آبی ٹوکول
محفلین
وہی پرانے گھسے پٹے جملے یہ جو کیا تو وہ کیوں نہیں کیا اس وقت جو کیا تو اس وقت کیوں نہ کیا تھا اب جو کیا تو تب کیوں نہ کیا تھا وغیرہ وغیرہآپ بات کر رہے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب چیئرمین پیمرا کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ اپنی صفائی پیش کریں۔
مگر میرا سرے سے یہ پوائنٹ ہی نہیں تھا۔ میں نے جو باتیں کی ہیں، ان میں دو اہم نکات یہ ہیں:۔
1۔ چیف جسٹس صاحب نے کیسے یہ فرد جرم عائد کی عدلیہ کے خلاف "سازش" کی جا رہی تھی؟
یاد رکھئیے عدالت کے پاس "اختیارات" ہیں سو موٹو ایکشن کے، اور متعلقہ فریقین کو طلب کرنے کے، اور فیصلہ کرنے کے ۔۔۔ ۔ مگر اسکے پاس ہرگز "فرد جرم" عائد کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔ ایک عام حالت میں کی جانے والی "فرد جرم" اور عدالت کی اپنی "فرد جرم" میں بہت فرق ہے۔
2۔ اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر عدالت میں کیس ہے تو اسکے میڈیا ٹرائل پر پابندی ہے ۔۔۔ ۔ تو پھر چیف جسٹس کو یہ پابندی فقط اور فقط اس وقت کیوں یاد آئی جب انکا اپنا کیس میڈیا میں آیا؟ انہیں پیمرا چیئر مین کو طلب کرنا اُس وقت یاد کیوں نہیں آیا جب سینکڑوں دوسرے کیسز میں مسلسل کیس عدالت میں ہونے کے باوجود لوگوں کا میڈیا ٹرائل ہوتا رہا اور چیف جسٹس صاحب اسی میڈیا کی آزادی کے گن گاتے رہے؟
او چھڈو جی تے مینوں ایہہ دسو کے معافی دین دا کی رکھیا جئے میں تے ایویں توہاڈے نال سنگ پھنسا بیٹھاں واں ؟؟؟؟
ویسے ایک بات ہے ملک کہ سپریم ادارے کو تو اتنا بھی اختیار نہیں کہ ایک ادارے کہ خلاف ہونے والی سازش کو بو کو سازش بھی کہہ سکے مگر ہماری مہوش بہنا کو فل اختیار ہے کہ جس کو جو جو مرضی آئے کہتی چلی جائیں اور اگر ان کہ منہ سے کوئی بات نکل جائے تو وہ انصاف و دیانت کا تقاضا بھی ہو اور فریق مخالف کو صفائی دینے کا موقع بھی کہلائے فیا للعجب