مہ جبین
محفلین
ملتا ہے لاشعور سے جلوہ شعور کو
منظر میں روشنی پسِ منظر سے آئی تھی
کون آبسا ہے پاس کے گھر میں کہ رات پھر
جھنکار چوڑیوں کی برابر سے آئی تھی
کل رات آسمان پہ کیا قتلِ عام تھا
چیخوں کی گونج چاند کے اندر سے آئی تھی
دریا کے راز لے کے جو کل ہوگئی فرار
وہ آبدوز کس کے سمندر سے آئی تھی
تھی اِک غریبِ شہر کی وہ خاک دوستو
لپٹی ہوئی جو دامنِ صرصر سے آئی تھی
حزیں صدیقی
انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر
والسلام
ِ
منظر میں روشنی پسِ منظر سے آئی تھی
کون آبسا ہے پاس کے گھر میں کہ رات پھر
جھنکار چوڑیوں کی برابر سے آئی تھی
کل رات آسمان پہ کیا قتلِ عام تھا
چیخوں کی گونج چاند کے اندر سے آئی تھی
دریا کے راز لے کے جو کل ہوگئی فرار
وہ آبدوز کس کے سمندر سے آئی تھی
تھی اِک غریبِ شہر کی وہ خاک دوستو
لپٹی ہوئی جو دامنِ صرصر سے آئی تھی
حزیں صدیقی
انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر
والسلام
ِ