فرقان احمد
محفلین
یہ ربط ملاحظہ فرمائیے۔کچھ عرصہ پہلے اخبار میں اشتہار آیا تھا۔ کافی لے دے بھی ہوئی تھی اس پر۔
یہ ربط ملاحظہ فرمائیے۔کچھ عرصہ پہلے اخبار میں اشتہار آیا تھا۔ کافی لے دے بھی ہوئی تھی اس پر۔
شکریہ۔ میں نے اس سے بھی بڑے لیول کی اہلیت دیکھی تھی اشتہار میں۔ کوشش کرتی ہوں ڈھونڈنے کی۔یہ ربط ملاحظہ فرمائیے۔
یہ ربط ملاحظہ فرمائیے۔
ریٹائرڈ جج بھرتی کرنے کا مجھے علم نہیں تھا۔
ہر ملک کے پاس افواج ہیں۔ پاک افواج کے پاس ملک ہےمیرے وطن کے سجیلے جوانو ۔ ۔ ۔ سارے رقبے تمہارے لیے ہیں
ملک صاحب جانتے ہیں کہ اس ملک میں کام کیسے نکلوائے جاتے ہیں، تبھی تو اس مقام پر پہنچے ہیں۔
آن لائن تلاش کرنے پر یہاں ملا۔ میں نے یہ اشتہار اخبار میں دیکھا تھا۔
اسی لیے کہا تھا کہ ان کے فیصلے ان کی مرضی کے لیے ہوتے ہیں۔ملک صاحب جانتے ہیں کہ اس ملک میں کام کیسے نکلوائے جاتے ہیں، تبھی تو اس مقام پر پہنچے ہیں۔
ہمیں تو شناختی کارڈ کی بھی تجدید کروانا ہو تو قطاروں میں کھڑے ہو ہو کر باری آنے پر کہا جاتا ہے کہ "ٹَیم ختم ہو گیا اے کل آنا"۔
وہاں بھی کبھی کبھار رش لگا دیکھا ہےویسے نادرا کا جو ایگزیکٹو سنٹر ہے نا مری روڈ کی طرف وہاں قطار میں نہیں لگنا پڑتا عموما۔
شکریہ۔ویسے نادرا کا جو ایگزیکٹو سنٹر ہے نا مری روڈ کی طرف وہاں قطار میں نہیں لگنا پڑتا عموما۔
اچھا یعنی نئے پاکستان کی راہ میں رکاوٹ آپ جیسے افسر شاہی بھی ہیںورنہ سرکاری اداروں میں اتنے تو مراسم ہیںہی کہ قطار کی کوفت سے بچا جا سکے۔
پاگل سمجھا ہوا ہے کیا مجھے؟اچھا یعنی نئے پاکستان کی راہ میں رکاوٹ آپ جیسے افسر شاہی بھی ہیں
ملک کا نظام تب تک ٹھیک نہیں ہوگا جب تک یہ مراسم ، واقفیت اورسفارش کا کلچر اکھاڑ کر باہر پھینک نہیں دیا جاتا۔
یہ تو شروعات ہیں بھائی۔ چیخوں کی آوازیں ابھی سے آنا شروع ہو گئی ہیں۔جس دن آپ کے نئے پاکستان کے وزرا، افسران اور ملازمین بغیر سفارش اور مراسم والے عوام کو ذلیل کرنا چھوڑ دیں گے اور واقعتاً میرے نوکر بن کر مجھے ٹریٹ کریںگے میں مراسم پر چار حرف بھیج کے اپنے نوکروں کے پاس بغیر سفارش جایا کروںگا۔
کیا میں نے لکھا تھا کہ پچھلے سال خراب ہوئی یا پچھلے ماہ ہوئی؟ دوبارہ پڑھیں میرا مراسلہ۔یہ تو شروعات ہیں بھائی۔ چیخوں کی آوازیں ابھی سے آنا شروع ہو گئی ہیں۔
پاکستانی بیروکریسی اور سول سروس پچھلے سال خراب نہیں ہوئی۔ کئی دہائیوں سے یہی نظام چل رہا ہے۔ بہتری کا سفر بھی اتنا ہی وقت لے گا۔
ظاہر ہے جب ایک سنٹر بنا ہے تو رش تو ہو گا۔وہاں بھی کبھی کبھار رش لگا دیکھا ہے
بھئی اب مجھے کیا معلوم کہ آپ کتنے وڈے بندے ہیں۔ میں نے تو اپنے یعنی عام عوام والے حساب سے بتایا تھا۔ کیوں کہ پاسپورٹ رینیول اور آئی ڈی کارڈ کے لیے خود بھی جانا ہوا اور گھر کے دیگر لوگ بھی گئے تو ایک کھڑکی سے دوسری کھڑکی تک چکر تو لگے لیکن کسی مشکل یا کوفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔شکریہ۔
میں نے یہ بات استعارتاً کہی تھی ورنہ سرکاری اداروں میں اتنے تو مراسم ہیںہی کہ قطار کی کوفت سے بچا جا سکے۔
اس کے لیے "وڈا بندہ" ہونا ضروری نہیں۔۔۔ مالک بننے سے پہلے کچھ عرصہ ہم خود بھی نوکر ہی رہے ہیں۔ اب ایک نوکر دوسرے نوکر کے پاس جائے گا تو کچھ تو وہ خیال کرے گا نا۔بھئی اب مجھے کیا معلوم کہ آپ کتنے وڈے بندے ہیں۔ میں نے تو اپنے یعنی عام عوام والے حساب سے بتایا تھا۔
کیوں کہ پاسپورٹ رینیول اور آئی ڈی کارڈ کے لیے خود بھی جانا ہوا اور گھر کے دیگر لوگ بھی گئے تو ایک کھڑکی سے دوسری کھڑکی تک چکر تو لگے لیکن کسی مشکل یا کوفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
وڈے بندے سے میری مراد اس سے زیادہ کچھ نہیں تھی کہ آپ کسی کو جانتے ہوں جو بوقتِ مشکل آپ کو غیر ضروری کوفت سے بچا سکے۔ اس لیے آپ کا سوال 'پاس'۔اس کے لیے "وڈا بندہ" ہونا ضروری نہیں۔۔۔ مالک بننے سے پہلے کچھ عرصہ ہم خود بھی نوکر ہی رہے ہیں۔ اب ایک نوکر دوسرے نوکر کے پاس جائے گا تو کچھ تو وہ خیال کرے گا نا۔
پاسپورٹ رینیوئل کی بھی سن لیجیے۔
کچھ عرصہ قبل لاہور میں رہائش کے دوران ایک مرتبہ بغیر مراسم استعمال کیے بطور مالک پاسپورٹ دفتر چلا گیا تجدید کروانے۔ آگے سے میرے نوکروں نے فرمایا کہ آپ کا مستقل پتہ چونکہ کراچی کا لکھا ہوا ہے لہٰذا آپ کا پاسپورٹ صرف کراچی سے بن سکتا ہے۔ ہزار سمجھایا کہ بھائی میری معلومات کے مطابق ڈی جی آئی پی کے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پراسیجرز میں یہ لکھا ہوا ہے کہ شناختی کارڈ میں جس شہر کا عارضی پتہ لکھا ہو اہے وہاں سے بھی شناختی کارڈ بن سکتا ہے نیز آپ نے ویریفکیشن نادرا ویری سس سے کرنی ہے اور وہ کراچی یا لاہور کا کوئی الگ الگ تو ہے نہیں اور پھر پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈریکٹریٹ تو وزارت داخلہ کے ماتحت وفاقی ادارہ ہے جو پنجاب و سندھ کا ایک ہی ہے اور پھر ڈی جی آئی پی کا اپنا ڈیٹا بیس بھی ایک ہی ہے جس میں میرا رکارڈ موجود ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گذشتہ تجدید اسلام آباد سے کروائی تھی جس کا ثبوت میرے پاسپورٹ پر واضح لکھا ہوا "اسلام آباد پاسپورٹ آفس" نظر آ رہا ہے اور تب بھی میرا مستقل پتہ کراچی ہی تھا تو لاہور آفس سے کیوں نہیں بن سکتا؟
لیکن ڈھاک کے وہی تین پات ان کے کان پر جوں رینگ کر نہ دی بلکہ وہ اس SOP کے متعلق بھی مجھے بتانے لگے کہ میں غلط کہہ رہا ہوں ۔
بالآخر دو تین گھنٹے ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے نوکر کی ڈھٹائی سہنے اور "کراچی جا کر بنواؤ" کی مسلسل رٹ سننے کے بعد میرے "مالکانہ حقوق" کی خواہش دم توڑ گئی۔ ایک سابقہ کولیگ کو فون کیا جس نے اس پاسپورٹ آفس کے ان چارج (ایک ڈپٹی ڈریکٹر) کو فون کیا۔پانچ منٹوں بعد وہ حضرت بنفس نفیس اوپری منزل سے نیچے ہال میں مجھے تلاش کرتے تشریف لائے اور اپنے دفتر میں لے گئے۔ نہ صرف چائے منگوائی بلکہ فوٹوگرافر کو بھی وہیں منگوایا اور وہیں میری تصویر لی گئی اور بار بار فرماتے جاتے تھے کہ آپ پہلے ہی میرے پاس آ کے تعارف کرواتے تو گپ شپ بھی ہو جاتی آپ سے اور یہ پراسس بھی چلتا رہتا۔ میرے اٹھتے ہوئے انھوں نے ایک اور بھی آفر کی کہ آپ نے فی تو ریگولر پراسس کی جمع کروائی ہے لیکن آپ ہمارے لیے محترم ہیں، آپ کا پاسپورٹ ہم منگوا ارجنٹ میں لیں گے۔ میں نے ان کو بتایا کہ مجھے ایسی کوئی ارجنسی نہیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ "سر، ہمیں بھگو بھگو کے تو نہ ماریں اب۔"
یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان دو تین گھنٹوں میں چار ایجنٹس باری باری میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کا کام لاہور آفس سے ہی کروا دیتے ہیں، آپ کراچی آنے جانے کا خرچ ہمیں دے دیں، ہم آپ کی سفر کی تکلیف بچا دیتے ہیں۔ بالفاظ دیگر 15 سے 20 ہزار مانگ رہے تھے۔ مجھے صد فی صد یقین ہے کہ ان 15 سے 20 ہزار میں ان پبلک سرونٹس کا بھی حصہ ہوتا جنھوں نے مجھے بے جا ذلیل کر کر کے ایجنٹس کے لیے شکار آسان کیا تھا اور یہ طریقہ واردات ان کی ملی بھگت ہوتی ہے۔
اب بتائیں کیا کریں مالکان جب نوکروں کی یہ حالت ہو؟
ایک سوال میرے چھوٹے بھائی جاسم محمد سے بھی ہے کہ بقول آپ کے "افسر شاہی" کرنے کی بجائے کیا میں کراچی جاتا یا انھیں 15 سے 20 ہزار روپے دیتا؟
اور تو اور آپ کبھی ایف بی آر جا کر دیکھیں، وہاں آپ سرکار کو پیسے دینے جاتے ہیں لیکن سلوک آپ کے ساتھ ایسا کیا جاتا ہے گویا آپ آقا کے در پر خیرات مانگنے آئے ہیں اور ایسے آپ کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے گویا آپ چور ہیں اور وہ منصف۔ میں کچھ لوگوں کو جانتا ہوں جو اس گھٹیا سلوک سے تنگ آ کر ٹیکس آفس سے باہر آ گئے اور باہر موجود ایجنٹوں سے بات کر کے ٹیکس فائل کیا اور ایجنٹوں نے انھیں ایسے راستے بتائے کہ جتنا ٹیکس وہ جمع کروانا چاہتے تھے اس سے کئی گنا کم جمع کروایا۔
قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ شریفین جیسے وڈے بندوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔بھئی اب مجھے کیا معلوم کہ آپ کتنے وڈے بندے ہیں۔
بھائی اصل میں قصور آپ کا نہیں۔ پورا کا پورا نظام بگڑا پڑا ہے۔ پاسپورٹ بنانا آپ کی ضرورت ہے اور یہ سرکاری نوکر اسے مجبوری سمجھتے ہیں۔ جس کا فائدہ اٹھا کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔ اگر آپ انہیں کچھ کھلا پلا دیتے تب بھی کام ہو جاتا۔ مگر چونکہ آپ کے تعلقات ہیں اس لئے وی آئی پی انداز میں سارا کام ہو گیا۔ اس کلچر کو تبدیل ہونے میں بہت لگے گا۔ یہ سول سروس اور بیروکریسی کئی دہائیوں سے ایسی ہی ہے۔ایک سوال میرے چھوٹے بھائی @جاسم محمد سے بھی ہے کہ بقول آپ کے "افسر شاہی" کرنے کی بجائے کیا میں کراچی جاتا یا انھیں 15 سے 20 ہزار روپے دیتا؟
اور تو اور آپ کبھی ایف بی آر جا کر دیکھیں، وہاں آپ سرکار کو پیسے دینے جاتے ہیں لیکن سلوک آپ کے ساتھ ایسا کیا جاتا ہے گویا آپ آقا کے در پر خیرات مانگنے آئے ہیں اور ایسے آپ کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے گویا آپ چور ہیں اور وہ منصف۔ میں کچھ لوگوں کو جانتا ہوں جو اس گھٹیا سلوک سے تنگ آ کر ٹیکس آفس سے باہر آ گئے اور باہر موجود ایجنٹوں سے بات کر کے ٹیکس فائل کیا اور ایجنٹوں نے انھیں ایسے راستے بتائے کہ جتنا ٹیکس وہ جمع کروانا چاہتے تھے اس سے کئی گنا کم جمع کروایا۔
آپ سے اسی برابری کے بارے میں سوال پوچھا ایک اور لڑی میں۔ اس کا کیا ہوا؟قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ شریفین جیسے وڈے بندوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
اور اس تازہ خبر پر بھی کچھ روشنی ڈالیں۔