ملک میں احتساب کےقانون کوسیاست دانوں کےبازو مروڑنےاور سیاسی انجینیئرنگ کےلیےاستعمال کیاگیا:ایس سی

ابن آدم

محفلین
پاکستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ملک میں احتساب کے قانون کو سیاست دانوں کے بازو مروڑنے اور سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا اور بجائے یہ کہ ان قوانین سے گورننس، معاشرے، سیاسی نظام میں ملک کے لیے بہتری آتی جس طریقے سے ان کو استعمال کیا گیا مزید ابتری ہوئی۔

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی کی ضمانت کے تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ نیب کے چیئرمین کی جانب سے ملزم کی گرفتاری کے اختیار کو ہراساں اور دباؤ ڈالنے کے آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

فیصلے کے مطابق نیب احتساب کے نام پر ایک جانب کی سیاست قیادت کے خلاف کارروائی کرکے مہینوں بلکہ برسوں تک قید میں رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف کے افراد کے خلاف کارروائی میں تساہل برت رہا ہے۔جس مقدمے میں کسی شہری کی عزت اور آزادی کا سوال ہو وہاں عدالتوں کو سختی کے ساتھ استغاثہ کے مقدمے کو جانچنا چاہیے، اور امریکہ کے چیف جسٹس کے بقول ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے آئین کی تشریح کرنی ہے۔

87 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس مقبول باقر نے تحریر کیا ہے جنہوں نے لکھا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان بنے 72 سال اور آئین کو بنے ہوئے 47 سال ہو چکے مگر آج بھی عوام کو آئین میں دیئے گئے حقوق نہیں مل رہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ملک میں جمہوری اقدار، احترام، برداشت، شفافیت اور مساوات کے اصولوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے جبکہ عدم برداشت، اقرابا پروری، جھوٹے دھونس، خود نمائی ترجیحات بن چکی ہیں، کرپشن پاکستانی معاشرے میں مکمل طور پر رچ بس چکی کی ہے اور انا پرستی اور خود کو ٹھیک کہنا معاشرے میں جڑ پکڑ چکا ہے۔

”ایک غیر ملکی فیصلے کے مطابق گرفتاری پر ملزم کے ساتھ اہل خانہ بھی نتائج بھگتتے ہیں، ملزم کو قبل از گرفتار کرکے جیل بھیجنا انسان کی تکریم کے خلاف ہے، ایسی گرفتاری کسی شخص کی معاشرے میں ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔“

فیصلے کے مطابق ایسے دور میں جہاں پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ملزم کی گرفتاری کی تشہیر کی جائے پورے خاندان کی تضحیک کا سبب بنتی ہے۔ کسی ملزم کی گرفتاری کا خمیازہ بلاوجہ معصوم اہل خانہ کو بھگتنا پڑتا ہے، انتظامیہ کا ہرکام قانون کے مطابق ہونا چاہئے، نیب کسی ملزم کو گرفتار کرنے سے پہلے شفافیت، معقولیت اور ضرورت کے اصول کو ذہن میں رکھے۔

سپریم کورٹ کے مطابق نیب گرفتاری سے پہلے شفافیت کے اصول کو مدنظر رکھے، نیب قانون فوجی آمر پرویز مشرف نے بنایا اور قانون شروع سے ہی متنازع رہا ہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ یہ تاثر بہت مضبوط رہا ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے نیب کو بطور آلہ استعمال کیا جاتا رہا، یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا کہ نیب کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا۔

جسٹس باقر نے لکھا ہے کہ نیب کے جانبدارانہ رویے سے اس کی غیر جانبدارانہ ساکھ کا تصور دھندلا گیا، نیب مختلف سیاسی سوچ رکھنے والے افراد کے خلاف مالی بےضابطگیوں کے معاملے پر لچک دکھاتا نظر آتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دوسری جانب نیب ایسی گرفتاریاں کر رہا ہے جن میں مہینوں اور سالوں انکوائریاں چلتی رہتی ہیں جبکہ نیب قانون کے مطابق ٹرائل تیس دنوں میں مکمل ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ کے مطابق نیب میں مہینوں انکوائریاں مکمل نہیں ہوتی اور مقدمات سالوں تک زیر التوا رہتے ہیں، یہ پیشہ وارانہ صلاحیت اور خلوص کے فقدان کے باعث ہو رہا ہے، نیب کے ایسے اقدامات پاکستان کے حق میں نہیں۔

”نیب کے ایسے اقدامات کی وجہ سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، اس حوالے سے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی ایک تقریب میں اظہار خیال کر چکے ہیں۔“

فیصلے کے مطابق بظاہر خواجہ برادران پر لگائے گئے الزامات درست نظر نہیں آ رہے، نیب ابھی تک خواجہ برادران کے حوالے سے یہ تعلق ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ وہ مذکورہ کمپنی کے شراکت دار تھے۔

نیب قوانین کے یکطرفہ استعمال سے ابتری آئی: سپریم کورٹ
 
ملک میں احتساب کےقانون کوسیاست دانوں کےبازو مروڑنےاور سیاسی انجینیئرنگ کےلیےاستعمال کیاگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے کس نے ایسا کیا؟
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ملک میں احتساب کے قانون کو سیاست دانوں کے بازو مروڑنے اور سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا اور بجائے یہ کہ ان قوانین سے گورننس، معاشرے، سیاسی نظام میں ملک کے لیے بہتری آتی جس طریقے سے ان کو استعمال کیا گیا مزید ابتری ہوئی۔

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی کی ضمانت کے تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ نیب کے چیئرمین کی جانب سے ملزم کی گرفتاری کے اختیار کو ہراساں اور دباؤ ڈالنے کے آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

فیصلے کے مطابق نیب احتساب کے نام پر ایک جانب کی سیاست قیادت کے خلاف کارروائی کرکے مہینوں بلکہ برسوں تک قید میں رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف کے افراد کے خلاف کارروائی میں تساہل برت رہا ہے۔جس مقدمے میں کسی شہری کی عزت اور آزادی کا سوال ہو وہاں عدالتوں کو سختی کے ساتھ استغاثہ کے مقدمے کو جانچنا چاہیے، اور امریکہ کے چیف جسٹس کے بقول ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے آئین کی تشریح کرنی ہے۔

87 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس مقبول باقر نے تحریر کیا ہے جنہوں نے لکھا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان بنے 72 سال اور آئین کو بنے ہوئے 47 سال ہو چکے مگر آج بھی عوام کو آئین میں دیئے گئے حقوق نہیں مل رہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ملک میں جمہوری اقدار، احترام، برداشت، شفافیت اور مساوات کے اصولوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے جبکہ عدم برداشت، اقرابا پروری، جھوٹے دھونس، خود نمائی ترجیحات بن چکی ہیں، کرپشن پاکستانی معاشرے میں مکمل طور پر رچ بس چکی کی ہے اور انا پرستی اور خود کو ٹھیک کہنا معاشرے میں جڑ پکڑ چکا ہے۔

”ایک غیر ملکی فیصلے کے مطابق گرفتاری پر ملزم کے ساتھ اہل خانہ بھی نتائج بھگتتے ہیں، ملزم کو قبل از گرفتار کرکے جیل بھیجنا انسان کی تکریم کے خلاف ہے، ایسی گرفتاری کسی شخص کی معاشرے میں ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔“

فیصلے کے مطابق ایسے دور میں جہاں پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ملزم کی گرفتاری کی تشہیر کی جائے پورے خاندان کی تضحیک کا سبب بنتی ہے۔ کسی ملزم کی گرفتاری کا خمیازہ بلاوجہ معصوم اہل خانہ کو بھگتنا پڑتا ہے، انتظامیہ کا ہرکام قانون کے مطابق ہونا چاہئے، نیب کسی ملزم کو گرفتار کرنے سے پہلے شفافیت، معقولیت اور ضرورت کے اصول کو ذہن میں رکھے۔

سپریم کورٹ کے مطابق نیب گرفتاری سے پہلے شفافیت کے اصول کو مدنظر رکھے، نیب قانون فوجی آمر پرویز مشرف نے بنایا اور قانون شروع سے ہی متنازع رہا ہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ یہ تاثر بہت مضبوط رہا ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے نیب کو بطور آلہ استعمال کیا جاتا رہا، یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا کہ نیب کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا۔

جسٹس باقر نے لکھا ہے کہ نیب کے جانبدارانہ رویے سے اس کی غیر جانبدارانہ ساکھ کا تصور دھندلا گیا، نیب مختلف سیاسی سوچ رکھنے والے افراد کے خلاف مالی بےضابطگیوں کے معاملے پر لچک دکھاتا نظر آتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دوسری جانب نیب ایسی گرفتاریاں کر رہا ہے جن میں مہینوں اور سالوں انکوائریاں چلتی رہتی ہیں جبکہ نیب قانون کے مطابق ٹرائل تیس دنوں میں مکمل ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ کے مطابق نیب میں مہینوں انکوائریاں مکمل نہیں ہوتی اور مقدمات سالوں تک زیر التوا رہتے ہیں، یہ پیشہ وارانہ صلاحیت اور خلوص کے فقدان کے باعث ہو رہا ہے، نیب کے ایسے اقدامات پاکستان کے حق میں نہیں۔

”نیب کے ایسے اقدامات کی وجہ سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، اس حوالے سے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی ایک تقریب میں اظہار خیال کر چکے ہیں۔“

فیصلے کے مطابق بظاہر خواجہ برادران پر لگائے گئے الزامات درست نظر نہیں آ رہے، نیب ابھی تک خواجہ برادران کے حوالے سے یہ تعلق ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ وہ مذکورہ کمپنی کے شراکت دار تھے۔

نیب قوانین کے یکطرفہ استعمال سے ابتری آئی: سپریم کورٹ


ملک میں احتساب کےقانون کوسیاست دانوں کےبازو مروڑنےاور سیاسی انجینیئرنگ کےلیےاستعمال کیاگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے کس نے ایسا کیا؟
یوتھئے اس عدالتی فیصلے کو بوٹ چاٹ نہیں کہہ رہے۔ جن ججوں نے فیصلہ لکھا ہے ان کو گالیاں نہیں نکال رہے۔ تحریک انصاف اور دیگر بڑی سیاسی جماعتوں میں یہی بنیادی فرق ہے۔ ہم میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو نہیں کرتے۔
 
Top