنا بنانے پر زور دیا جاتاہے لہذا ہمیں اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود بہترین شہ پاروں کا تجسس رہتاہے۔ جس کے دوران کئی انمول تحریریں، مصنفین، مترجمین اور کالم نگار ہاتھ لگ جاتےہیں۔ کئی برسوں سے ایسی ہی ایک دلچسپ اور منفرد کالم نگار زیرِ مطالعہ ہیں جو ایک مقبول ہفت روزہ میں ”کالم نُما“ کے زیرِ عنوان غالباً ہر ہفتہ لکھتے ہیں۔ان کی تحریریں اپنی ادبی چاشنی اور اچھوتے انداز کے ساتھ ہمیں اپنے سحر میں لے لیتی ہیں ۔دو مختلف نظریات کے کرداروں کے درمیان گفتگو، بحث وتنقیص اور حاضر جوابی اپنی مثال آپ ہیں۔
یہاں اُن کا ایک تازہ مگر انتہائی بَر محل کالم پیش ہے۔امید ہے آپ کے ادبی ذوق کی تسکین کا باعث ہوگا۔
ہمارے دوست مسٹر کلین پھر کچھ دنوں سے غائب تھے۔ ہم پہلے بار ہا بتاچکے ہیں کہ موصوف کا منظر عام سے غائب ہونا ہمیشہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہی ثابت ہوتا ہے۔جب وہ منظر عام پر آجاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ کسی اہم ’’پروجیکٹ‘‘ پر ’’کام‘‘ میں مصروف تھے یا کسی این جی او کے کسی معرکۃ الآراء سروے میں شریک تھے۔حالیہ دنوں چونکہ مردان یونیورسٹی کا واقعہ پیش آیا تھا،اس لیے ہمارا قیاس یہی تھا کہ موصوف اسی واقعے کے حقائق و مضمرات کے کھوج میں لگے ہوں گے۔ویسے پہلے ایک بات یہ بھی ذہن میں آئی کہ ہوسکتا ہے افغانستان میں امریکا کی جانب سے’’ بموں کی ماں‘‘ گرائے جانے کے بعد وہاں انسانیت کا حال معلوم کرنے کے لیے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کسی این جی او کی جانب سے مسٹر کلین جیسے انسانیت نواز شخص کی تشکیل ہوگئی ہو مگر یہ خیال ہم نے فورا ہی ذہن سے جھٹک دیا کیونکہ افغانستان، عراق، کشمیر اور فلسطین جیسے علاقے تو’’انسانیت‘‘کے ’’دائرے‘‘میں آتے ہی نہیں ہیں۔انسانیت کے عالمی علم برادروں نے ہمیں یہی بتایا ہوا ہے کہ انسان وہی ہوتے ہیں جن کا رنگ گورا ہو، ملک اسلامی نہ ہو۔ مذہب اسلام کے علاوہ کوئی اور ہو،اگر نام مسلمانوں جیسا ہے یا مذہب کے خانے میں اسلام ہی لکھاہے تو فرقہ اقلیتی ہو اکثریتی نہ ہو۔ہاں البتہ اگر قادیانی،بہائی وغیرہ وغیرہ ہو تو وہ تو بطریق اولیٰ ’’انسان‘‘ کہلائیں گے اور ان کو ہر صورت میں معصوم اور مظلوم ہی سمجھا جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی توہین رسالت کے جرم میں ماخوذ یا مطلوب ہے تو اس کو تو ’’انسانیت ‘‘کی درجہ بندی میں’’ کٹیگری ون‘‘ میں رکھا جائے گا۔
اسی بناء پر ہمارا ذہن اس طرف کیا کہ مسٹر کلین مردان یونیورسٹی کے واقعے کا دوربینی وخوردبینی جائزہ لینے میں مصروف ہوں گے،ہم نے سنا تھا کہ پاکستان کی لبرل لابی اپنے سارے آلات و اوزار کے ساتھ مردان پہنچ چکی ہے اور مردان کے واقعے میں کسی مولوی، مدرسے یا کم از کم دینی ذہن کے آدمی کا کوئی کردار تلاش کرنے میں ہمہ جہت مصروف ہے کیونکہ عالمی ڈونر ایجنسیوں کے مطابق اس مسالے کے بغیرپکایا گیا کوئی بھی’’پکوان‘‘ ان کے کام و دُہن کی لذت کا سامان نہیںکر سکے گا۔اس لیے انتہائی طاقتور دور بینوں اور خورد بینوں کے ذریعے دیکھا اور ایک ایک جزئیے کو پرکھا جارہا ہے کہ کہیں سے کسی ملا یا مدرسے کا نام آجائے مگر وہ آکے نہیں دے رہا۔گاؤں کے مولوی صاحب کی جانب سے مقتول کی نما زِجنازہ پڑھانے سے انکار کو میڈیا نے کچھ دیر کے لیے اچھالا اور بعض انگریزی اخبارات نے اس سے سرخیاں سجانے کی کوشش کی لیکن یہ دال بھی زیادہ نہ گل سکی کیونکہ اس سے اصل واقعے میں مولوی کا کردار نکالنے کی کوشش نہیں کی جاسکتی تھی۔ ہمیں اس بات کا تجسس تھا کہ ہمارے دوست مسٹر کلین کو اس بابت کوئی کامیابی مل سکی ہے یا نہیں۔مگر موصوف تھے کہ مل کر ہی نہیں دے رہے تھے۔اس لیے کل ہم نے ان کو فون ملایا اور سلام دعا کے بعدشکوہ کیا کہ آج کل دیدار کا موقع نہیں مل رہا تو موصوف نے کہا، اچھا ہے نا ملاجی! بندہ ملا لوگوں سے جتنا دور رہے، اتنا ہی’’ سیف‘‘ رہے گا۔ آج کل تو بہت ڈر لگنے لگا ہے، نہ جانے کب کس بات پر کوئی ملا ’’توہین رسالت‘‘ کا فتویٰ لگادےاور جنونی بلوائی جمع ہوکر بندے کو پھڑکا ہی دیں۔آپ کو نہیں پتا کہ مردان میں مشال خان پر کتنا بڑا ظلم ہوا ہے؟ ہم نے عرض کیا،اس افسو سناک واقعے کی تمام دینی قوتوں نے مذمت کی ہے مگرآپ ہی بتائیں، یقینا آپ نے بڑی’’ ریسرچ‘‘ کی ہوگی اب تک، مردان کے واقعے میں کونسا ملا ملوث تھا؟ مسٹر کلین نے کہا،ابھی تک کوئی ثبوت تو سامنے نہیں آیا مگر ہمیں یقین ہے کہ اس واقعے کے پیچھے کہیں نہ کہیں کسی ملا کا ہاتھ ضرور ہوگا۔ہم نے ہنستے ہوئے عرض کیا،اس کیفیت کو جس میں آپ کو شواہد کے بغیر ہی کسی کے خلاف کسی چیز کا’’ یقین ‘‘ہوجاتا ہے،دماغی صحت کے ماہرین ’’فوبیا‘‘ کہتے ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ کہیں آپ ’’ملا فوبیا‘‘ کے بے چین رکھنے والے مرض میں مبتلا نہ ہوچکے ہیں۔
مسٹر کلین نے کہا، دیکھیں ملا جی! بات یہ ہے کہ ہم ٹریک ریکارڈ دیکھ کر بات کرتے ہیں۔ملا کا ٹریک ریکارڈ یہی بتا تا ہے۔ ہم نے عرض کیا،ٹریک ریکارڈ کو چھوڑیں، کل پرسوں ہی کی خبر دیکھیں، آپ نے سنا ہوگا چترال میں ایک بد بخت شخص نے نماز جمعہ کے اجتماع کے سامنے کھڑے ہونبوت کا جھوٹا اعلان کیا،مجمع اسے پکڑ کر نشان عبرت بنانے کے لیے لپکا، مگر منبر پر بیٹھے ’’ملا ‘‘نے اس شخص کی ذہنی بیماری کا ادراک کرکے اسے قانون کے حوالے کیا اور خود مشتعل عوام کے غیظ و عضب کا سامنا بھی کیا۔اگر ملا ہی حالات کی خرابی کا ذمہ دار ہوتا تو اس واقعے میں لوگ کذاب کی بوٹی بوٹی کرچکے ہوتے۔مردان کا واقعہ ایک سرکاری یونیورسٹی میں پیش آیا،اس یونیورسٹی میں سب پڑھے لکھے اور اچھے خاصے روشن خیال لوگ پڑھتے، پڑھاتے اور انتظامیہ میں ہوتے ہیں، ان کے سامنے توہین رسالت کی شکایات آئی تو وہ قانون کی عمل داری قائم نہ کرسکے اور ادھر ایک ملا جس نے کبھی کالج و یونیورسٹی کا دروازہ نہیں دیکھا، نے ایک انتہائی سنگین واقعے پر انتہائی ذمہ دارانہ کردار ادا کیا، مگر افسوس کہ جس میڈیا نے مردان یونیورسٹی کے واقعے کو ایک ہفتے تک اچھالا اور اس میں بلاوجہ و بلاضرورت ملا کو بھی رگیدا گیا، اس کو اتنی بھی توفیق نہ ملی کہ ایک ملا کے اس احسن اقدام کی تعریف میں بھی دولفظ کہتا۔اسے آخر کیا نام دیا جائے؟مسٹر کلین نے کہا، آپ جو بھی نام دیں آپ کی مرضی، آپ چاہیں تو اسے بھی ’’توہین رسالت‘‘ قرار دے سکتے ہیں، آپ سے کون پوچھ سکتا ہے؟
ہم نے مسٹر کلین کے اس نامعقول جواب پر لاحول و لا قوۃ پڑھی اور موصوف نے شاید یہ سمجھ کر کہ ہم کوئی فتویٰ داغنے کی تیاری کر رہے ہیں، جلدی سے فون بند کرلیا!
یہاں اُن کا ایک تازہ مگر انتہائی بَر محل کالم پیش ہے۔امید ہے آپ کے ادبی ذوق کی تسکین کا باعث ہوگا۔
ہمارے دوست مسٹر کلین پھر کچھ دنوں سے غائب تھے۔ ہم پہلے بار ہا بتاچکے ہیں کہ موصوف کا منظر عام سے غائب ہونا ہمیشہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہی ثابت ہوتا ہے۔جب وہ منظر عام پر آجاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ کسی اہم ’’پروجیکٹ‘‘ پر ’’کام‘‘ میں مصروف تھے یا کسی این جی او کے کسی معرکۃ الآراء سروے میں شریک تھے۔حالیہ دنوں چونکہ مردان یونیورسٹی کا واقعہ پیش آیا تھا،اس لیے ہمارا قیاس یہی تھا کہ موصوف اسی واقعے کے حقائق و مضمرات کے کھوج میں لگے ہوں گے۔ویسے پہلے ایک بات یہ بھی ذہن میں آئی کہ ہوسکتا ہے افغانستان میں امریکا کی جانب سے’’ بموں کی ماں‘‘ گرائے جانے کے بعد وہاں انسانیت کا حال معلوم کرنے کے لیے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کسی این جی او کی جانب سے مسٹر کلین جیسے انسانیت نواز شخص کی تشکیل ہوگئی ہو مگر یہ خیال ہم نے فورا ہی ذہن سے جھٹک دیا کیونکہ افغانستان، عراق، کشمیر اور فلسطین جیسے علاقے تو’’انسانیت‘‘کے ’’دائرے‘‘میں آتے ہی نہیں ہیں۔انسانیت کے عالمی علم برادروں نے ہمیں یہی بتایا ہوا ہے کہ انسان وہی ہوتے ہیں جن کا رنگ گورا ہو، ملک اسلامی نہ ہو۔ مذہب اسلام کے علاوہ کوئی اور ہو،اگر نام مسلمانوں جیسا ہے یا مذہب کے خانے میں اسلام ہی لکھاہے تو فرقہ اقلیتی ہو اکثریتی نہ ہو۔ہاں البتہ اگر قادیانی،بہائی وغیرہ وغیرہ ہو تو وہ تو بطریق اولیٰ ’’انسان‘‘ کہلائیں گے اور ان کو ہر صورت میں معصوم اور مظلوم ہی سمجھا جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی توہین رسالت کے جرم میں ماخوذ یا مطلوب ہے تو اس کو تو ’’انسانیت ‘‘کی درجہ بندی میں’’ کٹیگری ون‘‘ میں رکھا جائے گا۔
اسی بناء پر ہمارا ذہن اس طرف کیا کہ مسٹر کلین مردان یونیورسٹی کے واقعے کا دوربینی وخوردبینی جائزہ لینے میں مصروف ہوں گے،ہم نے سنا تھا کہ پاکستان کی لبرل لابی اپنے سارے آلات و اوزار کے ساتھ مردان پہنچ چکی ہے اور مردان کے واقعے میں کسی مولوی، مدرسے یا کم از کم دینی ذہن کے آدمی کا کوئی کردار تلاش کرنے میں ہمہ جہت مصروف ہے کیونکہ عالمی ڈونر ایجنسیوں کے مطابق اس مسالے کے بغیرپکایا گیا کوئی بھی’’پکوان‘‘ ان کے کام و دُہن کی لذت کا سامان نہیںکر سکے گا۔اس لیے انتہائی طاقتور دور بینوں اور خورد بینوں کے ذریعے دیکھا اور ایک ایک جزئیے کو پرکھا جارہا ہے کہ کہیں سے کسی ملا یا مدرسے کا نام آجائے مگر وہ آکے نہیں دے رہا۔گاؤں کے مولوی صاحب کی جانب سے مقتول کی نما زِجنازہ پڑھانے سے انکار کو میڈیا نے کچھ دیر کے لیے اچھالا اور بعض انگریزی اخبارات نے اس سے سرخیاں سجانے کی کوشش کی لیکن یہ دال بھی زیادہ نہ گل سکی کیونکہ اس سے اصل واقعے میں مولوی کا کردار نکالنے کی کوشش نہیں کی جاسکتی تھی۔ ہمیں اس بات کا تجسس تھا کہ ہمارے دوست مسٹر کلین کو اس بابت کوئی کامیابی مل سکی ہے یا نہیں۔مگر موصوف تھے کہ مل کر ہی نہیں دے رہے تھے۔اس لیے کل ہم نے ان کو فون ملایا اور سلام دعا کے بعدشکوہ کیا کہ آج کل دیدار کا موقع نہیں مل رہا تو موصوف نے کہا، اچھا ہے نا ملاجی! بندہ ملا لوگوں سے جتنا دور رہے، اتنا ہی’’ سیف‘‘ رہے گا۔ آج کل تو بہت ڈر لگنے لگا ہے، نہ جانے کب کس بات پر کوئی ملا ’’توہین رسالت‘‘ کا فتویٰ لگادےاور جنونی بلوائی جمع ہوکر بندے کو پھڑکا ہی دیں۔آپ کو نہیں پتا کہ مردان میں مشال خان پر کتنا بڑا ظلم ہوا ہے؟ ہم نے عرض کیا،اس افسو سناک واقعے کی تمام دینی قوتوں نے مذمت کی ہے مگرآپ ہی بتائیں، یقینا آپ نے بڑی’’ ریسرچ‘‘ کی ہوگی اب تک، مردان کے واقعے میں کونسا ملا ملوث تھا؟ مسٹر کلین نے کہا،ابھی تک کوئی ثبوت تو سامنے نہیں آیا مگر ہمیں یقین ہے کہ اس واقعے کے پیچھے کہیں نہ کہیں کسی ملا کا ہاتھ ضرور ہوگا۔ہم نے ہنستے ہوئے عرض کیا،اس کیفیت کو جس میں آپ کو شواہد کے بغیر ہی کسی کے خلاف کسی چیز کا’’ یقین ‘‘ہوجاتا ہے،دماغی صحت کے ماہرین ’’فوبیا‘‘ کہتے ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ کہیں آپ ’’ملا فوبیا‘‘ کے بے چین رکھنے والے مرض میں مبتلا نہ ہوچکے ہیں۔
مسٹر کلین نے کہا، دیکھیں ملا جی! بات یہ ہے کہ ہم ٹریک ریکارڈ دیکھ کر بات کرتے ہیں۔ملا کا ٹریک ریکارڈ یہی بتا تا ہے۔ ہم نے عرض کیا،ٹریک ریکارڈ کو چھوڑیں، کل پرسوں ہی کی خبر دیکھیں، آپ نے سنا ہوگا چترال میں ایک بد بخت شخص نے نماز جمعہ کے اجتماع کے سامنے کھڑے ہونبوت کا جھوٹا اعلان کیا،مجمع اسے پکڑ کر نشان عبرت بنانے کے لیے لپکا، مگر منبر پر بیٹھے ’’ملا ‘‘نے اس شخص کی ذہنی بیماری کا ادراک کرکے اسے قانون کے حوالے کیا اور خود مشتعل عوام کے غیظ و عضب کا سامنا بھی کیا۔اگر ملا ہی حالات کی خرابی کا ذمہ دار ہوتا تو اس واقعے میں لوگ کذاب کی بوٹی بوٹی کرچکے ہوتے۔مردان کا واقعہ ایک سرکاری یونیورسٹی میں پیش آیا،اس یونیورسٹی میں سب پڑھے لکھے اور اچھے خاصے روشن خیال لوگ پڑھتے، پڑھاتے اور انتظامیہ میں ہوتے ہیں، ان کے سامنے توہین رسالت کی شکایات آئی تو وہ قانون کی عمل داری قائم نہ کرسکے اور ادھر ایک ملا جس نے کبھی کالج و یونیورسٹی کا دروازہ نہیں دیکھا، نے ایک انتہائی سنگین واقعے پر انتہائی ذمہ دارانہ کردار ادا کیا، مگر افسوس کہ جس میڈیا نے مردان یونیورسٹی کے واقعے کو ایک ہفتے تک اچھالا اور اس میں بلاوجہ و بلاضرورت ملا کو بھی رگیدا گیا، اس کو اتنی بھی توفیق نہ ملی کہ ایک ملا کے اس احسن اقدام کی تعریف میں بھی دولفظ کہتا۔اسے آخر کیا نام دیا جائے؟مسٹر کلین نے کہا، آپ جو بھی نام دیں آپ کی مرضی، آپ چاہیں تو اسے بھی ’’توہین رسالت‘‘ قرار دے سکتے ہیں، آپ سے کون پوچھ سکتا ہے؟
ہم نے مسٹر کلین کے اس نامعقول جواب پر لاحول و لا قوۃ پڑھی اور موصوف نے شاید یہ سمجھ کر کہ ہم کوئی فتویٰ داغنے کی تیاری کر رہے ہیں، جلدی سے فون بند کرلیا!
آخری تدوین: