ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار "شبنم شکیل" وفات پاگئیں

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار "شبنم شکیل" وفات پاگئیں ۔
" انا للہ و انا الیہ راجعون "



زمانہ ساز ہوتی جا رہی ہوں
مجھےروکو،سنبھلتی جارہی ہوں
نہتا کردیا ہے اس نے مجھ کو
ہراک سےصلح کرتی جارہی ہوں
٭

سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں، سرسوں جیسا رنگ
برسوں بعد وہ دیکھ کے مجھ کو رہ جائے گا دنگ

ماضی کا وہ لمحہ مجھ کو آج بھی خون رلائے
اکھڑی اکھڑی باتیں اس کی، غیروں جیسے ڈھنگ

تارہ بن کے دور افق پر کانپے، لرزے، ڈولے
کچی ڈور سے اڑنے والی دیکھو ایک پتنگ

دل کو تو پہلے ہی درد کی دیمک چاٹ گئی تھی
روح کو بھی اب کھاتا جائے تنہائی کا زنگ

انہی کے صدقے یا رب میری مشکل کر آسان
میرے جیسے اور بھی ہیں جو دل کے ہاتھوں تنگ

سب کچھ دے کر ہنس دی اور پھر کہنے لگی تقدیر
کبھی نہ ہوگی پوری تیرے دل کی ایک امنگ

شبنم کوئی جو تجھ سے ہارے، جیت پہ مان نہ کرنا
جیت وہ ہوگی جب جیتو گی اپنے آپ سے جنگ
٭

بدل چکی ھے ھر اِک یاد اپنی صورت بھی
وہ عہدِ رفتہ کا ھر خواب ھر حقیقت بھی

کچھ اُن کے کام نکلتے ھیں دشمنی میں مری
میں دشمنوں کی ھمیشہ ھوں ضرورت بھی

کسی بھی لفظ نے تھاما نہیں ھے ھاتھ مرا
میں پڑھ کے دیکھ چُکی آخری عبارت بھی

یہ جس نے روک لیا مجھ کوآگے بڑھنے سے
وہ میری بے غرضی تھی مری ضرورت بھی

مری شکستہ دلی ھی بروئے کارآئی
وگرنہ وقت تو کرتا نہیں رعایت بھی

میں اپنی بات کسی سے بھی کر نہ پائوں گی
مجھے تباہ کرے گی یہ میری عادت بھی

یہ میرا عجز کہ دل میں اسے اترنے دیا
یہ اس کا مان کہ مانگی نہیں اجازت بھی
٭

سنتے ہیں اپنے ہی تهے گهر لوٹنے والے
اچها ہوا میں نے یہ تماشا نہیں دیکها
یہ شہر صداقت بهی عجب شہر ہے شبنم
میں نے یہاں ایک شخص بهی سچا نہیں دیکها

شاعرہ: شبنم شکیل
لنک
 

ساجد

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون
شبنم شکیل نہ صرف ایک ادیبہ ، شاعرہ اور دانشور تھیں بلکہ ایک معلمہ بھی تھیں۔ 1942 میں لاہور میں پیدا ہوئیں ، کنئیرڈ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہیں پھر اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں اردو ادب میں ایم اے کیا۔ کوئین میری کالج میں استاد مقرر ہوئیں۔ انہوں نے تعلیم کے شعبے میں 30 برس گزارے، اس دوران لاہور کالج برائے خواتین ، گورنمنٹ گرلز کالج کوئٹہ اور فیڈرل گورنمنٹ کالج اسلام آباد میں خدمات سر انجام دیں۔ انہوں نے پرائڈ ف پرفارمنس کے علاوہ متعدد ایوارڈ حاصل کئے۔ 1967 میں ان کی شادی سید شکیل احمد کے ساتھ ہوئی۔ ان کے پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ ان کے والد سید عابد علی عابد مشہور شاعر اور نقاد تھے۔
مرحومہ کی تصانیف میں ”تنقیدی مضامین“ ، ”شب زاد“ اور ”اضطراب“ نے کافی شہرت پائی۔
 
Top