سید وصی الدین عظیم
محفلین
۔اگرچہ میں تاخیر سے اس موضوع پر لکھ رہا ہوں، لیکن اس خیال سے کہ کسی کی معلومات میں اضافہ ہو جائے۔۔۔
یہ ملی نغمہ اردو شاعری کی معروف بحر (بحر ھزج مثمن مضاعف ) میں ھے، آسانی کے لئے یہ امثلہ پیش کرتا ہوں:
یسی بحر میں علامہ اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ ھے اور اسی بحر میں مشہور و معروف نظم:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
ہے۔
ایک صاحب نے اوپر اس کے اوزان پر فاعلاتن فاعلاتن۔۔۔ کا اطلاق کیا ھے جو غلط ھے، یہ سالم بحر نہیں بلکہ اس میں مضاعف ہیں جس کی تفصیل اس فورم پر نا مناسب بھی ھے اور تکنیکی تفاصیل کی حامل بھی۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ سالم بحر(مفرد) میں ایک ہی رکن کی تکرار ہوتی ھے، جیسے بحر متدارک (فاعلن فاعلن فاعلن۔۔۔)، اور بحرِ متقارب (فعولن فعولن فعولن فعولن)
جبکہ مضاعف بحر میں ارکان سالم نہیں ھوتے (ضعف) آجاتا ھے اور یہ ایک سے زیادہ جگہ ھو سکتا ھے
بہرحال یہ ملی نغمہ بحر میں ھے اور مشہور بحر میں ھے۔ لکھنے کا طریقہ؟ علم عروض میں تھوڑا وقت لگایئے مشْق کیجئے، اس بحر کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے (اقبال)
کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے سزا دیتے ہیں
زندگی آج ترا قرض چکا دیتے ہیں
ہم نے اس کے لب و رخسار کو چھو کر دیکھا
حوصلے آ گ کو گلنار بنا دیتے ہیں (قابل اجمیری)
میری جانب اے دبے قدموں سے آنے والے
خشک پتے تری آمد کا پتہ دیتے ہیں (احقر العباد، وصی عظیم)
یہ ملی نغمہ اردو شاعری کی معروف بحر (بحر ھزج مثمن مضاعف ) میں ھے، آسانی کے لئے یہ امثلہ پیش کرتا ہوں:
یسی بحر میں علامہ اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ ھے اور اسی بحر میں مشہور و معروف نظم:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
ہے۔
ایک صاحب نے اوپر اس کے اوزان پر فاعلاتن فاعلاتن۔۔۔ کا اطلاق کیا ھے جو غلط ھے، یہ سالم بحر نہیں بلکہ اس میں مضاعف ہیں جس کی تفصیل اس فورم پر نا مناسب بھی ھے اور تکنیکی تفاصیل کی حامل بھی۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ سالم بحر(مفرد) میں ایک ہی رکن کی تکرار ہوتی ھے، جیسے بحر متدارک (فاعلن فاعلن فاعلن۔۔۔)، اور بحرِ متقارب (فعولن فعولن فعولن فعولن)
جبکہ مضاعف بحر میں ارکان سالم نہیں ھوتے (ضعف) آجاتا ھے اور یہ ایک سے زیادہ جگہ ھو سکتا ھے
بہرحال یہ ملی نغمہ بحر میں ھے اور مشہور بحر میں ھے۔ لکھنے کا طریقہ؟ علم عروض میں تھوڑا وقت لگایئے مشْق کیجئے، اس بحر کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے (اقبال)
کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے سزا دیتے ہیں
زندگی آج ترا قرض چکا دیتے ہیں
ہم نے اس کے لب و رخسار کو چھو کر دیکھا
حوصلے آ گ کو گلنار بنا دیتے ہیں (قابل اجمیری)
میری جانب اے دبے قدموں سے آنے والے
خشک پتے تری آمد کا پتہ دیتے ہیں (احقر العباد، وصی عظیم)