مغزل
محفلین
میرے ایک بہت ہی پیارے دوست علی ساحل کی ایک نظم
(خرم شہزاد خرم تمھارے لیے)
ملبہ
مَیں بچپن میں
سبھی دُکھ گھر کی دیواروں پہ لکھ دینے کا عادی تھا
مگر پردیس میں آکر
میں اپنے گھر کی دیواروں پہ روشن سب دُکھوں کو بھُول بیٹھا ہوں
میری ماں نے بتایا ہے
کہ اب کے بارشوں میں گھر کی دیواریں بھی روئی ہیں
سو گھر جا کر
مجھے دیوار پہ لکھیّ ہوئی تحریر کا ملبہ اُٹھانا ہے
علی ساحل
(خرم شہزاد خرم تمھارے لیے)
ملبہ
مَیں بچپن میں
سبھی دُکھ گھر کی دیواروں پہ لکھ دینے کا عادی تھا
مگر پردیس میں آکر
میں اپنے گھر کی دیواروں پہ روشن سب دُکھوں کو بھُول بیٹھا ہوں
میری ماں نے بتایا ہے
کہ اب کے بارشوں میں گھر کی دیواریں بھی روئی ہیں
سو گھر جا کر
مجھے دیوار پہ لکھیّ ہوئی تحریر کا ملبہ اُٹھانا ہے
علی ساحل