چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
افسانوی شہرت کی حامل مصری ملکہ قلو پطرہ اور مارک انٹونی تاریخ میں اپنی محبت کے حوالے مشہور ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک معما بنا رہا ہے کہ دونوں کا مدفن کہاں ہے؟ مگر اب یہ معما تقریبا حل ہونے کے قریب ہے اور مصری اعلی حکام نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملکہ قلو پطرہ کی قبر کے قریب پہنچ گئے ہیں جو کہ بحیرہ روم کے کنارے ایک پہاڑی پر زیر زمین سرنگوں میں واقع ہے۔ مصری اورڈومینیکن ریپبلکن ماہرین کی ٹیم کی اس دریافت کو اتنی اہمیت دی جا رہی ہے کہ مصری صدر نے بھی اس ٹیم کو مبارکباد کا پیغام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ یہ اس صدی کی سب سے بڑی دریافت ہو گی۔ مصر کی محکمہ آثار قدیمہ کے انچارج ظاہی حواس کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کو اس قسم کے شواہد ملے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹونی اور قلو پطرہ اسی زیر زمین سرنگوں میں ایک ساتھ ہی دفن ہیں، سرنگوں کی کھدائی کے کام میں ایک خاتون بھی شریک ہے، اس کا تعلق ڈومینیکن ریپبلک سے ہے، آرٹ مریٹنز نامی اس خاتون کا کہنا ہے کہ قلو پطرہ کا امیج کچھ اچھا نہیں ہے اس لئے وہ اکیسویں صدی میں قلو پطرہ کی وکیل ہیں اور ان کا امیج بہتر بنانے کے لئے کام کریں گی۔
مصری اور غیرملکی ماہرین نے جس جگہ کھدائی کا کام شروع کیا ہے یہ مصری شہر اسکندریہ سے سترہ کلو میٹر دور، سمندر کے کنارے ایک پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں سے قریب ہی لبنان کی سرحد ہے، اس پہاڑی سے سمندر صاف نظر آتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے یہاں پر ایک قدیم گم شدہ مندر تبو سیریز، موجود ہے، یہ مندر پہاڑی کے اندر درجنوں سرنگیں کھود کر تعمیر کیا گیا ہے، پیچیدہ قسم کی ان سرنگوں کا نظام ایک دوسرے سے باہم مربوط ہے، اس جگہ تک پہنچنے کے لئے ماہرین کو کئی سال محنت کرنا پڑی، اس سلسلے میں نا صر ف قدیم رومن عبارتوں کو سمجھنے کی کوشش کی گئی بلکہ مختلف جگہوں سے ملنے والے نقش و نگار کو بھی اسٹڈی کیا گیا، اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ قلو پطرہ کے مدفن کی تلاش ابو سیر نامی علاقے میں کی جائے جہاں کبھی بڑی بندرگاہ ہوا کرتی تھی، یہ بندرگاہ ملکہ قلو پطرہ کے زمانے میں تھی اب یہاں بندرگاہ تو موجود نہیں ہے مگر یہاں سے سترہ کلو میٹر دور اسکندریہ کا شہر اور بندرگاہ موجود ہے، ماہرین کو یقین ہے کہ صدیوں قبل قلو پطرہ کے زمانے میں یہ بندرگاہ ابو سیر نامی اس پہاڑی علاقے میں تھی۔
ملکہ قلو پطرہ کے بارے میں اب تک دستیاب معلومات کے مطابق قلو پطرہ اور انٹونی نے ایک ساتھ خود کشی کر لی تھی اور اس کے بعد دونوں کے بارے میں تاریخ خاموش ہے، قلو پطرہ کی خوبصورتی، اس کی موت کا راز،مدفن اور دیگر کئی سوالات آج تک حل طلب ہیں، مصری صدر حسنی مبارک کا کہنا ہے کہ اس عظیم دریافت کے ساتھ ہی ان تمام سوالوں کا جواب مل جائے گا جو صدیوں سے جواب طلب ہیں۔ مصری اخبار الاہرام نے اپنی خصوصی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ماہرین نے دستیاب شواہد اور دستاویزات و تصاویر کے مطالعہ کے بعد یہ اندازہ لگایا ہے کہ جب قلو پطرہ اوراس کے شوہر انٹونی نے ایک ساتھ خود کشی کی تھی تو بچاری ان دونوں کی لاشوں کو تبوسیریز مندر میں لے آئے جہاں کافی گہرائی میں دونوں کو دفن کر دیا گیا۔ ابو سیر کی پہاڑی پر کھدائی کرنے سے قبل ماہرین نے جدید آلات سے تمام علاقے جا ئزہ لیا، اس کے بعد ہی یہ اعلان کیا گیا کہ وہ ملکہ قلو پطرہ کی قبر ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ابو سیر کی پہاڑی نرم پتھروں پر مشتمل ہے، اس علاقے کی کھدائی شروع کرنے سے قبل خصوصی ریڈار سے زیر زمین چالیس میٹر تک کی گہرائی کا جائزہ لیا گیا، خصوصی طورپر تیار کردہ ریڈار زیر زمین جائزہ لینے کی صلاحیت کا حامل ہے، اس طرح ریڈار نے یہ بات واضح کر دی کہ پوری پہاڑی زیر زمین سرنگوں کے ایک پیچیدہ نظام پر مشتمل ہے، ان سرنگوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ تقریبا بیس میٹر کی گہرائی میں دو ایسے کمرے بنے نظر آئے جہاں دو ممیاں رکھی ہوئی ہیں، ماہرین کو یقین ہے کہ یہی ممیاں ملکہ قلو پطرہ اور اس کا شوہر انٹونی ہے، گو کہ اب تک ان کمروں تک رسائی نہیں ہو سکی ہے مگر ماہرین احتیاط کے ساتھ کھدائی کا کام کر رہے ہیں۔
مصری اور غیر ملکی ماہرین نے جب اس علاقے میں ملکہ قلو پطرہ کی تلاش کا کام شروع کیا تھا، انہیں یہ امید نہیں تھی کہ وہ اس پہاڑی کی تہہ میں دفن ملے گی، البتہ انہیں قدیم تصاویر اور مبہم تحریروں سے اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ جگہ سمندر کے کنارے ہے، کسی مندر میں ہے اور کوئی ایسی خفیہ جگہ ہے جہاں کسی کی رسائی بظاہر غیر امکانی ہے اسی لئے سمندر کے کنارے پوری پٹی کا اس خصوصی ریڈار کے ذریعے سروے کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو اسی مقصد کے لئے بنایا گیا تھا، اسی ریڈار کے ذریعے ماہرین پہلے ایک قدیم قبرستان تک پہنچے جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں ملکہ قلوپطرہ کے قریبی عزیز دفن ہیں، اسی قبرستان سے کچھ ایسی تصاویر اور مجسمے ملے جن سے یہ اشارہ ملتا تھا کہ قلو پطرہ بھی کہیں قریب ہی موجود ہے، اس قبرستان سے ملنے والی بعض اشیا پر قلو پطرہ کی تصاویر کھدی ہوئی تھیں، بعض پر کسی واقعے کی منظرکشی کی گئی تھی، ماہرین کا خیال تھا کہ ان تصاویر میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ قلو پطرہ نے خود کشی کی اور پھر اسے اس کے محبوب شوہر کے ساتھ ہی دفنا دیا گیا، اس طرح کے اشاروں پر چلتے ہوئے ماہرین آثار قدیمہ ابو سیر کی پہاڑی تک پہنچے جہاں خصوصی ریڈار نے ان سرنگوں کا پتہ بتا دیا جہاں سطح زمین سے بیس میٹر نیچے دو کمروں میں ممکنہ طور پر ملکہ قلو پطرہ اور اس کا شوہر مدفون ہیں۔ مصری محکمہ آثار قدیمہ کے سربراہ ڈاکٹر زاھی حواس کا اس بارے میں کہنا ہے کہ در اصل قلو پطرہ اور اس کا شوہر مرنے کے بعد کسی ایسی جگہ پر مدفون ہونا چاہتے تھے جہاں کوئی بھی ان تک رسائی حاصل نہ کر سکے، اس بارے میںکچھ علم نہیں کہ وہ ایسا کیوں چاہتے تھے، یا تو انہیں کسی سے کوئی خطرہ تھا یا پھر وہ احساس برتری کا شکار تھے اس لئے وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ مرنے کے بعد بھی ان لاشوں یا ممیوں تک کسی بھی فرد کی رسائی ہو۔ پروہتوں یا بچاریوں کی خدمات بھی اس لئے حاصل کی گئی تھیں کہ وہ اپنے جادو یا منتروں کی مدد سے ان کی مدفن کو اس قدر محفوظ بنا دیں کہ کسی کی بھی اس پر نظر نہ پڑے۔ اس وقت کے عقیدے کے مطابق مندروں کے پروہت کسی بھی بادشاہ یا ملکہ کی لاش کو ممی بنانے کے بعد تابوت میں بند کر کے اس پر مذہبی منتر پڑھ کر محفوظ کر دیا کرتے تھے، آثار قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ ملکہ قلو پطرہ اوراس کے شوہر کی لاش کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا تھا، کیوں کہ ملکہ قلو پطرہ سب کی نظروں سے اوجھل رہنا چاہتی تھی، اس وقت کے گرینڈ مندر’’ تبو سیریز‘‘ کے پروہتوں کی خدمات اس کام کے لئے حاصل کی گئی تھیں اور انہوں نے ملکہ کی خود کشی کے بعد ملکہ اور اس کے شوہر کی لاشوں کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا، اس کے بعد ان کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے انہیں زیر زمین مندر کی تہہ میں بنے کمروں میں منتقل کرنے کے بعد ان کمروں کو منتروں کے ذریعے محفوظ بنا دیا گیا، گو کہ ماہرین آثار قدیمہ اور مصر کے مسلمان اب ان باتوں یا منتروں کی طاقت پر یقین نہیں رکھتے مگر وہ اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ فراعین مصر جادو کی طاقت کا سہارا لیا کرتے تھے اور کسی حد تک یہ طاقت ان کی مدد بھی کیا کرتی تھی اس کا ثبوت قرآن پاک میں موجود وہ واقعات بھی ہیں جن میں فراعین مصر اور ان کے جادو کا ذکر کیا گیا ہے۔ملکہ قلو پطرہ کے مقبرے کی کھدائی کے دوران اب تک تو کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جسے اس جادو یا منتروں کا کارنامہ قرار دیا جائے جو اس مندر اور اس میں موجود لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ممکنہ طور پر پڑھے گئے تھے مگر اس سے قبل ممیوں کی تلاش میں کی کئی کھدائیوں کے دوران ایسے کئی حادثات پیش آئے ہیں جنہیں کچھ لوگ جادو یا قدیم منتروں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ معروف رومن مصنف پلوٹراچ کی تحریر کی بنیاد پر ماہرین آثا قدیمہ اور تاریخ دانوں کو یقین ہے کہ ملکہ قلو پطرہ اور اس کا شوہر انٹونی ایک ساتھ ہی ایک جگہ پر دفن کئے گئے تھے، لہذا، اب مصری اور ڈومینیکن ریپبلکن ماہرین کی ٹیم احتیاط کے ساتھ زمین میں بیس میٹر گہرائی میں ان کمروں تک پہنچے کی کوشش کر رہی ہے جہاں افسانوی شہرت کے حامل اس جوڑے کی باقیات موجود ہو سکتی ہیں۔ ابو سیر نامی اس پہاڑی جگہ پر یہ ٹیم گذشتہ تین سال سے خاموشی سے کام کر رہی تھی اور اب انہیں یقین ہے کہ وہ اپنے مقصد کے قریب پہنچ گئے ہیں، اب تک یہاں سے کئی ممیاں ملی ہیں مگر ان میں کوئی بھی ملکہ قلو پطرہ نہیں ہے، ماہرین کو یقین ہے کہ ملکہ اور اس کے شوہر کی لاش روایتی رومن یونیفارم میں ہو گی، اس کے سروں پر بادشاہوں اور ملکہ کے تاج بھی ہوں گے اور ایسے اشیا بھی اس کمرے میں موجود ہوں گی جو تمام کہانی کو کھول دیں گی کہ آخر قلو پطرہ اور اس کے شوہر کی خودکشی کی کیا وجہ تھی اور وہ یہاں کیوں دفن ہوئی۔ اس پہاڑی کے قریب سے ماہرین کو ایک ایسا قبرستان بھی ملا ہے جہاں سے دریافت ہونے والی ممیوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کو دفن کیا جاتا تھا۔ماہرین کو اس بات پر بھی یقین ہے کہ انہیں ایسے کلیو بھی ملیں گے جو ملکہ قلو پطرہ کے بارے میں نئی باتوں کا انکشاف کریں گے مگر اس کے لئے تھوڑا انتظار کرنا ہو گا۔
مصری اور غیرملکی ماہرین نے جس جگہ کھدائی کا کام شروع کیا ہے یہ مصری شہر اسکندریہ سے سترہ کلو میٹر دور، سمندر کے کنارے ایک پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں سے قریب ہی لبنان کی سرحد ہے، اس پہاڑی سے سمندر صاف نظر آتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے یہاں پر ایک قدیم گم شدہ مندر تبو سیریز، موجود ہے، یہ مندر پہاڑی کے اندر درجنوں سرنگیں کھود کر تعمیر کیا گیا ہے، پیچیدہ قسم کی ان سرنگوں کا نظام ایک دوسرے سے باہم مربوط ہے، اس جگہ تک پہنچنے کے لئے ماہرین کو کئی سال محنت کرنا پڑی، اس سلسلے میں نا صر ف قدیم رومن عبارتوں کو سمجھنے کی کوشش کی گئی بلکہ مختلف جگہوں سے ملنے والے نقش و نگار کو بھی اسٹڈی کیا گیا، اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ قلو پطرہ کے مدفن کی تلاش ابو سیر نامی علاقے میں کی جائے جہاں کبھی بڑی بندرگاہ ہوا کرتی تھی، یہ بندرگاہ ملکہ قلو پطرہ کے زمانے میں تھی اب یہاں بندرگاہ تو موجود نہیں ہے مگر یہاں سے سترہ کلو میٹر دور اسکندریہ کا شہر اور بندرگاہ موجود ہے، ماہرین کو یقین ہے کہ صدیوں قبل قلو پطرہ کے زمانے میں یہ بندرگاہ ابو سیر نامی اس پہاڑی علاقے میں تھی۔
ملکہ قلو پطرہ کے بارے میں اب تک دستیاب معلومات کے مطابق قلو پطرہ اور انٹونی نے ایک ساتھ خود کشی کر لی تھی اور اس کے بعد دونوں کے بارے میں تاریخ خاموش ہے، قلو پطرہ کی خوبصورتی، اس کی موت کا راز،مدفن اور دیگر کئی سوالات آج تک حل طلب ہیں، مصری صدر حسنی مبارک کا کہنا ہے کہ اس عظیم دریافت کے ساتھ ہی ان تمام سوالوں کا جواب مل جائے گا جو صدیوں سے جواب طلب ہیں۔ مصری اخبار الاہرام نے اپنی خصوصی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ماہرین نے دستیاب شواہد اور دستاویزات و تصاویر کے مطالعہ کے بعد یہ اندازہ لگایا ہے کہ جب قلو پطرہ اوراس کے شوہر انٹونی نے ایک ساتھ خود کشی کی تھی تو بچاری ان دونوں کی لاشوں کو تبوسیریز مندر میں لے آئے جہاں کافی گہرائی میں دونوں کو دفن کر دیا گیا۔ ابو سیر کی پہاڑی پر کھدائی کرنے سے قبل ماہرین نے جدید آلات سے تمام علاقے جا ئزہ لیا، اس کے بعد ہی یہ اعلان کیا گیا کہ وہ ملکہ قلو پطرہ کی قبر ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ابو سیر کی پہاڑی نرم پتھروں پر مشتمل ہے، اس علاقے کی کھدائی شروع کرنے سے قبل خصوصی ریڈار سے زیر زمین چالیس میٹر تک کی گہرائی کا جائزہ لیا گیا، خصوصی طورپر تیار کردہ ریڈار زیر زمین جائزہ لینے کی صلاحیت کا حامل ہے، اس طرح ریڈار نے یہ بات واضح کر دی کہ پوری پہاڑی زیر زمین سرنگوں کے ایک پیچیدہ نظام پر مشتمل ہے، ان سرنگوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ تقریبا بیس میٹر کی گہرائی میں دو ایسے کمرے بنے نظر آئے جہاں دو ممیاں رکھی ہوئی ہیں، ماہرین کو یقین ہے کہ یہی ممیاں ملکہ قلو پطرہ اور اس کا شوہر انٹونی ہے، گو کہ اب تک ان کمروں تک رسائی نہیں ہو سکی ہے مگر ماہرین احتیاط کے ساتھ کھدائی کا کام کر رہے ہیں۔
مصری اور غیر ملکی ماہرین نے جب اس علاقے میں ملکہ قلو پطرہ کی تلاش کا کام شروع کیا تھا، انہیں یہ امید نہیں تھی کہ وہ اس پہاڑی کی تہہ میں دفن ملے گی، البتہ انہیں قدیم تصاویر اور مبہم تحریروں سے اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ جگہ سمندر کے کنارے ہے، کسی مندر میں ہے اور کوئی ایسی خفیہ جگہ ہے جہاں کسی کی رسائی بظاہر غیر امکانی ہے اسی لئے سمندر کے کنارے پوری پٹی کا اس خصوصی ریڈار کے ذریعے سروے کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو اسی مقصد کے لئے بنایا گیا تھا، اسی ریڈار کے ذریعے ماہرین پہلے ایک قدیم قبرستان تک پہنچے جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں ملکہ قلوپطرہ کے قریبی عزیز دفن ہیں، اسی قبرستان سے کچھ ایسی تصاویر اور مجسمے ملے جن سے یہ اشارہ ملتا تھا کہ قلو پطرہ بھی کہیں قریب ہی موجود ہے، اس قبرستان سے ملنے والی بعض اشیا پر قلو پطرہ کی تصاویر کھدی ہوئی تھیں، بعض پر کسی واقعے کی منظرکشی کی گئی تھی، ماہرین کا خیال تھا کہ ان تصاویر میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ قلو پطرہ نے خود کشی کی اور پھر اسے اس کے محبوب شوہر کے ساتھ ہی دفنا دیا گیا، اس طرح کے اشاروں پر چلتے ہوئے ماہرین آثار قدیمہ ابو سیر کی پہاڑی تک پہنچے جہاں خصوصی ریڈار نے ان سرنگوں کا پتہ بتا دیا جہاں سطح زمین سے بیس میٹر نیچے دو کمروں میں ممکنہ طور پر ملکہ قلو پطرہ اور اس کا شوہر مدفون ہیں۔ مصری محکمہ آثار قدیمہ کے سربراہ ڈاکٹر زاھی حواس کا اس بارے میں کہنا ہے کہ در اصل قلو پطرہ اور اس کا شوہر مرنے کے بعد کسی ایسی جگہ پر مدفون ہونا چاہتے تھے جہاں کوئی بھی ان تک رسائی حاصل نہ کر سکے، اس بارے میںکچھ علم نہیں کہ وہ ایسا کیوں چاہتے تھے، یا تو انہیں کسی سے کوئی خطرہ تھا یا پھر وہ احساس برتری کا شکار تھے اس لئے وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ مرنے کے بعد بھی ان لاشوں یا ممیوں تک کسی بھی فرد کی رسائی ہو۔ پروہتوں یا بچاریوں کی خدمات بھی اس لئے حاصل کی گئی تھیں کہ وہ اپنے جادو یا منتروں کی مدد سے ان کی مدفن کو اس قدر محفوظ بنا دیں کہ کسی کی بھی اس پر نظر نہ پڑے۔ اس وقت کے عقیدے کے مطابق مندروں کے پروہت کسی بھی بادشاہ یا ملکہ کی لاش کو ممی بنانے کے بعد تابوت میں بند کر کے اس پر مذہبی منتر پڑھ کر محفوظ کر دیا کرتے تھے، آثار قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ ملکہ قلو پطرہ اوراس کے شوہر کی لاش کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا تھا، کیوں کہ ملکہ قلو پطرہ سب کی نظروں سے اوجھل رہنا چاہتی تھی، اس وقت کے گرینڈ مندر’’ تبو سیریز‘‘ کے پروہتوں کی خدمات اس کام کے لئے حاصل کی گئی تھیں اور انہوں نے ملکہ کی خود کشی کے بعد ملکہ اور اس کے شوہر کی لاشوں کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا، اس کے بعد ان کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے انہیں زیر زمین مندر کی تہہ میں بنے کمروں میں منتقل کرنے کے بعد ان کمروں کو منتروں کے ذریعے محفوظ بنا دیا گیا، گو کہ ماہرین آثار قدیمہ اور مصر کے مسلمان اب ان باتوں یا منتروں کی طاقت پر یقین نہیں رکھتے مگر وہ اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ فراعین مصر جادو کی طاقت کا سہارا لیا کرتے تھے اور کسی حد تک یہ طاقت ان کی مدد بھی کیا کرتی تھی اس کا ثبوت قرآن پاک میں موجود وہ واقعات بھی ہیں جن میں فراعین مصر اور ان کے جادو کا ذکر کیا گیا ہے۔ملکہ قلو پطرہ کے مقبرے کی کھدائی کے دوران اب تک تو کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جسے اس جادو یا منتروں کا کارنامہ قرار دیا جائے جو اس مندر اور اس میں موجود لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ممکنہ طور پر پڑھے گئے تھے مگر اس سے قبل ممیوں کی تلاش میں کی کئی کھدائیوں کے دوران ایسے کئی حادثات پیش آئے ہیں جنہیں کچھ لوگ جادو یا قدیم منتروں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ معروف رومن مصنف پلوٹراچ کی تحریر کی بنیاد پر ماہرین آثا قدیمہ اور تاریخ دانوں کو یقین ہے کہ ملکہ قلو پطرہ اور اس کا شوہر انٹونی ایک ساتھ ہی ایک جگہ پر دفن کئے گئے تھے، لہذا، اب مصری اور ڈومینیکن ریپبلکن ماہرین کی ٹیم احتیاط کے ساتھ زمین میں بیس میٹر گہرائی میں ان کمروں تک پہنچے کی کوشش کر رہی ہے جہاں افسانوی شہرت کے حامل اس جوڑے کی باقیات موجود ہو سکتی ہیں۔ ابو سیر نامی اس پہاڑی جگہ پر یہ ٹیم گذشتہ تین سال سے خاموشی سے کام کر رہی تھی اور اب انہیں یقین ہے کہ وہ اپنے مقصد کے قریب پہنچ گئے ہیں، اب تک یہاں سے کئی ممیاں ملی ہیں مگر ان میں کوئی بھی ملکہ قلو پطرہ نہیں ہے، ماہرین کو یقین ہے کہ ملکہ اور اس کے شوہر کی لاش روایتی رومن یونیفارم میں ہو گی، اس کے سروں پر بادشاہوں اور ملکہ کے تاج بھی ہوں گے اور ایسے اشیا بھی اس کمرے میں موجود ہوں گی جو تمام کہانی کو کھول دیں گی کہ آخر قلو پطرہ اور اس کے شوہر کی خودکشی کی کیا وجہ تھی اور وہ یہاں کیوں دفن ہوئی۔ اس پہاڑی کے قریب سے ماہرین کو ایک ایسا قبرستان بھی ملا ہے جہاں سے دریافت ہونے والی ممیوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کو دفن کیا جاتا تھا۔ماہرین کو اس بات پر بھی یقین ہے کہ انہیں ایسے کلیو بھی ملیں گے جو ملکہ قلو پطرہ کے بارے میں نئی باتوں کا انکشاف کریں گے مگر اس کے لئے تھوڑا انتظار کرنا ہو گا۔