اقتباسات ممتاز مفتی

نیلم

محفلین
ایک روز میں نے قدرت للہ سے پوچھا "یہ جو الله والے لوگ ہوتے ہیں‘ یہ عورت سے کیوں گھبراتے ہیں۔"
"زیادہ تر بزرگ تو عورتوں سے ملتے ہی نہیں۔ ان کے دربار میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے."
"یہ تو ہے." وہ بولے.
"سر راہ چلتے ہوئے کوئی عورت نظر آجائے تو گھبرا کر سر جھکا لیتے ہیں. ان کی اس گھبراہٹ میں خوف کا عنصر نمایاں ہوتا ہے. وہ عورت سے کیوں ڈرتے ہیں؟"
"شاید وہ اپنے آپ سے ڈرتے ہیں." قدرت نے کہا۔
"لیکن وہ تو اپنے آپ پر قابو پا چکے ہوتے ہیں‘ اپنی میں کو فنا کر چکے ہوتے ہیں."
"اپنے آپ پر جتنا زیادہ قابو پا لو اتنا ہی بے قابو ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے."
"آپ کا مطلب ہے شر کا عنصر کبھی پورے طور پر فنا نہیں ہوتا؟"
"شر کا عنصر پورے طور پر فنا ہو جائے تو نیکی کا وجود ہی نہ رہے۔ چراغ کے جلنے کے لئے پس منظر میں اندھیرا ضروری ہے۔"
"میں نہیں سمجھا. مجھے ان جملوں سے کتاب اور دانشوری کی بو آتی ہے۔"
"انسان میں جوں جوں نیکی کی صلاحیت بڑھتی ہے توں توں ساتھ ساتھ شر کی ترغیب بڑھتی ہے. شر کی ترغیب نہ بڑھے تو نیکی کی صلاحیت بڑھ نہیں سکتی."
"سیدھی بات کیوں نہیں کرتے آپ۔"
قدرت میری طرف دیکھنے لگے.
"کہ تمام قوت کا منبع شر ہے. نیکی میں قوت کا عنصر نہیں۔ الله کے بندوں کا کام ٹرانسفارمر جیسا ہے. شر کی قوت کا رخ نیکی کی طرف موڑ دو ."

( ممتاز مفتی ) "لبیک"
 

نیلم

محفلین
میں سوچتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو دو جہانوں کے بادشاہ تھے۔ ان کا چولہا ٹھنڈا کیوں رہتا تھا؟ وہ چٹائی پر کیوں سوتے تھے؟ اور ایک کچے مکان میں کیوں رہتے تھے۔ کھانے کے لیے ان کے چنگیر میں صرف دو کھجوریں ہوتی تھیں۔ کھانے لگتے تو دروازہ بجتا۔
‘‘میں بھوکا ہوں‘‘ اور وہ ایک کھجور سائل کو دے دیتے اور خود ایک ہی کھا لیتے۔ میں سوچتا ہوں آپ جو دو عالم کے بادشاہ تھے انہوں نے کیوں غربت کو منتخب کیا؟
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کم فہم‘ کم عقل یا کم علم تھے؟ پھر؟ اگر وہ عقلِ کل تھے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ غربت میں کوئی بڑی عظمت ہے۔ ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غربت منتخب نہ کرتے. عمامیت میں کوئی بڑی خوبی ہے ورنہ عمومیت کی زندگی بسر نہ کرتے۔ عام لوگوں جیسا لباس استعمال نہ کرتے۔ بوریا نشین نہ ہوتے اور ایک عام سے کچے مکان میں رہائش نہ رکھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ممتاز مفتی

تلاش سے اقتباس۔۔۔۔
 
ایک روز میں نے قدرت للہ سے پوچھا "یہ جو الله والے لوگ ہوتے ہیں‘ یہ عورت سے کیوں گھبراتے ہیں۔"
"زیادہ تر بزرگ تو عورتوں سے ملتے ہی نہیں۔ ان کے دربار میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے."
"یہ تو ہے." وہ بولے.
"سر راہ چلتے ہوئے کوئی عورت نظر آجائے تو گھبرا کر سر جھکا لیتے ہیں. ان کی اس گھبراہٹ میں خوف کا عنصر نمایاں ہوتا ہے. وہ عورت سے کیوں ڈرتے ہیں؟"
"شاید وہ اپنے آپ سے ڈرتے ہیں." قدرت نے کہا۔
"لیکن وہ تو اپنے آپ پر قابو پا چکے ہوتے ہیں‘ اپنی میں کو فنا کر چکے ہوتے ہیں."
"اپنے آپ پر جتنا زیادہ قابو پا لو اتنا ہی بے قابو ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے."
"آپ کا مطلب ہے شر کا عنصر کبھی پورے طور پر فنا نہیں ہوتا؟"
"شر کا عنصر پورے طور پر فنا ہو جائے تو نیکی کا وجود ہی نہ رہے۔ چراغ کے جلنے کے لئے پس منظر میں اندھیرا ضروری ہے۔"
"میں نہیں سمجھا. مجھے ان جملوں سے کتاب اور دانشوری کی بو آتی ہے۔"
"انسان میں جوں جوں نیکی کی صلاحیت بڑھتی ہے توں توں ساتھ ساتھ شر کی ترغیب بڑھتی ہے. شر کی ترغیب نہ بڑھے تو نیکی کی صلاحیت بڑھ نہیں سکتی."
"سیدھی بات کیوں نہیں کرتے آپ۔"
قدرت میری طرف دیکھنے لگے.
"کہ تمام قوت کا منبع شر ہے. نیکی میں قوت کا عنصر نہیں۔ الله کے بندوں کا کام ٹرانسفارمر جیسا ہے. شر کی قوت کا رخ نیکی کی طرف موڑ دو ."
کیا حکمت کی بات کہی سبحان اللہ
شریک محفل کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
( ممتاز مفتی ) "لبیک"
 
Top