سلام آباد(انصار عباسی)صد ر آصف علی زرداری آج مکمل طور پر تنہا کھڑے ہیں کیونکہ فوج کی قیادت میں کام کرنے والی فوجی ہےئت مقتدرہ اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کیلئے ایوان صدر کے فرد واحد کی ” ترکیب“ سے قائل نہیں ہوپائے۔ایک باخبر ذریعے نے اسلام آباد کے ایک بااثر سفارتی ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے لانگ مارچ کے اسلا م آبادپہنچنے سے قبل سیاسی بندگلی سے نکلنے کا عدنیہ دیا تھا وہ اب مائنس ون فارمولا کی بابت باتیں کررہے ہیں کیونکہ معاملات اس طرح آگے نہیں بڑھ سکتے جیسے وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک کا سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کیلئے وزیراعظم، آرمی چیف اور دنیا کے بارسوخ ممالک کی درخواستوں پر صدارتی ردعمل کے بارے میں کچھ سننے میں نہیں آیا۔ذرائع نے مزید کہا کہ سربراہ مملکت کی جانب سے بے نیازی پر مبنی یہ رویہ حیران کن ہے، سیاسی قدم اٹھانے سے یا ا پنے پھیلائے ہوئے کوڑا کرکٹ صاف کرنے سے انکی ہچکچاہٹ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایوان صدر اگرچہ موجودہ سیاسی بحران سے اپنے ” طریقے“ کے مطابق نمٹنے کیلئے پرعزم ہے لیکن ہر گزرتے لمحے کے ساتھ معاملات بگڑتے جارہے ہیں،اور معاملات ایسی نہج پر پہنچ سکتے ہیں جہاں فوج 90 کی دہائی میں جنرل عبدالوحید کاکڑ کی طرز پر موجودہ سیاسی قیادت کو کوئی سیاسی حل نکالنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ ”کچھ بھی ہوسکتاہے“ایک اہم وزیر جو کہ آج کل کے مشکل وقت میں صدر کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے صدر زرداری سے کہا ہے کہ انہیں موجودہ سیاسی بند گلی سے نکلنے کی ضرورت ہے اس وزیر نے نام ظاہر نہ کئے جانے کی شرط پر بتایا کہآرمی چیف موجودہ سیاسی صورتحال پر پریشان ہیں۔ انہوں نے اس امرسے اتفاق کیا کہ اگرفوری طور پر درستگی کیلئے اقدامات نہ کئے گئے تو ایسی حالت ہوسکتی ہے جس میں معاملات حکومتی کنڑول سے باہر نکل جائیں۔انہوں نے اس امرکا عندیہ دیا کہ صدر اب بھی 16 مارچ کو پنجاب سے گورنر راج اٹھانے کااعلان کر تے ہوئے نواز لیگ کو صوبے میں حکومت سازی کیلئے کہہ سکتے ہیں۔وزیر نے یہ بھی کہا کہ آخری گھڑیوں میں حکومت وکلاء اور دیگر شرکاء کو اسلام آباد میں لانگ مارچ اور دھرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔وزیر نے تسلیم کیا کہ گورنر پنجاب کے تما م تر بڑے دعووں کے باوجود نواز لیگ کو صوبائی اسمبلی میں بدستور واضح اکثرت حاصل ہے۔ جمعہ کو ایک صدارتی معاون نے اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ پنجاب میں گورنر راج ممکنہ طور پر 16 مارچ کو اٹھایا جا سکتا ہے لیکن انہوں نے ہلکے پھلکے موڈ میں کہا کہ (ن) لیگ اور وہ لوگ جو لانگ مارچ میں جانے کے خواہشمند ہیں انہیں معاملہ حل ہونے سے قبل کم از کم حکومت کی طاقت کا ذائقہ ضرور چکھنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے جیلیں کاٹیں، ہمیں مارا گیا ، ماضی میں ہم سے بدسلوکی کی گئی اوراب انہیں اس کا کچھ حصہ لینے دیں۔حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک لیفٹننٹ جنرل جو طویل عرصے تک آرمی چیف کیانی کے ساتھ ملکر کا م کرتے رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ کیانی فوجی مداخلت کا رستہ اختیار کرنے والے آخری شخص ہوں گے لیکن انہوں نے یہ اصرار بھی کیا کہ موجودہ سیاسی بحران میں کاکڑ فارمولا آخری آپشن ہو سکتا ہے۔ایک ذریعہ جو کہ آصف علی زرداری کو طویل عرصے سے جانتا ہے اسکا یہ کہنا ہے کہ زرداری ایسا شخص نہیں ہے جو دباؤ پر آسانی سے مان جائے۔جہاں ایک طرف صدراپنی جرات کا اظہار کررہے ہیں اور اس امر پر اصرار کررہے ہیں کہ وہ موجودہ سیاسی چیلنج سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں وہیں وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی اور انکی کابینہ کے ارکان واقعتا بہت پریشان ہیں،وہ ابھی تک 25 فروری کے صدارتی اقدام کی اثابت پر قائل نہیں ہو سکے۔رضاربانی اور شیری رحمن جیسی قابل احترام اور دانشمند آوازوں کی رخصتی سے بھی وزیر اعظم اور انکی کابینہ کے ساتھی غمگین ہیں،ان کے غمگین ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت کی مقبولیت کا گراف بھی انکی نظر میں ہے اور یہ امربھی کہ پی پی کی مقبولیت کس بری طرح سے گررہی ہے۔جہاں پہلے ہی سے تناؤ کی شکار صورتحال صدر سے وزیر اعظم اور آرمی چیف کی بے نتیجہ ملاقاتوں کے بعد مزید خراب ہوئی ہے، ایک بااثر یورپی ملک سے تعلق رکھنے والے سفارتکار کا کہنا ہے کہ آپشنز محدود ہوتے جارہے ہیں۔ ذرائع نے کہا کہ یہ محض چند دنوں کی بات ہو سکتی ہے کہ عدلیہ 2 نومبر2007 کی سطح پربحال ہوجائے، وزیر اعظم مزید مضبوط ہوجائیں اور پی ایم ایل (نواز) کابینہ میں شامل ہوجائے جس سے قومی حکومت وجود میں آئے۔