محسن نقوی ملکہء عصمت سلام اللہ علیہا - محسن نقوی شہید

کاشفی

محفلین
ملکہء عصمت سلام اللہ علیہا
(محسن نقوی شہید)
جہانِ انسانیّت میں توحید کا مقدس خیال زہرا
شرف میں وحدت ادا، امامت جبیں، نبوّت جمالِ زہرا
ہو جس پہ نازاں دلِ مصور، وہ نقشِ حُسنِ کمال زہرا
خدائے بےمثل کی خدائی میں تاابَد بے مثال زہرا
یہ شمعِ عرفانِ ایزدی ہے، یہ مرکزِ آلِ مصطفیٰ ہے
حسن سے مہدی تلک امامت کے سلسلے کی یہ ابتدا ہے
یہ "ف" سے فہمِ بشر کا حاصل، "الف " سے الحمد کی کِرن ہے
یہ "ط" سے "طہٰ" کے گھر کی رونق، یہ "م" سے منزلِ محن ہے
یہ "ہ" سے ہردوسرا کے سلطاں کے دیں کی پُرنور انجمن ہے
یہ "ز" سے زینتِ زمیں کی ، "ہ" سے ہدایتوں کا ہرا چمن ہے
یہ "ر" سے رہبر رہِ وفا کی، "الف" سے اوّل نسب ہے اس کا
اسی لیئے نام فاطمہ ہے، جناب زہرا لقب ہے اس کا
یہ مُصحفِ آلِ مصطفیٰ میں مثالِ "یٰسین" محترم ہے
نہ پوچھ اس کی بلندیوں کو آسماں بھی تہہِ قدم ہے
اسی کے جلوؤں سے ہے یہ دنیا اسی کی غیبت رُخ عدم ہے
اسی کی چوکھٹ پہ سجدہ کرنے سے آسماں کی کمر میں خم ہے
کیا ہے دونوں جہاں میں حق نے کچھ اس طرح انتخاب اس کا
کہ مرتضیٰ کے سوا جہاں میں نہیں ہے کوئی جواب اس کا
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)
 

کاشفی

محفلین
اسی کے نقشِ قدم کی برکت نے ماہ و انجم کو نور بخشا
اسی کے دَر کے گداگروں نے ہی آدمی کو شعور بخشا!
اسی کی خاطرتو حق نے صحرا کو جلوہء کوہ ِ طور بخشا
جو اس کا غم لے کے مرگیا ہے، خدا نے اس کو ضرور بخشا
یہ روحِ عقل و شعور ہے، دلِ فروع و اُصول بھی ہے
زمیں پہ ہو تو علی کی زوجہ، فلک پہ ہو تو بتول بھی ہے
عجیب منظر ہے، صحنِ مسجد میں سب کو اُلجھن پڑی ہوئی ہے
یہ وہ گھڑی ہے کہ سانس حلقومِ زندگی میں اَڑی ہوئی ہے
تمام اصحاب دم بخود ہیں، نظر زمیں میں گڑی ہوئی ہے
ہوئی ہیں مسند نشین زہرا مگر نبوت کھڑی ہوئی ہے
عمل سے ثابت کیا پیمبر نے جو تھا پیغام کبریا کا
بشر تو کیا انبیاء پہ بھی احترام لازم ہے فاطمہ کا
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)
 

کاشفی

محفلین
یہ وہ کلی ہے کہ جس کی خوشبو کو سجدہ کرتی ہیں خود بہاریں
یہ وہ ستارہ ہے جس سے روشن ہیں آسمانوں کی رہگزاریں
یہ وہ سحر ہے کہ جس کی کرنیں بھی ہیں امامت کی آبشاریں
یہ وہ گُہر ہے کہ جس کا صدقہ فلک سے آکر مَلک اُتاریں
یہ وہ ندی ہے جو آدمیّت کی مملکت میں رواں ہوئی ہے
یہ وہ شجر ہے کہ جس کی چھاؤں میں خود شرافت جواں ہوئی ہے
حیا کی دیوی، وفا کی آیت، حجاب کی سلسبیل زہرا
کہیں ہے معصومیت کا ساحل، کہیں شرافت کی جھیل زہرا
جہانِ موجود میں بنی ہے، وجودِ حق کی دلیل زہرا
زمانے بھر کی عدالتوں میں نِساء کی پہلی وکیل زہرا
حضور ِ زہرا، بشر سے ہٹ کے پیمبروں کے سلام بھی ہیں
کہ اس کے سائے میں پلنے والے حسین جیسے امام بھی ہیں
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)
 

کاشفی

محفلین
"کِساء"میں آئی تو پنجتن کے شرف کی پہچان بن گئی ہے
"نساء"میں بیٹھی تو تربیت گاہ دین و ایمان بن گئی ہے
سمٹ کے دیکھا تو"ب"کے نقطے کی زیر کی شان بن گئی ہے
بِکھر کے سوچا تو فاطمہ خود تمام قرآن بن گئی ہے

جہاں میں رمزِ شعورِ وحدت کی عارفہ ہے، اَمیں ہے زہرا
"مباہلہ"کی صفوں میں دیکھو تو دیں کی فتحِ مبیں ہے زہرا


نبی کے دیں! تیری کشتِ ویراں پہ مثلِ ابرِ رواں ہے زہرا
علی کے گھر سے خدا کے گھر تک شعور کی کہکشاں ہے زہرا
(جاری ہے۔۔۔۔)
 

کاشفی

محفلین
اسی کے بچے ہنر سکھاتے ہیں دَہر کو کیمیا گری کا
اسی نے اپنے گداگروں کو مزاج بخشا ہے افسری کا
اسی کے گھر مخزنِ ہدایت، یہی ہے محور پیمبری کا
اسی کے نقشِ قدم کی مٹی سے راز ملتا ہے بُوذری کا

اسی کی خوشبو کا نام جنت ہے گنگاتی ہوا سے پوچھو
جنابِ زہرا کے مرتبے کو نصیریوں کے خدا سے پوچھو

یہ ایسی مشعل ہے جس کی کرنوں سے آگہی کے اُصول چمکے
اسی کے د م سے زمانے بھر کی جبیں پہ نامِ رسول چمکے
(جاری ہے۔۔۔ ۔)
 

کاشفی

محفلین
بہشت کیا ہے؟ تری مودت کے بحرِ زریں کی بیکرانی
یہ عرش کیا ہے؟ زمیں پہ آنے سے پیشتر تری راجدھانی
شعور کیا ہے؟ ترا تعارف، یہ دین کیا ہے؟ تری کہانی
عذاب کیا ہے؟ غضب ہے تیرا، ثواب کیا ہے؟ تری مہربانی

یہ کہکشاں رہگزر ہے تری، یہ آسماں سائباں ہے تیرا
فلک پہ تاروں کی بھیڑ کیا ہے؟ رواں دواں کارواں ہے تیرا

تو ایسا نقطہ ہے جس کے دامن میں حق کی مرضی سمٹ رہی ہے
تری مشیت ہر ایک لحظہ نقابِ ہستی اُلٹ رہی ہے
ہے جس قیامت کا نام بخشش، تری ردا سے لپٹ رہی ہے
یہ سانس لیتی ہے ساری دنیا کہ تیری خیرات بٹ رہی ہے

تری عطا کے سبھی سلیقے مرے دلِ حشر خیز میں ہیں
سبھی ہواؤں پہ راج تیرا، سبھی سمندر جہیز میں ہیں

لکھا ہے میں نے جو قصیدہ ،نہیں ہے کوئی کمال میرا
یہ سب کرم ہے تری نظر کا، قلم تھا ورنہ نڈھال میرا

تم شد)
 

کاشفی

محفلین
کیا ہے دونوں جہاں میں حق نے کچھ اس طرح انتخاب اس کا
کہ مرتضیٰ کے سوا جہاں میں نہیں ہے کوئی جواب اس کا
 
Top