الف نظامی
لائبریرین
بحرِ حیات کا انمول گوہر ، ملتِ اسلامیہ
بحرِ حیات میں ہزاروں سفینے رواں ہوئے ، ڈوب گئے موجیں دب گئیں
افقِ عالم پہ ہزاروں نقش ابھرے ، مٹ گئے چراغ بھڑکے ، بجھ گئے
تاریخِ عالم میں ہزاروں باب کھلے ، بند ہوگئے، عنوان ابھرے ، محو ہوگئے
عالمِ آب و گل میں ہزاروں گروہ نمودار ہوئے ،گم ہوگئے ، نگر بسے ،اجڑ گئے
مگر
ایک پھول کی نگہت سدا برقرار رہی
ایک چراغ کی لو کبھی ختم نہ ہوئی
ایک عنوان کی اہمیت کبھی کم نہ ہوئی
ایک گوہر کی تاب کبھی معدوم نہ ہوئی
اور
بوستانِ دہر کا وہ گلِ سرسبد، افقِ عالم کا وہ تابندہ ستارہ، تاریخِ عالم کا وہ روشن عنوان اور بحرِ حیات کا وہ انمول گوہر ملتِ اسلامیہ ہے جسے قرآنِ کریم نے"خیر امتہ" کے شرف سے مشرف فرمایا اور "انتم الاعلون" کا مژدہ جانفزا سنایا۔
اے مری جان! تو اس ملت کا فرزند ہے جسے اللہ نے اپنے آخری پیغام کا امین ٹھہرایا اور جسے اقوامِ عالم کی امامت کا تاج پہنایا۔جب تک تو نے اپنے منصب کا اکرام کیا اور اپنی نسبت کی ناموس کا احترام کیا، اللہ نے تجھے بڑوں پر غلبہ عطا کیا ، تجھےاپنی نصرت و تائید سے ہمکنار کیا۔جب تک اللہ کا رہا ، اللہ کے لیے جیا اور اللہ کے لیے مرا۔ ہر کہیں تیرا احترام رہا ، اکرام رہا۔جب سے تو جہاں کا بنا،تیرا کوئی بھی نہ بنا اور کچھ بھی نہ بنا۔
تاریخِ عالم کی وہ داستان جس کا عنوان "مسلمان" ہے حیرت انگیز بھی ہے ، عبرت خیز بھی۔
کبھی وہ عالم کہ اس کا نام سنتےہی بحر وبر لرزتے اور کبھی ایسی بے بسی کہ الامان الامان۔ تیرے جوش کا یوں سرد پڑ جانا ، تیری بلندی کا پست میں بدل جانا ، تیری قوت کا ضعف میں ڈھل جانا ، تیرے کمال کا روبہ زوال ہوجانا کوئی معمولی حادثہ نہیں ، تاریخِ عالم کا بہت بڑا انقلاب ہے۔ تیرا یہ زوال انفرادی سطح پر بھی ہوا ، قومی سطح پربھی ، علم میں بھی ہوا ، عمل میں بھی۔ وہ بھی کیا دن تھے کہ تو لعلوں سے مہنگا بِکتا ، جب کبھی نعرہ زن ہوتا بحر وبر کانپ اٹھتے، فلک تیور بدلتا ، کروبیاں انگشت بدانداں ہوتے۔ اگر کوئی تیری غیرت کو للکارتا ، دم بھر کی مہلت نہ دیتا۔کسی قوت کو خاطر میں نہ لاتا ، نہ ہی کسی امداد کی مطلق پرواہ کرتا ، پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ، چٹانوں کو ہلا دیتا ، کسی کثرت سے خوف نہ کھاتا۔جس میدان میں اڑ جاتا ، بازی لے جاتا۔ تیرے تیوروں کی تاب لانا کسی کے لیے ممکن نہ تھا۔ تیری سطوت وہیبت سے بحر وبر لرزتے۔ تیری گونج سے شیروں کے پتے پانی ہو جاتے۔ اگر کسی میدان میں موت سے سامنہ ہوتا ، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتا۔ تیری جبیں کی سلوٹ کسی نئے انقلاب کا عنوان بن جاتی۔
جس جاہ و حشمت کی خاطر دنیا مارے مارے پھرتی ہے تیری لونڈی بن کر تیرے حضور،دست بستہ باریابی کی منتظر رہتی۔تیرے نام کی گونج سے دنیا کا کونا کونا گونجا۔پہاڑ گونجے، صحرا گونجے، مست گونجے، رند گونجے، مدہوش گونجے، ہر کوئی گونجا مگر آج یہ گونج قصہ پارینہ بننے لگی۔تیری تاریخ کے تابناک قصے افسانے بننے لگے،تیری سطوت وہیبت کی داستان قصہ ماضی بننے لگے۔وقت کی گردش نے تیرے کردار کو دھندلا دیا۔آج تیرے کسی میدان میں کوئی علم نہیں لہرا رہا۔نہ دین کے میدان میں نہ دنیا کے۔ نہ علم کے نہ عمل کے، نہ عبادات کے نہ معاملات کے۔
اگر تیرے یہ مشاغل اور محافل جن میں گم ہوکر تو اپنی آب کھو بیٹھا ہے تجھے کچھ فرصت دیں تو اپنا محاسبہ کر۔زندگی تیز رفتاری سے گذر رہی ہے، دیارِ ہستی کی شام ہونے والی ہے ، سانس کا رشتہ ٹوٹنے کو ہے ،شیرازہ بکھرنے کو ہے ، دیا بجھنے کو ہے ، وقت کی قدر کر ۔مہلت کو غنیمت جان۔زندگی یوں گذار کہ تجھے یہاں سے جانے کا افسوس نہ ہو۔
اے ملت کے پاسبان! گزرے ہوئے دور کی داستانوں سے دل نہ بہلا۔
ملت کی داستان کا آغاز جو کسی گزری ہوئی داستان سے کم نہ ہو۔ہرداستان کی ابتدا جدوجہد سے ہوتی ہے۔جدوجہد جب جوبن پر آتی ہے داستان بن جاتی ہے۔جدوجہد کے میدان میں اتر، تاریخِ عالم تیری داستان سننے کی منتظر ہے۔وقت تیری ضرورت کو پھر تسلیم کر رہا ہے۔ اگر تو نے تاریخِ عالم کے صفحات پر نئے عنوان تحریر کرنے ہیں تو وقت کی آواز سن۔اتحاد و اخوت کا علمبردار بن۔ جو دھونی بجھ گئی ہے اسے پھر سے رما،جو آگ سرد پڑچکی ہے اسے پھر سے دہکا، جو شعلہ بجھ چکا ہے اسے پھر سے بھڑکا۔شبشتانِ عشرت سے باہر آ۔ یہ دور بات کا نہیں،صفات کا منتظر ہے۔ زندگی میں کوئی عملی نمونہ پیش کر۔تیرے پاس نمونوں کے انبار لگے پڑے ہیں۔ صدیق کی صداقت ، عمر کی عدالت ، عثمان کی سخاوت ، علی کی شجاعت،حسین کی شہادت ، اویس کی خاموش محبت ، جنید کا مراقبہ توحیدِ افعالی ، بوعلی قلند کا جذب اور مخدوم صابر صاحب کا جلال تیرا قابل فخر سرمایہ ہے۔ روشنی کے ان میناروں سے اپنی راہ منور کر۔ یہ نشانِ منزل بھی ہے جادہ بھی۔ اپنے اسلاف کے نام کی لاج رکھ۔
تیرا چلنا پھرنا عام انسانوں کا سا ہو۔ لیکن سوچ نافعِ الخلائق۔ ملت کی اقبال مندی کیلیے متحد ہو۔ذات کو ملت پر قربان کر۔زندگی،جہاد ہے۔ جہاد میں لڑنا مجاہد کا کام، فتح و نصرت اللہ کے ہاتھ۔اللہ کی رحمت سے محروم نہ ہو۔ اللہ بھی موجود ہے رحمت بھی موجود ہے۔ دنیا بھر کی باطل قوتیں مل کر بھی حق کو مٹا نہیں سکتیں۔ اس چراغ کو بجھا نہیں سکتیں۔ اس سفینے کو ڈبو نہیں سکتیں۔ یہ ہچکولے تیری بیداری کیلیے ہیں۔
ماں نے جب بھی بچے کو پیٹا، دلجوئی ضرور کی اور ہمارا رب تو ماں سے سو گنا زیادہ مہربان ہے۔
اے ہمارے رب! پٹائی تو ہماری ہوچکی، اب دلجوئی باقی ہے۔ تو اپنے حبیبِ اقدس کی ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے والی نبوت و رسالت کے صدقے،ہمیں ہماری کھوئی ہوئی عزت و عظمت، شان وشوکت، سطوت و ہیبت، اور غیرت و تمکنت پھر سے عطا فرما (یا حیی یا قیوم یا ذوالجلال والاکرام) آمین
تقویم دارلاحسان سے ماخوذ ، ابو انیس محمد برکت علی لدھیانوی قدس سرہ العزیز کی تحریر
بحرِ حیات کا انمول گوہر ، ملتِ اسلامیہ
گلستانِ دہر میں ہزاروں گل کھلے ، مرجھا گئے ، غنچے مسکرائے ، کمھلا گئے بحرِ حیات میں ہزاروں سفینے رواں ہوئے ، ڈوب گئے موجیں دب گئیں
افقِ عالم پہ ہزاروں نقش ابھرے ، مٹ گئے چراغ بھڑکے ، بجھ گئے
تاریخِ عالم میں ہزاروں باب کھلے ، بند ہوگئے، عنوان ابھرے ، محو ہوگئے
عالمِ آب و گل میں ہزاروں گروہ نمودار ہوئے ،گم ہوگئے ، نگر بسے ،اجڑ گئے
مگر
ایک پھول کی نگہت سدا برقرار رہی
ایک چراغ کی لو کبھی ختم نہ ہوئی
ایک عنوان کی اہمیت کبھی کم نہ ہوئی
ایک گوہر کی تاب کبھی معدوم نہ ہوئی
اور
بوستانِ دہر کا وہ گلِ سرسبد، افقِ عالم کا وہ تابندہ ستارہ، تاریخِ عالم کا وہ روشن عنوان اور بحرِ حیات کا وہ انمول گوہر ملتِ اسلامیہ ہے جسے قرآنِ کریم نے"خیر امتہ" کے شرف سے مشرف فرمایا اور "انتم الاعلون" کا مژدہ جانفزا سنایا۔
اے مری جان! تو اس ملت کا فرزند ہے جسے اللہ نے اپنے آخری پیغام کا امین ٹھہرایا اور جسے اقوامِ عالم کی امامت کا تاج پہنایا۔جب تک تو نے اپنے منصب کا اکرام کیا اور اپنی نسبت کی ناموس کا احترام کیا، اللہ نے تجھے بڑوں پر غلبہ عطا کیا ، تجھےاپنی نصرت و تائید سے ہمکنار کیا۔جب تک اللہ کا رہا ، اللہ کے لیے جیا اور اللہ کے لیے مرا۔ ہر کہیں تیرا احترام رہا ، اکرام رہا۔جب سے تو جہاں کا بنا،تیرا کوئی بھی نہ بنا اور کچھ بھی نہ بنا۔
تاریخِ عالم کی وہ داستان جس کا عنوان "مسلمان" ہے حیرت انگیز بھی ہے ، عبرت خیز بھی۔
کبھی وہ عالم کہ اس کا نام سنتےہی بحر وبر لرزتے اور کبھی ایسی بے بسی کہ الامان الامان۔ تیرے جوش کا یوں سرد پڑ جانا ، تیری بلندی کا پست میں بدل جانا ، تیری قوت کا ضعف میں ڈھل جانا ، تیرے کمال کا روبہ زوال ہوجانا کوئی معمولی حادثہ نہیں ، تاریخِ عالم کا بہت بڑا انقلاب ہے۔ تیرا یہ زوال انفرادی سطح پر بھی ہوا ، قومی سطح پربھی ، علم میں بھی ہوا ، عمل میں بھی۔ وہ بھی کیا دن تھے کہ تو لعلوں سے مہنگا بِکتا ، جب کبھی نعرہ زن ہوتا بحر وبر کانپ اٹھتے، فلک تیور بدلتا ، کروبیاں انگشت بدانداں ہوتے۔ اگر کوئی تیری غیرت کو للکارتا ، دم بھر کی مہلت نہ دیتا۔کسی قوت کو خاطر میں نہ لاتا ، نہ ہی کسی امداد کی مطلق پرواہ کرتا ، پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ، چٹانوں کو ہلا دیتا ، کسی کثرت سے خوف نہ کھاتا۔جس میدان میں اڑ جاتا ، بازی لے جاتا۔ تیرے تیوروں کی تاب لانا کسی کے لیے ممکن نہ تھا۔ تیری سطوت وہیبت سے بحر وبر لرزتے۔ تیری گونج سے شیروں کے پتے پانی ہو جاتے۔ اگر کسی میدان میں موت سے سامنہ ہوتا ، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتا۔ تیری جبیں کی سلوٹ کسی نئے انقلاب کا عنوان بن جاتی۔
جس جاہ و حشمت کی خاطر دنیا مارے مارے پھرتی ہے تیری لونڈی بن کر تیرے حضور،دست بستہ باریابی کی منتظر رہتی۔تیرے نام کی گونج سے دنیا کا کونا کونا گونجا۔پہاڑ گونجے، صحرا گونجے، مست گونجے، رند گونجے، مدہوش گونجے، ہر کوئی گونجا مگر آج یہ گونج قصہ پارینہ بننے لگی۔تیری تاریخ کے تابناک قصے افسانے بننے لگے،تیری سطوت وہیبت کی داستان قصہ ماضی بننے لگے۔وقت کی گردش نے تیرے کردار کو دھندلا دیا۔آج تیرے کسی میدان میں کوئی علم نہیں لہرا رہا۔نہ دین کے میدان میں نہ دنیا کے۔ نہ علم کے نہ عمل کے، نہ عبادات کے نہ معاملات کے۔
اگر تیرے یہ مشاغل اور محافل جن میں گم ہوکر تو اپنی آب کھو بیٹھا ہے تجھے کچھ فرصت دیں تو اپنا محاسبہ کر۔زندگی تیز رفتاری سے گذر رہی ہے، دیارِ ہستی کی شام ہونے والی ہے ، سانس کا رشتہ ٹوٹنے کو ہے ،شیرازہ بکھرنے کو ہے ، دیا بجھنے کو ہے ، وقت کی قدر کر ۔مہلت کو غنیمت جان۔زندگی یوں گذار کہ تجھے یہاں سے جانے کا افسوس نہ ہو۔
اے ملت کے پاسبان! گزرے ہوئے دور کی داستانوں سے دل نہ بہلا۔
ملت کی داستان کا آغاز جو کسی گزری ہوئی داستان سے کم نہ ہو۔ہرداستان کی ابتدا جدوجہد سے ہوتی ہے۔جدوجہد جب جوبن پر آتی ہے داستان بن جاتی ہے۔جدوجہد کے میدان میں اتر، تاریخِ عالم تیری داستان سننے کی منتظر ہے۔وقت تیری ضرورت کو پھر تسلیم کر رہا ہے۔ اگر تو نے تاریخِ عالم کے صفحات پر نئے عنوان تحریر کرنے ہیں تو وقت کی آواز سن۔اتحاد و اخوت کا علمبردار بن۔ جو دھونی بجھ گئی ہے اسے پھر سے رما،جو آگ سرد پڑچکی ہے اسے پھر سے دہکا، جو شعلہ بجھ چکا ہے اسے پھر سے بھڑکا۔شبشتانِ عشرت سے باہر آ۔ یہ دور بات کا نہیں،صفات کا منتظر ہے۔ زندگی میں کوئی عملی نمونہ پیش کر۔تیرے پاس نمونوں کے انبار لگے پڑے ہیں۔ صدیق کی صداقت ، عمر کی عدالت ، عثمان کی سخاوت ، علی کی شجاعت،حسین کی شہادت ، اویس کی خاموش محبت ، جنید کا مراقبہ توحیدِ افعالی ، بوعلی قلند کا جذب اور مخدوم صابر صاحب کا جلال تیرا قابل فخر سرمایہ ہے۔ روشنی کے ان میناروں سے اپنی راہ منور کر۔ یہ نشانِ منزل بھی ہے جادہ بھی۔ اپنے اسلاف کے نام کی لاج رکھ۔
تیرا چلنا پھرنا عام انسانوں کا سا ہو۔ لیکن سوچ نافعِ الخلائق۔ ملت کی اقبال مندی کیلیے متحد ہو۔ذات کو ملت پر قربان کر۔زندگی،جہاد ہے۔ جہاد میں لڑنا مجاہد کا کام، فتح و نصرت اللہ کے ہاتھ۔اللہ کی رحمت سے محروم نہ ہو۔ اللہ بھی موجود ہے رحمت بھی موجود ہے۔ دنیا بھر کی باطل قوتیں مل کر بھی حق کو مٹا نہیں سکتیں۔ اس چراغ کو بجھا نہیں سکتیں۔ اس سفینے کو ڈبو نہیں سکتیں۔ یہ ہچکولے تیری بیداری کیلیے ہیں۔
ماں نے جب بھی بچے کو پیٹا، دلجوئی ضرور کی اور ہمارا رب تو ماں سے سو گنا زیادہ مہربان ہے۔
اے ہمارے رب! پٹائی تو ہماری ہوچکی، اب دلجوئی باقی ہے۔ تو اپنے حبیبِ اقدس کی ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے والی نبوت و رسالت کے صدقے،ہمیں ہماری کھوئی ہوئی عزت و عظمت، شان وشوکت، سطوت و ہیبت، اور غیرت و تمکنت پھر سے عطا فرما (یا حیی یا قیوم یا ذوالجلال والاکرام) آمین
تقویم دارلاحسان سے ماخوذ ، ابو انیس محمد برکت علی لدھیانوی قدس سرہ العزیز کی تحریر