زیرک
محفلین
ملک کی فنانشل منیجمنٹ میں سب اچھا نہیں ہے
سابق وزیر خزانہ زبیر خان جو کہ خود بھی ایک ماہر اکانومسٹ ہیں نے انکشاف کیا ہے (اس بات کا ذکر رؤف کلاسرا نے اپنے کالم "دو لگاؤ، تیرہ ملے گا۔۔ نئی واردات" میں بھی کیا ہے) کہ "کچھ امریکی فنانشل کمپنیوں نے 1 ارب ڈالر سے زائد پاکستان میں انویسٹ کیے ہیں، جس پر انہیں ٪13 مارک اپ کی شرح سے ادائیگی کی جا رہی ہے، جس نے بھی یہ سکیم بنائی ہے کہ پاکستان کو ٪13 پر پیسے بھجوا دو، اس نے پاکستان کے خلاف جرم کیا ہے، دبئی تک نے پاکستان کو تین ارب ڈالرز ٪3 پر ادھار دئیے اور ہم یہاں ٪13 پر انٹرسٹ ریٹ دے رہے ہیں۔ پاکستان میں لوگوں کی کھال کھینچ کر جو ٹیکس اکٹھا ہو رہا ہے اس کا ٪50 ان سود خوروں کی جیب میں جا رہا ہے"۔ میں نے جب سے یہ کالم پڑھا ہے اور ارشد شریف کے پروگرام میں زبیر خان کی باتوں پر غور کیا ہے، میں تو اس بات پر سوچ سوچ کر پریشان ہو گیا ہوں کہ نوازشریف دور حکومت میں اس وقت کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ٪8 مارک اپ پر قرض لیا تھا تو عمران خان نے وہ شور مچایا ہوتا تھا کہ رہے نام اللہ کا، لیکن مہاتما کو اپنے دورِ حکومت میں ٪13 مارک اپ پر قرض لینے پر ذرا برابر شرم نہیں یہاں تک کہ اتنے سنگین معاملے پر ان کے منہ سے ایک لفظ تک نہیں پھوٹتا؟ پی پی پی پی دور میں قرضوں پرسود کی ادائیگی 1000 ارب سالانہ تھی جو ن لیگی حکومت کے اختتام تک 1900 ارب ہو چکی تھی اور خیر سے اب مہاتما خان کے دور میں 3000 ارب سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ سب پیسہ وہی لوگ کھا رہے ہیں جنہیں اتنا زیادہ مارک اپ ادا کیا جا رہا ہے، جو دلوا رہے ہیں کیا وہ اپنا حصہ نہیں لیتے ہوں گے؟۔ جناب برا مت مانئیے گا اتنی بھاری شرح سود پر قرضے لینا مکمل تباہی کو دعوت دینا نہیں تو اور کیا ہے؟ حکومت میں بیٹھے عالمی مالیاتی اداروں کے کچھ ٹاؤٹوں اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پالیسی میکرز کی دوست نواز پالیسیوں نے ملک کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کم شرح سود پر قرض لینے کو ترجیح کیوں نہیں بنایا گیا؟ دوسرے ممالک کے مرکزی بنکس قرض لیتے وقت ایک ایک شق پر بات چیت کرتے ہیں، ملکی سالمیت کے لیے لڑتے ہیں لیکن سٹیٹ بینک پاکستان کی انتظامیہ کا رویہ تو ملکی سالمیت کے لیے ایک خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ عالمی حالات میں ردوبدل مثال کے طور پر جیسے امریکا ایران ممکنہ جنگ جیسی صورت حال بن رہی ہے، یہ فنانشیل کمپنیاں اپنا اصل سرمایہ سمیٹ کر کسی بھی وقت رفو چکر ہو سکتی ہیں، اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان واپس اسی معاشی دلدل میں دھکیل دیا جائے گا۔ اگر 1 ارب دالر کی مزید ضرورت تھی تو اسحاق ڈار کی طرز پر نئے یورو بانڈز فروخت کر کے ایسا کیا جا سکتا تھا، لیکن شاید دوست فنانشل کمپنیوں کو منافع کمانے کا موقع دینا ملک سے زیادہ اہم تھا، شنید ہے کہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور ڈی جی ایف بی آر شبر زیدی میں معاملات کافی بگاڑ کی صورت حال اختیار کر گئے ہیں کیونکہ ریونیو کا ٹارگٹ حاصل نہیں کیا جا سکا، جس کی وجہ سے ڈی جی ایف بی آر چھٹی پر چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ نوشین امجد جاوید بطورقائم قام چیئرپرسن ایف بی آر کے معاملات دیکھ رہی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں چوری کرنے والا ہی مجرم نہیں ہوتا بلکہ چور کی مدد کے لیے اصل دروازہ کھلا چھوڑنا اور چور دروازے پیدا کرنا بھی جرائم میں شامل ہوتا ہے۔