سید شہزاد ناصر
محفلین
تذکرہ غوثیہ سے مروی ہے کہ ابلیس کے ایک دوست نے ابلیس سے کہا: " یار تو تو بڑا سیانا ہے بڑی سمجھ والا ہے، تو نے یہ حماقت کیوں کی؟"
" کون سی والی؟" ابلیس نے پوچھا۔
بولے۔ انسان کو سجدہ نہ کیا۔ بڑی سرکار کی حکم عدولی کی۔ ابلیس ہنس کر کہنے لگا: "سبھی اس بھید کو جانتے ہیں،پھر بھی سبھی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔"
دوست نے پوچھا،" کس بھید کی بات کر رہے ہو؟"
ابلیس نے کہا،" سبھی جانتے ہیں کہ اس کائنات پر صرف بڑی سرکار کا حکم چلتا ہے۔ کسی میں دم مارنے کی سکت نہیں۔ کوئی حکم عدولی نہیں کر سکتا۔ جو کرتا ہے، وہ بھی الله کی ایما پر کرتا ہے، میری کیا مجال تھی کہ میں حکم عدولی کرتا۔
صرف انسان واحد مخلوق ہے جسے حکم عدولی کی توفیق عطا کی گئی ہے۔ بڑی سرکاری کا لاڈلا ہے نا، اس لئے ہم فرشتے تو حکم کے پابند ہیں۔
ابلیس نے اپنے دوست سے کہا، آو میں تمہیں تماشا دکھاؤں.یہ سامنے چھوٹی سی بستی جو ہے،اسے دیکھو۔ حکم ہے کہ آج یہ بستی ختم ہو جائے گی۔ "
دوست نے دیکھا کہ بستی کے بازار میں حلوائی نے ایک بڑے سے چولہے پر کڑاہی رکھی ہوئی تھی جس میں چاشنی پک رہی تھی۔
ابلیس بولا، لو تماشا دیکھو۔ یہ کہ کر اس نے چاشنی سے ایک انگلی بھر کر اسے دیوار پر لگا دیا۔ چاشنی کی بو سونگھ کر مکھیاں آگئیں، مکھیوں کو دیکھ کر چھپکلی نے تاک لگی۔ کڑاہی کے قریب بلی بیٹھی تھی۔ بلی چھپکلی پر جھپٹی۔
اتفاق سے ایک فوجی ادھرآ نکلا۔ اس کے ساتھ شکاری کتا تھا. کتے نے بلی کو جھپٹتے دیکھ کر اسے جا دبوچا۔ بلی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور حلوائی کے کڑاہے میں جا گری۔
حلوائی کو غصہ آیا۔ اس نے کتے کو ایسا کفچہ مارا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ سپاہی نے حلوائی کو پکڑ کر مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔
اس پر محلے والے باہر نکل آئے اور انہوں نے سپاہی پر حملہ کر دیا۔ سپاہی کی پٹائی کی خبر لشکر میں پہنچی تو وہ گولہ بارود لے کر آگئے اور بستی کو تباہ کر دیا۔
یہ دیکھ کر ابلیس نے اپنے دوست سے کہا، دیکھا تم نے، میرا قصور صرف اتنا تھا کہ چاشنی کی انگلی دیوار پر لگائی. باقی بکھیڑا کس نے کیا؟ لیکن کرنے والے کا نام کوئی نہیں لیتا۔ لوگوں نے بس مجھے ہی نشانہ بنا رکھا ہے۔
ممتاز مفتی، تلاش
" کون سی والی؟" ابلیس نے پوچھا۔
بولے۔ انسان کو سجدہ نہ کیا۔ بڑی سرکار کی حکم عدولی کی۔ ابلیس ہنس کر کہنے لگا: "سبھی اس بھید کو جانتے ہیں،پھر بھی سبھی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔"
دوست نے پوچھا،" کس بھید کی بات کر رہے ہو؟"
ابلیس نے کہا،" سبھی جانتے ہیں کہ اس کائنات پر صرف بڑی سرکار کا حکم چلتا ہے۔ کسی میں دم مارنے کی سکت نہیں۔ کوئی حکم عدولی نہیں کر سکتا۔ جو کرتا ہے، وہ بھی الله کی ایما پر کرتا ہے، میری کیا مجال تھی کہ میں حکم عدولی کرتا۔
صرف انسان واحد مخلوق ہے جسے حکم عدولی کی توفیق عطا کی گئی ہے۔ بڑی سرکاری کا لاڈلا ہے نا، اس لئے ہم فرشتے تو حکم کے پابند ہیں۔
ابلیس نے اپنے دوست سے کہا، آو میں تمہیں تماشا دکھاؤں.یہ سامنے چھوٹی سی بستی جو ہے،اسے دیکھو۔ حکم ہے کہ آج یہ بستی ختم ہو جائے گی۔ "
دوست نے دیکھا کہ بستی کے بازار میں حلوائی نے ایک بڑے سے چولہے پر کڑاہی رکھی ہوئی تھی جس میں چاشنی پک رہی تھی۔
ابلیس بولا، لو تماشا دیکھو۔ یہ کہ کر اس نے چاشنی سے ایک انگلی بھر کر اسے دیوار پر لگا دیا۔ چاشنی کی بو سونگھ کر مکھیاں آگئیں، مکھیوں کو دیکھ کر چھپکلی نے تاک لگی۔ کڑاہی کے قریب بلی بیٹھی تھی۔ بلی چھپکلی پر جھپٹی۔
اتفاق سے ایک فوجی ادھرآ نکلا۔ اس کے ساتھ شکاری کتا تھا. کتے نے بلی کو جھپٹتے دیکھ کر اسے جا دبوچا۔ بلی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور حلوائی کے کڑاہے میں جا گری۔
حلوائی کو غصہ آیا۔ اس نے کتے کو ایسا کفچہ مارا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ سپاہی نے حلوائی کو پکڑ کر مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔
اس پر محلے والے باہر نکل آئے اور انہوں نے سپاہی پر حملہ کر دیا۔ سپاہی کی پٹائی کی خبر لشکر میں پہنچی تو وہ گولہ بارود لے کر آگئے اور بستی کو تباہ کر دیا۔
یہ دیکھ کر ابلیس نے اپنے دوست سے کہا، دیکھا تم نے، میرا قصور صرف اتنا تھا کہ چاشنی کی انگلی دیوار پر لگائی. باقی بکھیڑا کس نے کیا؟ لیکن کرنے والے کا نام کوئی نہیں لیتا۔ لوگوں نے بس مجھے ہی نشانہ بنا رکھا ہے۔
ممتاز مفتی، تلاش