مفتی عزیزالرحمان
محفلین
ملتان کل اور آج
ملتان پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے۔ یہ شہر جنوبی پنجاب میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ اس میں تحصیل صدر، تحصیل شجاع آباد اورتحصیل جلال پورپیروالہ شامل ہیں
انتظامی طور پر اب اسمیں چھ ٹاؤنز ہیں۔
آبادی
اس کی آبادی اب 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے، اہل ملتان کو ریشم دلان ملتان بھی کہا جاتا ہے
ملتان پر حاکم اور حملہ آور
سکندر اعظم کی آخری مہم ملتان پر حملہ تھا شہر کی فصیل عبور کرنے کے دوران خونی برج کے مقام پر اسے زہر میں بجھا ایک تیر لگا وہ گھوڑے سے گر پڑا۔
یہیں اس کی وہ ڈھال بھی زمیں بوس ہوئی جسے وہ یونان کے مقدس معبدوں سے لایا تھا اور جو ہر میدان جنگ میں اس کی فتح کی گواہ تھی۔ اور پھرمقدونیوں نے قلعہ پر زبردست حملہ کرکے قلعہ فتح کرلیا۔البتہ وہ زخم البتہ بابل کے راستے میں مقدونیہ واپس جاتے ہوئے سکندر کی جان لے بیٹھا۔
پھر ہنوں نے یلغار کر دی۔ طورمان کی قیادت میں ان لوگوں نے شہر فتح تو کیا مگر یہاں رکے نہیں۔ 664 ہجری میں مسلمان فوج، مہلب بن ابی صفرا کی قیادت میں ملتان تک پہنچی ضرور مگر صحیح معنوں میں ملتان کو محمد بن قاسم نے 712 ہجری میں فتح کیا۔
اصل میں پہلی صدی ہجری میں ہی عربوں نے ملتان پر قبضہ کر لیا تھا اور ملتان خلافت کے زیر اثر تھا خلافت عباسیہ کےکمزور ہونے سے دیگر ریاستوں کی طرح ملتان بھی خود مختار ریاست بن گیا۔ تیسری صدی کے وسط میں ملتان سندھ سے علیحدہ ہوگیا اور یہاں سامہ بن لوی کی حکومت قائم ہوئی۔
پھر ملتان پر 763 ھ میں اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی جو مسلمانوں کی بجائے ہندوؤں کی حمایتی تھی محمود غزنوی نے اس کی سزا میں ان پر حملہ کرکے 1004 ملتان فتح کرلیا۔
تخت دہلی کے حکمران سلطان غیاث بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد نے 13 ویں صدی میں کچھ عرصے کے لیے ملتان کے گورنر بن کر یہاں حکومت کی ۔
اس کے بعد بھی کئی مسلم حکمرانوں نے ملتان پر حکومت کی آخری بادشاہ مغل خاندان میں سے تھے جب مغل کمزور ہوگئے تو احمد شاہ ابدالی نے یہاں نواب مظفر خان کو حاکم بنادیا جس نے چالیس سال تک حکومت کی۔
پھر رنجیت سنگھ نے ملتان پر حملہ کیا اور ایک زوردار جنگ ہوئی تاریخ میں اسے ’’ جنگ ملتان ‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ یہ جنگ مارچ 1818 ء میں شروع ہوئی اور 2 جون 1818 ء کو ختم ہوئی ۔ رنجیت سنگھ کی فوجوں نے قلعہ ملتان پر 1818ء میں قبضہ کر لیا ۔ اور نواب مظفر خان اپنے 7 بیٹوں اور دیگر عزیز و اقارب کے ساتھ شہید ہو گئے ۔اور رنجیت سنگھ کے کئی بیٹوں کی حکمرانی کے بعد انگریز یہاں قبضہ جمایا اور قریبا سوسال حکومت کی۔
ملتان کا نام
تاریخ میں ملتان کا سب سے پرانا نام، آج سے لگ بھگ آٹھ ہزار سال پہلے میسان یا مائستھان کے طور پہ ملتا ہے۔
منشی عبدالرحمان، اپنی کتاب آئینہ ملتان میں ایک روایت لکھتے ہیں جس کا ایک جملہ یہ ہے کہ شیطان میسان اترا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شیطان ملتان میں اترا تھا جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں یہ میسان اصل میں مائستھان تھا نہ کہ حقیقی میسان جوکہ بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے وہاں شیطان اترا تھا جیسا کہ تفسیر درمنثور وغیرہ میں اس میسان کی اچھی طرح وضاحت کردی گئی ہے
دیگرنام درج ذیل ہیں
سامبا۔سنب پورہ۔ کشب پورہ۔پرہلاد پورہ۔مدينة الذہب۔ مول استہان۔مالی تان۔ مالیتان ، مولتان۔ ملتان۔
بت ملتان
ملتان میں ایک مندر میں ایک بت بھی تھا یہاں سے نکلنے والا مال غنیمت جب حجاج بن یوسف کے خزانے میں پہنچا تو شہر کا نام ہی مدینۃالذھب پڑ گیا یعنی سونے کا شہر۔ نوجوان جرنیل محمد بن قاسم نے مندر کو تو نہ چھیڑا، البتہ اس کے ساتھ ایک مسجد ضرور بنوا ڈالی۔
کچھ صدیوں بعد محمود غزنوی بھی یہاں سے گزرا۔ اس افغان زادے نے بامیان کے بت تو شائد طالبان کے لئے چھوڑ دئیے، البتہ یہ مندر خود مسمار کروایا۔
حدود اربعہ
ضلع ملتان کے شمال میں خانیوال، مشرق میں وہاڑی، جنوبی مشرق میں لودھراں جنوب میں دریائے ستلج کے پار بہاولپور اور مغرب میں دریائے چناب کے پار مظفرگڑھ واقع ہے۔
ملتان کی قدیم حدود
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ملتان ایک شہر ہی نہیں ایک تہذیب اور ایک سلطنت کا نام بھی ہے
ابوالفضل نے اپنی مشہور عالم کتاب آئین اکبری میں ملتان کی حدود یہ بیان کی ہیں ، صوبہ ملتان کے ساتھ ٹھٹھہ کے الحاق سے پہلے یہ صوبہ فیروز پور سے سیوستان تک ۶۲۴کروہ تھا چوڑائی میں کھت پور سے جیسلمیر تک۶۲۱ کروہ تھا ٹھٹھہ کے الحاق کے بعد یہ صوبہ کیچ اور مکران تک وسیع ہوگیا ، اس کا یہ فاصلہ 660کروہ تھا ، مشرق میں اسکی سرحدیں سرہند سرکار سے شمال میں پشاور سے جنوب میں اجمیر کے صوبے اور مغرب میں کیچ مکران سے ملتی تھیں ، کیچ اور مکران پہلے صوبہ سندھ میں شامل تھے ملتان کے صوبے میں تین سرکاریں ﴿ملتان خاص دیپال پور اور بھکر﴾ تھیں اور کل اٹھاسی پراگنے ﴿ضلع﴾تھے۔
ملتان کی وسعت اور عظمت پر تاریخ آج بھی رشک کرتی ہے ، ملتان کے قدامت کے ہم پلہ دنیا میں شاید ہی کوئی شہر ہو ، پاکستان میں جن شہروں کو مصنوعی طریقے سے ملتان سے کئی گنا بڑے شہر بنایا گیا ہے، آج سے چند سو سال پہلے یہ ملتان کی مضافاتی بستیاں تھیں اس بات کی شہادت حضرت داتا گنج بخش(رح) نے اپنی کتاب’’کشف المجوب‘‘ میں ’’لاہور یکے از مضافاتِ ملتان‘‘ فرما کر دی ہے ۔
ایک وقت تھا جب یہ سلطنت سمندر تک پھیلی ہوئی تھی اور عروس البلد لاہور اس کا ایک مضافاتی علاقہ ہوتا تھا۔ ساہیوال، پاکپتن، اوکاڑہ، میاں چنوں، خانیوال، لودھراں، مظفرگڑھ اور بھکر تمام اس کے علاقے تھے۔ مگر یہ تاریخی شہر رفتہ رفتہ تقسیم در تقسیم ہوتا گیا۔تاریخی سلطنت (صوبہ ملتان) اور آج تین تحصیلوں تک محدود ہوگیا ہے۔
قلعہ ملتان کتنا قدیم ہے؟
قدیم ترین زندہ شہروں میں ملتان سرے فہرست ہے اس کی قدامت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پانچ ہزار سال پرانا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ یہ اس سے بھی قدیم ہو ، اس بات پر تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ ملتان اور قلعہ ملتان کا وجود تاریخ دیو مالائی دور سے بھی پہلے کا ہے ، قابل افسوس امر یہ ہے کہ حملہ آوروں نے ہمیشہ اس قلعے کو نشانہ بنایا اور اسے فتح کرنے کے بعد خوب لوٹ مار ہوتی رہی مگر اسے بحال کرنے کی صورت پیدا نہ ہو سکی ، 1200قبل مسیح دارانے اسے تباہ کیا ،325 قبل مسیح سکندر اعظم نے اس پر چڑھائی کی پھر عرب افغان سکھ اور انگریز حملہ آوروں قدیم قلعہ ملتان کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ،
یہ قلعہ اپنے اندر موجود دفاعی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ طرز تعمیر میں بھی یگانگت رکھتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق، اس قلعہ کی دیواریں تقریبا 40 سے 70 فٹ (21 میٹر) اونچی اور 6،800 فٹ (2 کلومیٹر) کے علاقے کا گھیراؤ کرتی تھیں۔ اس کی دیواریں برج دار تھیں اور اس کی ہر داخلی دروازے کے پہلو میں حفاظتی مینارے تعمیر کیے گئے تھے۔ اس قلعہ کے چار داخلی دروازے تھے، جن میں قاسمی، سکی، حریری اور خضری دروازے شامل ہیں۔ قلعے کی حفاظت کے لیے اس کے ارد گرد 26 فٹ گہری اور 40 فٹ چوڑی خندق بھی کھودی گئی تھی، جو کہ بیرونی حملہ آوروں کو روکنے میں مددگار ثابت رہتی تھی۔
قلعہ کی بیرونی فصیلوں کی حصار میں اندر کی جانب ایک مورچہ نما چھوٹا قلعہ تعمیر کیا گیا تھا، جس کے پہلو میں 30 حفاظتی مینار، ایک مسجد، ہندؤں کا مندر اور خوانین کے محل تعمیر کیے گئے تھے۔ 1818ء میں رنجیت سنگھ کی افواج کے حملے میں اندرونی چھوٹے قلعے کو شدید نقصان پہنچا۔
اس قلعہ کو کاٹوچگڑھ بھی کہا جاتا تھا، جو کہ کاٹوچوں یعنی راجپوتوں کی شہنشاہی کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔
ملتان کی عظمت وشان
ملتان کی تاریخ بہت پرانی ہے۔بہت سے شہر آباد ہوئے مگر گردش ایام کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ، لیکن شہر ملتان ہزاروں سال پہلے بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے ۔ ملتان کو صفحہ ہستی سے ختم کر نے کی کوشش کرنے والے سینکڑوں حملہ آور خود نیست و نابود ہو گئے آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں مگر ملتان آج بھی اپنے پورے تقدس کے ساتھ زندہ ہے اور مسجود ملائک بنا ہوا ہے ، شیخ الاسلام حضرت بہائو الدین زکریا ملتانی(رح) نے ایسے تو نہیں کہا تھا۔
ملتان ما بجنت اعلیٰ برابراست آہستہ پابنہ کہ ملک سجدہ می کنند
ہمارا ملتان جنت اعلی کے برابر ہے
اس میں قدم آہستہ رکھو فرشتے سجدہ کناں ہیں
ملتان کے اولیاء کرام
1
غوث العالمین، شیخ الاسلام حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی 27 رمضان 566ھ حضرت مولانا وجیہہ الدین محمد قریشی کے ہاں پیدا ہوئے، صغیر سنی میں والد ماجد کا انتقال ہو گیا، یتیمی کی حالت میں تعلیم اور تربیت کے مراحل طئے ہوئے اور عین جوانی میں عازم سفر سلوک بنے، بغداد پہنچ کر حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ سے روحانی فیض حاصل کیا، سہروردی سئیں نے خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپ کو ملتان پہنچ کر دین کے لیے کام کرنے کی تلقین فرمائی، ملتان میں ان دنوں ہندوؤں کا غلبہ تھا اور پرہلاد جی خود تو موحد تھے اور خدا کا انکار کرنے والے اپنے بادشاہ باپ سے جنگ بھی کی مگر پر ہلاد جی کی وفات کے سینکڑوں سال بعد ان کے مندر پر بت پرست غالب آ گئے اور پرہلاد جی کا مندر ہندو مذہب کا مرکز بنا ہوا تھا، ملتان پہنچ کر آپ نے تبلیغ شروع کر دی، پرہلاد مندر کے متولیوں کے غیر انسانی رویوں سے نالاں لوگ جوق در جوق حضرت کی خدمت میں پہنچ کر حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے، آپ نے شروع میں مدرستہ الاسلام قائم کیا اور بعد میں اسے دنیا کی سب سے بڑی پہلی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت دیدی، آپ نے تعلیم کے ساتھ تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا،
آپ کے پیغام سے لاکھوں انسان حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور آپ نے لوگوں کے دلوں میں اس طرح گھر بنا لیا کہ آٹھ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی لاکھوں انسانوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
ملتان کے حوالے سے فارسی کا شعر
چہار چیزاز تحفہ ملتان است گردو گرما گداوگورستان است
گرد کا مطلب ہے کہ یہاں آندھیاں بہت آتی ہیں ۔ گرما کا مطلب ہے کہ گرمی بہت ہوتی ہے ، گدا کا مطلب ہے کہ یہاں اللہ والے بہت لوگ ہیں اور گورستان کا مطلب ہے کہ یہاں قبرستان بہت ہیں۔
اس شعر پر مولانا محمد اسماعیل ریحان صاحب کا ایک مضمون اسلام میں شائع ہوا تھا جس میں انہوں فرمایا تھا ایسے ہی ملتان کو بدنام کیا ہوا ہے کراچی بھی اس سے پیچھے نہیں۔ مفہوم۔ لیکن اب وہ مضمون مجھے مل نہیں سکا ورنہ مزا دوبالا ہوجاتا۔
مشہوراولیاءکرام کے مزارات
اس شہر کو اولیاء کا شہر کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کافی تعداد میں اولیاء اور صوفیاء کے مزارات ہیں۔ مشہور مزارات میں حضرت شاہ شمس تبریز(رح) ، حضرت بہاؤالحق (رح)، حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی(رح) ، حضرت شاہ رکن عالم(رح)، حضرت موسیٰ پاک شہید (رح)، حضرت حافظ محمد جمال (رح) اور بہت سے اولیاء کرام کے مزارات یہاں پر ہیں۔
ملتان کےفوت شدہ بزرگان دین علماء وصلحاء
مولانا خیر محمد صاحب رحمہ اللہ
قاری رحیم بخش صاحب رحمہ اللہ
حضرت عطاء اللہ بخاری رحمہ اللہ
مفتی عبدالستار صاحب رحمہ اللہ
مولانا محمد صدیق صاحب رحمہ اللہ
پیر قمر الدین شاہ صاحب رحمہ اللہ
سید ابوذر بخاری رحمہ اللہ
قاری حنیف ملتانی رحمہ اللہ
قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمہ اللہ وغیرہ
زندہ علماء و صلحاء
پیر ناصرالدین خاکوانی صاحب مدظلہم
سید عطاء المہیمن صاحب مدظلہم
سید عطاء المومن صاحب مدظلہم
مولانا عزیز الرحمان جالندھری مدظلہم
مولانا قاری محمد حنیف صاحب جالندھری مدظلہم
مولانا قاری محمد ادریس صاحب ہوشیارپوری مدظلہم
مولانا محمد عابد مدنی صاحب مدظلہم
مولانا منظور صاحب مدظلہم
مولانا محمد نواز سیال صاحب مدظلہم
مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب مدظلہم وغیرہ
ملتان کے مشہور سیاست دان
سید یوسف رضا گیلانی سابق وزیراعظم
ملک رفیق احمد رجوانہ گورنر پنجاب
سید فخر امام سابق اسپیکر قومی اسمبلی
شاہ محمود قریشی سابق وزیر خارجہ
جاوید ہاشمی سابق وفاقی وزیر
سکندر بوسن وفاقی وزیر
ڈاکٹر محمد عارف خان رہنما جمعیت علمائے اسلام ف وغیرہ
ملتان کے قدیم دروازے
پاک گیٹ حرم دروازہ بوہڑ دروازہ دہلی دروازہ دولت دروازہ لوہاری دروزہ
مشہورمقامات
حسین آگاہی گھنٹہ گھر عزیز ہوٹل ملتان کینٹ ڈیرہ اڈا گلگشت کالونی واپڈا ٹاون کھاد فیکٹری نشتر ہسپتال سول ہسپتال قلعہ کہنہ قاسم باغ بہاوالدین زکریا یونیورسٹی۔ملتان کا بین الاقوامی ہوائی اڈا
پارکس
جناح پارک
شاہ شمس پاک
چناب پارک
جھیل
ملتان کے مذہبی مراکز و مدارس
جامعہ خیر المدارس
جامعہ عمر بن خطاب
جامعہ قاسم العلوم
جامعہ دارالعلوم رحیمیہ
جامعہ قادریہ حنفیہ
جامعہ صدیق اکبر
جامعہ نعمانیہ
جامعہ رحیمیہ فتح العلوم
جامعہ فتح البركات
جامعہ عبداللہ بن عباس للبنات
ابدالی مسجد تبلیغی مرکز
دفتر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت
دفتر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
خانقاہ مولانا محمد عابد صاحب مدظلہم
خانقاہ حضرت ناصرالدین خاکوانی صاحب مدظلہم وغیرہ
موسم
یہاں اپریل سے گرمی شروع ہوتی ہے جوکہ 6 ماہ تک چلی جاتی ہے
گرمیوں میں درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے
شکل و صورت
یہاں کے لوگ گندمی رنگ کے ہوتے ہیں قد لمبا ہوتا ہے
زبان
یہاں اکثر سرائیکی بولی جاتی ہے جوکہ مظفرگڑھ وغیرہ کی طرح اڈے کڈے کی بجائے انتے کنتے بولی جاتی ہے
درخت
ہمارا شہر آموں کا شہر کہلاتا ہے وہی آم جو غالب سے لیکر اثر جونپوری تک کو پسند ہیں
یہاں شیرشاہی ڈوکے بہت پسند کیے جاتے ہیں۔
کارخانے
ہمارے ہاں اونی سوتی کپڑا بنانے کی مشینوں والے اور کھڈیوں والے کارخانے بہت ہیں خاص طور پر کھڈیاں تو گھروں میں عام پائی جاتی ہیں
کھاد کے کارخانے
کپاس بیلنے کے کارخانے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ کپاس ملتان میں ہوتی ہے
گندم پیسے کے کارخانے وغیرہ
قدرتی گیس
ملتان میں منٹ پور کے علاقہ میں قدرتی گیس کے ذخائر بھی ملے ہیں
ذرائع آمدورفت
ملتان میں اب میٹرو بھی پایہ تکمیل کو پہنچنے والی ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور میں ملتان میں فلائی اوورز کا ایک جال بچھا دیا تھا دس سال پہلے کا ملتان دیکھنے والا اب پہچان نہیں سکے گا کہ وہی ملتان ہے یا کچھ اور!اس کے علاوہ بین الاقوامی ہوائی اڈا بھی بن چکا ہے
اہم واقعات
تحریک ریشمی رومال بھی ملتان سے سبوتاژ کی گئی تھی۔
ملتان میں مختلف بم دھماکے بھی ہوئے ہیں جس میں کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے
1 رشید آباد میں سپاہ کے جلسہ میں بم دھماکہ ہوا۔ جس کی ایک خاص بات یہ ہے تونسہ کا ایک نوجوان بھی اس میں شہید ہوا تھا جس کا نکاح ابھی ہونا تھا اس کی والدہ آئی بیٹے کی نعش کے پاس آکر کہا میں نے تو سنا تھا کہ شہید زندہ ہوتا ہے تو زندہ ہے تو آنکھیں کھول۔
تو بتانے والے کہتے ہیں اس شہید نے آنکھیں کھول کر ماں کو دیکھا پھر آنکھیں بند کرلیں اس کی ماں پکار اٹھی ہاں واقعی شہید زندہ ہوتا ہے
ایک بم دھماکہ قاسم بیلہ حساس ادارہ پر ہوا۔
ایک ملتان شہر میں بھی ہوا تھا۔ اسی طرح گذشتہ سال اندرون ملتان 10 محرم پر اہل تشیع اور سنیوں کے مابین کسی معاملہ پر تنازع بھی ہوا تھا جس پر فوج نے آکر کنٹرول سنبھالا تھا۔
ملتان کے آم
انور ریٹول چونسہ دوسہری کا لا چونسہ دیسی فجری لنگڑہ سندھڑی
مشہورسوغات
حافظ کا ملتانی سوہن حلوہ
ریواڑی کی مٹھائی
دلمیر کے پیڑے
حرم گیٹ کی کھیر
لال کرتی کینٹ کا دودھ
لال کرتی کینٹ کی چانپ
خونی برج کی مچھلی
آپ بھی تشریف لائیں ان شاء اللہ سوغات سے تواضع کی جائے گی۔
مآخذ و مراجع
ویکیپیڈیا
فتح نامہ سندھ عرف چچ نامہ
مختصر تاریخ ملتان
معاشرتی علوم 3
مولانا طارق جمیل صاحب مدظلہم
مختلف ٹی وی ویڈیوز
تاریخ پنجاب
مکتبہ شاملہ
تفسیر درمنثور وغیرہ
ملتان پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے۔ یہ شہر جنوبی پنجاب میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ اس میں تحصیل صدر، تحصیل شجاع آباد اورتحصیل جلال پورپیروالہ شامل ہیں
انتظامی طور پر اب اسمیں چھ ٹاؤنز ہیں۔
آبادی
اس کی آبادی اب 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے، اہل ملتان کو ریشم دلان ملتان بھی کہا جاتا ہے
ملتان پر حاکم اور حملہ آور
سکندر اعظم کی آخری مہم ملتان پر حملہ تھا شہر کی فصیل عبور کرنے کے دوران خونی برج کے مقام پر اسے زہر میں بجھا ایک تیر لگا وہ گھوڑے سے گر پڑا۔
یہیں اس کی وہ ڈھال بھی زمیں بوس ہوئی جسے وہ یونان کے مقدس معبدوں سے لایا تھا اور جو ہر میدان جنگ میں اس کی فتح کی گواہ تھی۔ اور پھرمقدونیوں نے قلعہ پر زبردست حملہ کرکے قلعہ فتح کرلیا۔البتہ وہ زخم البتہ بابل کے راستے میں مقدونیہ واپس جاتے ہوئے سکندر کی جان لے بیٹھا۔
پھر ہنوں نے یلغار کر دی۔ طورمان کی قیادت میں ان لوگوں نے شہر فتح تو کیا مگر یہاں رکے نہیں۔ 664 ہجری میں مسلمان فوج، مہلب بن ابی صفرا کی قیادت میں ملتان تک پہنچی ضرور مگر صحیح معنوں میں ملتان کو محمد بن قاسم نے 712 ہجری میں فتح کیا۔
اصل میں پہلی صدی ہجری میں ہی عربوں نے ملتان پر قبضہ کر لیا تھا اور ملتان خلافت کے زیر اثر تھا خلافت عباسیہ کےکمزور ہونے سے دیگر ریاستوں کی طرح ملتان بھی خود مختار ریاست بن گیا۔ تیسری صدی کے وسط میں ملتان سندھ سے علیحدہ ہوگیا اور یہاں سامہ بن لوی کی حکومت قائم ہوئی۔
پھر ملتان پر 763 ھ میں اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی جو مسلمانوں کی بجائے ہندوؤں کی حمایتی تھی محمود غزنوی نے اس کی سزا میں ان پر حملہ کرکے 1004 ملتان فتح کرلیا۔
تخت دہلی کے حکمران سلطان غیاث بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد نے 13 ویں صدی میں کچھ عرصے کے لیے ملتان کے گورنر بن کر یہاں حکومت کی ۔
اس کے بعد بھی کئی مسلم حکمرانوں نے ملتان پر حکومت کی آخری بادشاہ مغل خاندان میں سے تھے جب مغل کمزور ہوگئے تو احمد شاہ ابدالی نے یہاں نواب مظفر خان کو حاکم بنادیا جس نے چالیس سال تک حکومت کی۔
پھر رنجیت سنگھ نے ملتان پر حملہ کیا اور ایک زوردار جنگ ہوئی تاریخ میں اسے ’’ جنگ ملتان ‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ یہ جنگ مارچ 1818 ء میں شروع ہوئی اور 2 جون 1818 ء کو ختم ہوئی ۔ رنجیت سنگھ کی فوجوں نے قلعہ ملتان پر 1818ء میں قبضہ کر لیا ۔ اور نواب مظفر خان اپنے 7 بیٹوں اور دیگر عزیز و اقارب کے ساتھ شہید ہو گئے ۔اور رنجیت سنگھ کے کئی بیٹوں کی حکمرانی کے بعد انگریز یہاں قبضہ جمایا اور قریبا سوسال حکومت کی۔
ملتان کا نام
تاریخ میں ملتان کا سب سے پرانا نام، آج سے لگ بھگ آٹھ ہزار سال پہلے میسان یا مائستھان کے طور پہ ملتا ہے۔
منشی عبدالرحمان، اپنی کتاب آئینہ ملتان میں ایک روایت لکھتے ہیں جس کا ایک جملہ یہ ہے کہ شیطان میسان اترا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شیطان ملتان میں اترا تھا جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں یہ میسان اصل میں مائستھان تھا نہ کہ حقیقی میسان جوکہ بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے وہاں شیطان اترا تھا جیسا کہ تفسیر درمنثور وغیرہ میں اس میسان کی اچھی طرح وضاحت کردی گئی ہے
دیگرنام درج ذیل ہیں
سامبا۔سنب پورہ۔ کشب پورہ۔پرہلاد پورہ۔مدينة الذہب۔ مول استہان۔مالی تان۔ مالیتان ، مولتان۔ ملتان۔
بت ملتان
ملتان میں ایک مندر میں ایک بت بھی تھا یہاں سے نکلنے والا مال غنیمت جب حجاج بن یوسف کے خزانے میں پہنچا تو شہر کا نام ہی مدینۃالذھب پڑ گیا یعنی سونے کا شہر۔ نوجوان جرنیل محمد بن قاسم نے مندر کو تو نہ چھیڑا، البتہ اس کے ساتھ ایک مسجد ضرور بنوا ڈالی۔
کچھ صدیوں بعد محمود غزنوی بھی یہاں سے گزرا۔ اس افغان زادے نے بامیان کے بت تو شائد طالبان کے لئے چھوڑ دئیے، البتہ یہ مندر خود مسمار کروایا۔
حدود اربعہ
ضلع ملتان کے شمال میں خانیوال، مشرق میں وہاڑی، جنوبی مشرق میں لودھراں جنوب میں دریائے ستلج کے پار بہاولپور اور مغرب میں دریائے چناب کے پار مظفرگڑھ واقع ہے۔
ملتان کی قدیم حدود
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ملتان ایک شہر ہی نہیں ایک تہذیب اور ایک سلطنت کا نام بھی ہے
ابوالفضل نے اپنی مشہور عالم کتاب آئین اکبری میں ملتان کی حدود یہ بیان کی ہیں ، صوبہ ملتان کے ساتھ ٹھٹھہ کے الحاق سے پہلے یہ صوبہ فیروز پور سے سیوستان تک ۶۲۴کروہ تھا چوڑائی میں کھت پور سے جیسلمیر تک۶۲۱ کروہ تھا ٹھٹھہ کے الحاق کے بعد یہ صوبہ کیچ اور مکران تک وسیع ہوگیا ، اس کا یہ فاصلہ 660کروہ تھا ، مشرق میں اسکی سرحدیں سرہند سرکار سے شمال میں پشاور سے جنوب میں اجمیر کے صوبے اور مغرب میں کیچ مکران سے ملتی تھیں ، کیچ اور مکران پہلے صوبہ سندھ میں شامل تھے ملتان کے صوبے میں تین سرکاریں ﴿ملتان خاص دیپال پور اور بھکر﴾ تھیں اور کل اٹھاسی پراگنے ﴿ضلع﴾تھے۔
ملتان کی وسعت اور عظمت پر تاریخ آج بھی رشک کرتی ہے ، ملتان کے قدامت کے ہم پلہ دنیا میں شاید ہی کوئی شہر ہو ، پاکستان میں جن شہروں کو مصنوعی طریقے سے ملتان سے کئی گنا بڑے شہر بنایا گیا ہے، آج سے چند سو سال پہلے یہ ملتان کی مضافاتی بستیاں تھیں اس بات کی شہادت حضرت داتا گنج بخش(رح) نے اپنی کتاب’’کشف المجوب‘‘ میں ’’لاہور یکے از مضافاتِ ملتان‘‘ فرما کر دی ہے ۔
ایک وقت تھا جب یہ سلطنت سمندر تک پھیلی ہوئی تھی اور عروس البلد لاہور اس کا ایک مضافاتی علاقہ ہوتا تھا۔ ساہیوال، پاکپتن، اوکاڑہ، میاں چنوں، خانیوال، لودھراں، مظفرگڑھ اور بھکر تمام اس کے علاقے تھے۔ مگر یہ تاریخی شہر رفتہ رفتہ تقسیم در تقسیم ہوتا گیا۔تاریخی سلطنت (صوبہ ملتان) اور آج تین تحصیلوں تک محدود ہوگیا ہے۔
قلعہ ملتان کتنا قدیم ہے؟
قدیم ترین زندہ شہروں میں ملتان سرے فہرست ہے اس کی قدامت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پانچ ہزار سال پرانا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ یہ اس سے بھی قدیم ہو ، اس بات پر تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ ملتان اور قلعہ ملتان کا وجود تاریخ دیو مالائی دور سے بھی پہلے کا ہے ، قابل افسوس امر یہ ہے کہ حملہ آوروں نے ہمیشہ اس قلعے کو نشانہ بنایا اور اسے فتح کرنے کے بعد خوب لوٹ مار ہوتی رہی مگر اسے بحال کرنے کی صورت پیدا نہ ہو سکی ، 1200قبل مسیح دارانے اسے تباہ کیا ،325 قبل مسیح سکندر اعظم نے اس پر چڑھائی کی پھر عرب افغان سکھ اور انگریز حملہ آوروں قدیم قلعہ ملتان کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ،
یہ قلعہ اپنے اندر موجود دفاعی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ طرز تعمیر میں بھی یگانگت رکھتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق، اس قلعہ کی دیواریں تقریبا 40 سے 70 فٹ (21 میٹر) اونچی اور 6،800 فٹ (2 کلومیٹر) کے علاقے کا گھیراؤ کرتی تھیں۔ اس کی دیواریں برج دار تھیں اور اس کی ہر داخلی دروازے کے پہلو میں حفاظتی مینارے تعمیر کیے گئے تھے۔ اس قلعہ کے چار داخلی دروازے تھے، جن میں قاسمی، سکی، حریری اور خضری دروازے شامل ہیں۔ قلعے کی حفاظت کے لیے اس کے ارد گرد 26 فٹ گہری اور 40 فٹ چوڑی خندق بھی کھودی گئی تھی، جو کہ بیرونی حملہ آوروں کو روکنے میں مددگار ثابت رہتی تھی۔
قلعہ کی بیرونی فصیلوں کی حصار میں اندر کی جانب ایک مورچہ نما چھوٹا قلعہ تعمیر کیا گیا تھا، جس کے پہلو میں 30 حفاظتی مینار، ایک مسجد، ہندؤں کا مندر اور خوانین کے محل تعمیر کیے گئے تھے۔ 1818ء میں رنجیت سنگھ کی افواج کے حملے میں اندرونی چھوٹے قلعے کو شدید نقصان پہنچا۔
اس قلعہ کو کاٹوچگڑھ بھی کہا جاتا تھا، جو کہ کاٹوچوں یعنی راجپوتوں کی شہنشاہی کے دوران تعمیر کیا گیا تھا۔
ملتان کی عظمت وشان
ملتان کی تاریخ بہت پرانی ہے۔بہت سے شہر آباد ہوئے مگر گردش ایام کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ، لیکن شہر ملتان ہزاروں سال پہلے بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے ۔ ملتان کو صفحہ ہستی سے ختم کر نے کی کوشش کرنے والے سینکڑوں حملہ آور خود نیست و نابود ہو گئے آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں مگر ملتان آج بھی اپنے پورے تقدس کے ساتھ زندہ ہے اور مسجود ملائک بنا ہوا ہے ، شیخ الاسلام حضرت بہائو الدین زکریا ملتانی(رح) نے ایسے تو نہیں کہا تھا۔
ملتان ما بجنت اعلیٰ برابراست آہستہ پابنہ کہ ملک سجدہ می کنند
ہمارا ملتان جنت اعلی کے برابر ہے
اس میں قدم آہستہ رکھو فرشتے سجدہ کناں ہیں
ملتان کے اولیاء کرام
1
غوث العالمین، شیخ الاسلام حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی 27 رمضان 566ھ حضرت مولانا وجیہہ الدین محمد قریشی کے ہاں پیدا ہوئے، صغیر سنی میں والد ماجد کا انتقال ہو گیا، یتیمی کی حالت میں تعلیم اور تربیت کے مراحل طئے ہوئے اور عین جوانی میں عازم سفر سلوک بنے، بغداد پہنچ کر حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ سے روحانی فیض حاصل کیا، سہروردی سئیں نے خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپ کو ملتان پہنچ کر دین کے لیے کام کرنے کی تلقین فرمائی، ملتان میں ان دنوں ہندوؤں کا غلبہ تھا اور پرہلاد جی خود تو موحد تھے اور خدا کا انکار کرنے والے اپنے بادشاہ باپ سے جنگ بھی کی مگر پر ہلاد جی کی وفات کے سینکڑوں سال بعد ان کے مندر پر بت پرست غالب آ گئے اور پرہلاد جی کا مندر ہندو مذہب کا مرکز بنا ہوا تھا، ملتان پہنچ کر آپ نے تبلیغ شروع کر دی، پرہلاد مندر کے متولیوں کے غیر انسانی رویوں سے نالاں لوگ جوق در جوق حضرت کی خدمت میں پہنچ کر حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے، آپ نے شروع میں مدرستہ الاسلام قائم کیا اور بعد میں اسے دنیا کی سب سے بڑی پہلی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت دیدی، آپ نے تعلیم کے ساتھ تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا،
آپ کے پیغام سے لاکھوں انسان حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور آپ نے لوگوں کے دلوں میں اس طرح گھر بنا لیا کہ آٹھ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی لاکھوں انسانوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
ملتان کے حوالے سے فارسی کا شعر
چہار چیزاز تحفہ ملتان است گردو گرما گداوگورستان است
گرد کا مطلب ہے کہ یہاں آندھیاں بہت آتی ہیں ۔ گرما کا مطلب ہے کہ گرمی بہت ہوتی ہے ، گدا کا مطلب ہے کہ یہاں اللہ والے بہت لوگ ہیں اور گورستان کا مطلب ہے کہ یہاں قبرستان بہت ہیں۔
اس شعر پر مولانا محمد اسماعیل ریحان صاحب کا ایک مضمون اسلام میں شائع ہوا تھا جس میں انہوں فرمایا تھا ایسے ہی ملتان کو بدنام کیا ہوا ہے کراچی بھی اس سے پیچھے نہیں۔ مفہوم۔ لیکن اب وہ مضمون مجھے مل نہیں سکا ورنہ مزا دوبالا ہوجاتا۔
مشہوراولیاءکرام کے مزارات
اس شہر کو اولیاء کا شہر کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کافی تعداد میں اولیاء اور صوفیاء کے مزارات ہیں۔ مشہور مزارات میں حضرت شاہ شمس تبریز(رح) ، حضرت بہاؤالحق (رح)، حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی(رح) ، حضرت شاہ رکن عالم(رح)، حضرت موسیٰ پاک شہید (رح)، حضرت حافظ محمد جمال (رح) اور بہت سے اولیاء کرام کے مزارات یہاں پر ہیں۔
ملتان کےفوت شدہ بزرگان دین علماء وصلحاء
مولانا خیر محمد صاحب رحمہ اللہ
قاری رحیم بخش صاحب رحمہ اللہ
حضرت عطاء اللہ بخاری رحمہ اللہ
مفتی عبدالستار صاحب رحمہ اللہ
مولانا محمد صدیق صاحب رحمہ اللہ
پیر قمر الدین شاہ صاحب رحمہ اللہ
سید ابوذر بخاری رحمہ اللہ
قاری حنیف ملتانی رحمہ اللہ
قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمہ اللہ وغیرہ
زندہ علماء و صلحاء
پیر ناصرالدین خاکوانی صاحب مدظلہم
سید عطاء المہیمن صاحب مدظلہم
سید عطاء المومن صاحب مدظلہم
مولانا عزیز الرحمان جالندھری مدظلہم
مولانا قاری محمد حنیف صاحب جالندھری مدظلہم
مولانا قاری محمد ادریس صاحب ہوشیارپوری مدظلہم
مولانا محمد عابد مدنی صاحب مدظلہم
مولانا منظور صاحب مدظلہم
مولانا محمد نواز سیال صاحب مدظلہم
مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب مدظلہم وغیرہ
ملتان کے مشہور سیاست دان
سید یوسف رضا گیلانی سابق وزیراعظم
ملک رفیق احمد رجوانہ گورنر پنجاب
سید فخر امام سابق اسپیکر قومی اسمبلی
شاہ محمود قریشی سابق وزیر خارجہ
جاوید ہاشمی سابق وفاقی وزیر
سکندر بوسن وفاقی وزیر
ڈاکٹر محمد عارف خان رہنما جمعیت علمائے اسلام ف وغیرہ
ملتان کے قدیم دروازے
پاک گیٹ حرم دروازہ بوہڑ دروازہ دہلی دروازہ دولت دروازہ لوہاری دروزہ
مشہورمقامات
حسین آگاہی گھنٹہ گھر عزیز ہوٹل ملتان کینٹ ڈیرہ اڈا گلگشت کالونی واپڈا ٹاون کھاد فیکٹری نشتر ہسپتال سول ہسپتال قلعہ کہنہ قاسم باغ بہاوالدین زکریا یونیورسٹی۔ملتان کا بین الاقوامی ہوائی اڈا
پارکس
جناح پارک
شاہ شمس پاک
چناب پارک
جھیل
ملتان کے مذہبی مراکز و مدارس
جامعہ خیر المدارس
جامعہ عمر بن خطاب
جامعہ قاسم العلوم
جامعہ دارالعلوم رحیمیہ
جامعہ قادریہ حنفیہ
جامعہ صدیق اکبر
جامعہ نعمانیہ
جامعہ رحیمیہ فتح العلوم
جامعہ فتح البركات
جامعہ عبداللہ بن عباس للبنات
ابدالی مسجد تبلیغی مرکز
دفتر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت
دفتر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
خانقاہ مولانا محمد عابد صاحب مدظلہم
خانقاہ حضرت ناصرالدین خاکوانی صاحب مدظلہم وغیرہ
موسم
یہاں اپریل سے گرمی شروع ہوتی ہے جوکہ 6 ماہ تک چلی جاتی ہے
گرمیوں میں درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے
شکل و صورت
یہاں کے لوگ گندمی رنگ کے ہوتے ہیں قد لمبا ہوتا ہے
زبان
یہاں اکثر سرائیکی بولی جاتی ہے جوکہ مظفرگڑھ وغیرہ کی طرح اڈے کڈے کی بجائے انتے کنتے بولی جاتی ہے
درخت
ہمارا شہر آموں کا شہر کہلاتا ہے وہی آم جو غالب سے لیکر اثر جونپوری تک کو پسند ہیں
یہاں شیرشاہی ڈوکے بہت پسند کیے جاتے ہیں۔
کارخانے
ہمارے ہاں اونی سوتی کپڑا بنانے کی مشینوں والے اور کھڈیوں والے کارخانے بہت ہیں خاص طور پر کھڈیاں تو گھروں میں عام پائی جاتی ہیں
کھاد کے کارخانے
کپاس بیلنے کے کارخانے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ کپاس ملتان میں ہوتی ہے
گندم پیسے کے کارخانے وغیرہ
قدرتی گیس
ملتان میں منٹ پور کے علاقہ میں قدرتی گیس کے ذخائر بھی ملے ہیں
ذرائع آمدورفت
ملتان میں اب میٹرو بھی پایہ تکمیل کو پہنچنے والی ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور میں ملتان میں فلائی اوورز کا ایک جال بچھا دیا تھا دس سال پہلے کا ملتان دیکھنے والا اب پہچان نہیں سکے گا کہ وہی ملتان ہے یا کچھ اور!اس کے علاوہ بین الاقوامی ہوائی اڈا بھی بن چکا ہے
اہم واقعات
تحریک ریشمی رومال بھی ملتان سے سبوتاژ کی گئی تھی۔
ملتان میں مختلف بم دھماکے بھی ہوئے ہیں جس میں کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے
1 رشید آباد میں سپاہ کے جلسہ میں بم دھماکہ ہوا۔ جس کی ایک خاص بات یہ ہے تونسہ کا ایک نوجوان بھی اس میں شہید ہوا تھا جس کا نکاح ابھی ہونا تھا اس کی والدہ آئی بیٹے کی نعش کے پاس آکر کہا میں نے تو سنا تھا کہ شہید زندہ ہوتا ہے تو زندہ ہے تو آنکھیں کھول۔
تو بتانے والے کہتے ہیں اس شہید نے آنکھیں کھول کر ماں کو دیکھا پھر آنکھیں بند کرلیں اس کی ماں پکار اٹھی ہاں واقعی شہید زندہ ہوتا ہے
ایک بم دھماکہ قاسم بیلہ حساس ادارہ پر ہوا۔
ایک ملتان شہر میں بھی ہوا تھا۔ اسی طرح گذشتہ سال اندرون ملتان 10 محرم پر اہل تشیع اور سنیوں کے مابین کسی معاملہ پر تنازع بھی ہوا تھا جس پر فوج نے آکر کنٹرول سنبھالا تھا۔
ملتان کے آم
انور ریٹول چونسہ دوسہری کا لا چونسہ دیسی فجری لنگڑہ سندھڑی
مشہورسوغات
حافظ کا ملتانی سوہن حلوہ
ریواڑی کی مٹھائی
دلمیر کے پیڑے
حرم گیٹ کی کھیر
لال کرتی کینٹ کا دودھ
لال کرتی کینٹ کی چانپ
خونی برج کی مچھلی
آپ بھی تشریف لائیں ان شاء اللہ سوغات سے تواضع کی جائے گی۔
مآخذ و مراجع
ویکیپیڈیا
فتح نامہ سندھ عرف چچ نامہ
مختصر تاریخ ملتان
معاشرتی علوم 3
مولانا طارق جمیل صاحب مدظلہم
مختلف ٹی وی ویڈیوز
تاریخ پنجاب
مکتبہ شاملہ
تفسیر درمنثور وغیرہ