سید زبیر
محفلین
ممتاز مفتی کی کتاب " تلاش " سے اقتباس
" ممتاز مفتی کی یاد میں"
" ہمیں چھوڑ جانے سے چند روز قبل ممتاز مفتی مجھ سے کہنے لگے ' یار عکسی ترے لوک ورثہ کا فائدہ'
'یار ! یاد رکھنا جب میں مر جاؤں تو دو شہنائیوں والے اور ایک ڈ ھول والے کو بلوا لینا اور گھر کے باہر خوب شادیانے بجانا۔خوشی منانا ۔وعدہ کر یار ایسا ہی کروگے '۔ والد سے کیا ہوا وعدہ تو میں نہ نبھا سکا لیکن آج اتنا ضرور عرض کروں گا کہ ہمیں ممتاز مفتی کا سوگ نہیں منانا چاہئیے بلکہ انہیں سیلیبریٹ کرنا چاہئے
So let us Celebrate MUMTAZ MUFTEE
He was a gift to all us from ALLAH
مجھے یہ زعم تھا کہ ممتاز مفتی کے تمام رفقاء کو ذاتی طور پر جانتا پہچانتا ہوں اور پھر ان میں سے بیشتر تو میرے دوست بھی ہیں لیکن یہ زعم ان کی وفات پر پاش پاش ہوگیا ۔سینکڑوں ہزاروں لوگ نہ جانے کہاں کہاں سے امڈ پڑے اچھے خاصے عمر رسیدہ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے کچھ چیخ چیخ کر پکار رہے تھے باپو !باپو ! میں یتیم ہوگیا ۔ میں حیرت سے ان سب کو دیکھ رہا تھا ۔یہ کون ہے ،کہاں سے آیا ہے ،یہ کیونکر یتیم ہوگیا ،میں سوچتا رہا ۔ میرا خیال تھا لوگ آئیں گے مجھے سہارا دیں گے ۔گلے لگائیں گے ،دلاسہ دیں گے ، غم بانٹیں گے الٹا مجھے ہ ن سب کا دکھ بانٹنا پڑ گیا اور وہ مولوی حضرات ، جنہوں نے 'لبیک' کے چھپنے پر مفتی جی کے خلاف فتوےٰ جاری کیا وہ کون ہے جو بیت المکرم کو کلال کوٹھا کہتا ہے اس کی یہ جسارت کہ حج کا تمسخر اڑائے کہ ' کو ٹھے والا مجھے آنکھیں مار رہا ہے ' ان ہی میں سے ایک مولانا ، ممتاز مفتی کے قلم کو اسلام کی تلوار سے تشبیہہ دینے لگے ۔ میں حیرت سے سنتا رہا ۔ اس موقع پر جیب کترے بھی پیچھے نہیں رہے ، جیب کتروں کا ایک پورا گروہ جنازے کے دوران ممتاز مفتی کے پرستاروں کو لوٹتا رہا ۔بہت سوں کی جیبیں کٹ گئیں ۔ ایک صاحب جن کی جیب کٹ چکی تھی فرمانے لگے ' کیا مذاق ہے ' ممتاز مفتی جاتے جاتے بھی ہاتھ دکھا گیا پاس ہی کھڑا احمد بشیر بولا جیب نہیں اپنا دل ٹٹولیں اور کہیں میں غلط کہہ رہا ہوں ممتاز مفتی جیب کتروں کو بھی کچھ دے گیا ممتاز مفتی کو بچپن سے اپنے گھر کے ماحول سے سخت نفرت تھی جب ان کے والد مفتی محمد حسین نے دوسری شادی کرلی تو ممتاز مفتی کی والدہ صغراں بی بی کی حیثیت گھر میں نوکرانی کے برابر رہ گئی ۔اپنے والد کے خلاف شدید غم و غصہ تھا ۔گھر چھوڑ کر چلے گئے کتنی ہی برس ، کئی سال بیت گئے والد مفتی محمد حسین نوے برس کو پہنچے لیکن ممتاز مفتی نہ ان سے ملے نہ کلام کیا ۔ وہ ویسے ہی اگر کبھی کسی سے روٹھ جاتے تو برسوں بات نہ کرتے بہت غصے والے تھے ، بڑی بڑی خطائیں معاف کر دیتے لیکن کسی چھوٹی سی بات پر روٹھ جایاکرتے ۔ ایف اے اور بی اے میں نگریزی امتحان میں ہمیشہ فیل ہوتے رہتے کہتے تھے تعلیم نے میرا کچھ نہیں بگاڑا لیککن بطور انگلش ٹیچر ملازم ہوگئے چالیس روپے تنخوہ پائی باپ انسپیکٹر آف سکولز تھا کسی نے یونہی چھیڑ دیا مفتی سفارشی ہے باپ نے کہلا بھیجا گھر واپس آجاؤ بس اسی دن سے اسکول سے استعفیٰ دے دیا نوکری چھوڑ کر چلے گئے شہر چھوڑ دیا ۔ممتاز مفتی باغی تھے والد ، گھر بار ،عزیز و اقارب سب کو چھوڑ چکے تھے کسی رشتہ دار کی جرأت نہ تھی کہ ممتاز مفتی کو ملے ۔مجھ سے بہت پیارکرتے تھے ۔جس قدر باپ سے نفرت تھی اسی قدر مجھ سے پیار تھا کہتے دیکھو اچھی ! نہ تمہار کوئی تایا ہے نہ پھوپھ ،نہ ماما ہے نہ چاچا ، بس ایک یں ہوں تمہارا ابا ۔ میں ہی تمہارا دوست ہوں اور میرے سب دوست بھی تمہارے دوست ہیں والد سے نفرت اب پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی اسی دور میں ممتاز مفتی نے گہما گہمی ،چپ اور اسمارائیں جیسا ادب تخلیق کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ممتاز مفتی بابوں اور خانقاہوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ۔ عقیدت کی دلدل میں دھنستے چلے گئے لیکن اس سفر مں قدرت اللہ شہاب سے ان کے گہرے مراسم یا خط و کتابت رہی آہستہ آہستہ ممتاز مفتی کی شدت مجذوبانہ رنگ اختیار کرتی گئی ممتاز مفتی مجذوب ہوگئے ۔شکر ہے خدا کا کہ پورے پورے مجذوب نہ ہوئے لیکن کسی درجے ، ایسے ہی جیسے نارنجی میں کچھ کچھ مالٹے کا ذا ئقہ ہوتا ہے ممتاز مفتی بھی ایک مجذوب تھا اسی دور میں ممتاز مفتی نے لبیک ، اور الکھ نگری جیسا ادب تخلیق کیا خانہ کعبہ کو کالا کوٹھا یا اللہ کو کوٹھے والے سے تشبیہہ دینا کسی مجذوب کی تحریر تو ہوسکتی ہے ہوشمند ادیب کی نہیں ۔ اور مجذوب ہی کو یہ قبولیت حاصل ہوتی ہے کہ وہ ایسی گستاخانہ باتیں لکھے اور صاف بچ نکلے ۔ آپ اور میں پورے ہوش میں ایسی تحریر نہیں لکھ سکتے پھر ایک دن قدر ت اللہ شہاب چل بسے ممتاز مفتی کے خواب ادھورے رہ گئے عقیدت کے وہ تانے بانے جو ممتاز مفتی نے قدرت کی ذات کے گرد بن رکھے تھے ٹوٹ گئے نئے محل وقوع نئے جہت ہو گئے وہ اجلی کرن پاکستان کا عروج جس کا ممتاز مفتی کو یقین تھا کہ وہ ان کی زندگی ہی میں حقیقت بن جائے گی بکھر کر رہ گئی ممتاز مفتی کا مداوا چھن گیا قدرت کے مرنے کے چند ہی سال بعد ممتاز مفتی کا محبوب بیٹا عکسی مفتی گھر چھوڑ کر چلا گیا ،عکسی نے دوسری شادی کرلی ۔ممتاز مفتی کو دوسری شادی سے چڑ تھی اس نے اپنے والد کو معاف نہیں کی تھا ۔بیٹا دوسری کرتے ہی گھر چھوڑ گیا تو ممتاز مفتی بالکل تنہا رہ گیا ، تن تنہا اس کی نفرت بے معنی ہو کر رہ گئی ۔اس کی موج در موج اور عقیدت کا نہ کوئی ساحل رہا نہ کنارہ ۔ وہ اکیلا تنہا
OLD MAN AND THE SEA
کی طرح چپو مار مار کر اپنی کشتی ٹھیلتا رہا اس میں اب بھی زندگی کی امنگ باقی تھی آخری سانس تک ممتاز مفتی کی آنکھوں میں چمک تھی قلم میں تلوار جیسی کاٹ تھی وہ علی پور کا ایلی تھا ہار ماننا اس کا شیوہ نہ تھا ۔۔۔"