مسٹر گرزلی
محفلین
(1)
ممتحن کا پان
عظیم بیگ چغتائی
ریل کے سفر میں اگر کوئی ہم مذاق مل جائے تو تمام راہ مزے سے کٹ جاتی ہے ۔ گو بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی بھی مل جائے تو وہ اس کے ساتھ وقت گزاری کر لیتے ہیں ، مگر جناب میں غیر جنس سے بہت گھبراتا ہوں اور خصوصاً جب وہ پان کھاتا ہو اب تو نہیں لیکن پہلے میرا یہ حال تھا کہ پان کھانے والے مسافر سے لڑائی تک لڑنے کو تیار ہو جاتا تھا ۔ اگر جیت گیا تو خیر ورنہ شکست کی صورت میں خود وہاں سے ہٹ جاتا تھا ۔ میں ایک بڑے ضروری کام سے دہلی سے آگرہ جا رہا تھا ۔ خوش قسمتی سے ایک بہت دلچسپ ساتھی غازی آباد سے مل گئے ۔ یہ ایک ہندو بیرسٹر کے لڑکے تھے اور ایم ایس سی میں پڑھتے تھے خورجہ کے اسٹیشن پر ایک صاحب اور وارد ہوئے یہ بھی ہم عمر ہونے کی وجہ سے ہماری ہی بنچ پر آئے اور بھی بہت سے لوگ آگئے اور منجملہ ان لوگوں کے میں نے نہایت بے کلی سے دیکھا ۔ ان میں ایک صاحب پان کھانے والے ہیں ۔ ان حضرت نے ہماری ہی طرف رخ کیا اور ادھر میں گھبرایا ۔ انہوں نے میری بنچ پر بیٹھنے کی نیت سے قلی سے اسباب میری طرف رکھوانا چاہا۔ آپ اس طرف نہایت آرام سے بیٹھ سکتے ہیں “ ۔ میں نے ایک کھچا کھچ اسباب اور مسافروں سے بھری ہوئی بنچ کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔ انہوں نے شاید اس کو بدتمیزی خیال کر کے برا مانتے ہوئے کہا ۔ ” جناب خود تکلیف کریں “ ” یہ جگہ گھری ہوئی ہے “ میں نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کج خلقی سے کہا مگر وہ اتنے میں اسباب رکھوا کر بیٹھ بھی چکے تھے ۔ میری طرف انہوں نے غور سے دیکھا … میں ان کی طرف نفرت نہیں بلکہ غصہ سے دیکھ رہا تھا کیونکہ مجھے پان کھانے والے سے اتنی نفرت نہیں ہوتی جتنا کہ اس پر غصہ آتا تھا ( اب بالکل نہیں آتا) یہ حضرت فاختی رنگ کی شیروانی پہنے ہوئے تھے ترکی ٹوپی تھی شاید چالیس یا پینتالیس برس کی عمر تھی کپڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ تھے ۔ ریل چلی تو میں اس فکر میں تھا کہ اب ضرور یہ اپنی ڈبیہ میں سے نکال کر پان کھائیں گے ۔ کیونکہ ان کی منھ کی رفتار سے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے پان اب ختم ہونے والا ہے اتنے میں میری نظر ان کے ہینڈ بیگ پر پڑی ۔ جس سے میں نے فوراً معلوم کر لیا کہ یہ حضرت کسی بیرسٹر صاحب کے منشی ہیں کیونکہ اس پر لکھا تھا ” ٹی ایچ بار ایٹ لاء“ میں اب نہ بداخلاق یا کج خلق ہوں اور نہ پہلے کبھی تھا مگر پان کھانے والے مسافروں سے مجھے چونکہ بغض تھا ۔ لہذا میں اب سوچ رہا تھا کہ ان کو یہاں سے کس طرح ہٹاؤں مگر تھوڑی ہی دیر میں اپنے دونوں ساتھیوں سے باتوں میں مشغول ہو گیا زیادہ دیر باتیں کرتے نہ گزری تھی کہ کھٹکا ہوا سگریٹ کیس کے کھٹکے اور پان کی ڈبیا کے کھٹکے میں زمین آسمان کا فر ق ہے ۔ حالانکہ ان کی طرف میری پشت تھی مگر میں جان گیا اور پان کی ڈبیا کا گیلا گیلا سرخ کپڑ ا میری نظر کے سامنے بغیر دیکھے ہی آگیا۔ مڑ کر دیکھا تو ان کے ہاتھ میں پان کا ایک ٹکڑا ہے ۔ اخلاقاً انہوں نے میرے سامنے پیش کیا ۔ یہ گویا تازیانہ ہو گیا ۔ میں نے جل کر کہا مجھے اس حماقت سے معاف کیجئے “۔میں نے دیکھا کہ اس جملہ نے کیا کام کیا ۔ مگر انہوں نے سوائے ایک سر کی جنبش کے زبان سے کچھ نہ کہا نہ تو میں شرمندہ تھا اور نہ مجھ کو افسوس تھا تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ انہوں نے کھڑکی کے باہر سر ڈال کر تھوکا ۔ میں نے مر کر برجستہ کہا قبلہ اگر یہ دھندا کرنا ہے تو براہ کرم دوسری جگہ تلاش کیجئے ۔ ” کیا فرمایا جناب نے ؟“ ’ ’میں نے یہ فرمایا کہ جناب یہ لال پچکاریاں کسی دوسری جگہ چھوڑیں “۔ انہوں نے نہایت ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا ” معاف کیجئے گا میں اس قسم کی گفتگو کا عادی نہیں “۔ ” اگر جناب ایسی گفتگو کے عادی نہیں تو میں بھی اس کا عادی نہیں ، کہ میرے پاس بیٹھ کر گندگی پھیلائیں …“ ” جناب آپ ذرا “ ” لاحول ولاقوة‘ ‘ میں نے بھی بات کاٹتے ہوئے کہا : ” ذرا غور تو کیجئے کہ بکری کی طرح پتے چبانا … قسم خدا کی “ ۔ میں نے اپنے ساتھی کو مخاطب کرکے کہا ۔ ” یہ چھالیا بھی خوب ہے ! گویا ایندھن یا لکڑی چبا رہے ہیں “ ۔ ناری غصہ کے ان حضرات کا منھ لال ہو گیا مگر نہایت ہی تحمل سے انہوں نے بالکل خاموش ہو کر میری طرف سے منھ موڑ لیا اور سنی ان سنی ایک کر دی ۔ ” آپ کو یہ نہیں چاہے تھا “ میرے ساتھی نے میری بداخلاقی کو دیکھتے ہوئے کہا ” میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ کو پان سے کتنی نفرت ہے “۔ ہمارے نئے ساتھی جو غازی آباد سے بیٹھے تھے عجب کہ کلاس فیلو نکلے ۔ انہوں نے بھی ایل ایل بی فائنل کا امتحان علی گڑھ سے دیا تھا اور میں نے بھی دیا تھا ایک دوسرے کو قطعی نہ جانتے تھے کیونکہ جماعت میں پونے دو سو لڑکے تھے اور رات کو لیکچر ہوتے تھے ۔ اتفاق کی بات نظر ایک دوسرے پر نہ پڑتی تھی یا اگر کبھی پڑی ہو گی تو خیال نہ رہا ہوگا دوسرے صاحب کو اس پر تعجب ہوا امتحان کا نتیجہ ابھی شائع نہ ہوا تھا۔ صرف پچیس دن امتحان کو گزارے تھے ۔ لامحالہ امتحان کا ذکر ہونے لگا ان کے سب پرچے اچھے ہوئے تھے اور میرے بھی سب پرچے اچھے ہوئے تھے گزشتہ سال وہ سکینڈ ڈویثرن میں پاس ہوئے تھے اور میں فرسٹ ڈویثرن میں پاس ہوا تھا اپنے پاس ہونے کا مجھ کو قطعی یقین تھا اور وہ حضرت کہنے لگے کہ ” جناب ! سکینڈڈویثرن تو آپ کی کہیں گئی ہی نہیں …“ یہ جملہ میرے لیے کس قدر خوشگوار تھا ؟ دل سے خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کہ تعلیم کی آخری منزل بھی ختم ہوئی کیونکہ مجھ کو اپنے پاس ہونے کا قطعی یقین تھا ۔ جس میں شبہ تک کی گنجائش نہ تھی ۔ تاوقتیکہ کوئی غیر معمولی واقعہ رجسٹر ار یونیورسٹی کے دفتر میں پیش نہ آجائے ہر پرچہ کا ذکر کیا گیا اور ہر پرچہ میں کتنے نمبر ملنے کی امید تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممتحن کا پان
عظیم بیگ چغتائی
ریل کے سفر میں اگر کوئی ہم مذاق مل جائے تو تمام راہ مزے سے کٹ جاتی ہے ۔ گو بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی بھی مل جائے تو وہ اس کے ساتھ وقت گزاری کر لیتے ہیں ، مگر جناب میں غیر جنس سے بہت گھبراتا ہوں اور خصوصاً جب وہ پان کھاتا ہو اب تو نہیں لیکن پہلے میرا یہ حال تھا کہ پان کھانے والے مسافر سے لڑائی تک لڑنے کو تیار ہو جاتا تھا ۔ اگر جیت گیا تو خیر ورنہ شکست کی صورت میں خود وہاں سے ہٹ جاتا تھا ۔ میں ایک بڑے ضروری کام سے دہلی سے آگرہ جا رہا تھا ۔ خوش قسمتی سے ایک بہت دلچسپ ساتھی غازی آباد سے مل گئے ۔ یہ ایک ہندو بیرسٹر کے لڑکے تھے اور ایم ایس سی میں پڑھتے تھے خورجہ کے اسٹیشن پر ایک صاحب اور وارد ہوئے یہ بھی ہم عمر ہونے کی وجہ سے ہماری ہی بنچ پر آئے اور بھی بہت سے لوگ آگئے اور منجملہ ان لوگوں کے میں نے نہایت بے کلی سے دیکھا ۔ ان میں ایک صاحب پان کھانے والے ہیں ۔ ان حضرت نے ہماری ہی طرف رخ کیا اور ادھر میں گھبرایا ۔ انہوں نے میری بنچ پر بیٹھنے کی نیت سے قلی سے اسباب میری طرف رکھوانا چاہا۔ آپ اس طرف نہایت آرام سے بیٹھ سکتے ہیں “ ۔ میں نے ایک کھچا کھچ اسباب اور مسافروں سے بھری ہوئی بنچ کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔ انہوں نے شاید اس کو بدتمیزی خیال کر کے برا مانتے ہوئے کہا ۔ ” جناب خود تکلیف کریں “ ” یہ جگہ گھری ہوئی ہے “ میں نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کج خلقی سے کہا مگر وہ اتنے میں اسباب رکھوا کر بیٹھ بھی چکے تھے ۔ میری طرف انہوں نے غور سے دیکھا … میں ان کی طرف نفرت نہیں بلکہ غصہ سے دیکھ رہا تھا کیونکہ مجھے پان کھانے والے سے اتنی نفرت نہیں ہوتی جتنا کہ اس پر غصہ آتا تھا ( اب بالکل نہیں آتا) یہ حضرت فاختی رنگ کی شیروانی پہنے ہوئے تھے ترکی ٹوپی تھی شاید چالیس یا پینتالیس برس کی عمر تھی کپڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ تھے ۔ ریل چلی تو میں اس فکر میں تھا کہ اب ضرور یہ اپنی ڈبیہ میں سے نکال کر پان کھائیں گے ۔ کیونکہ ان کی منھ کی رفتار سے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے پان اب ختم ہونے والا ہے اتنے میں میری نظر ان کے ہینڈ بیگ پر پڑی ۔ جس سے میں نے فوراً معلوم کر لیا کہ یہ حضرت کسی بیرسٹر صاحب کے منشی ہیں کیونکہ اس پر لکھا تھا ” ٹی ایچ بار ایٹ لاء“ میں اب نہ بداخلاق یا کج خلق ہوں اور نہ پہلے کبھی تھا مگر پان کھانے والے مسافروں سے مجھے چونکہ بغض تھا ۔ لہذا میں اب سوچ رہا تھا کہ ان کو یہاں سے کس طرح ہٹاؤں مگر تھوڑی ہی دیر میں اپنے دونوں ساتھیوں سے باتوں میں مشغول ہو گیا زیادہ دیر باتیں کرتے نہ گزری تھی کہ کھٹکا ہوا سگریٹ کیس کے کھٹکے اور پان کی ڈبیا کے کھٹکے میں زمین آسمان کا فر ق ہے ۔ حالانکہ ان کی طرف میری پشت تھی مگر میں جان گیا اور پان کی ڈبیا کا گیلا گیلا سرخ کپڑ ا میری نظر کے سامنے بغیر دیکھے ہی آگیا۔ مڑ کر دیکھا تو ان کے ہاتھ میں پان کا ایک ٹکڑا ہے ۔ اخلاقاً انہوں نے میرے سامنے پیش کیا ۔ یہ گویا تازیانہ ہو گیا ۔ میں نے جل کر کہا مجھے اس حماقت سے معاف کیجئے “۔میں نے دیکھا کہ اس جملہ نے کیا کام کیا ۔ مگر انہوں نے سوائے ایک سر کی جنبش کے زبان سے کچھ نہ کہا نہ تو میں شرمندہ تھا اور نہ مجھ کو افسوس تھا تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ انہوں نے کھڑکی کے باہر سر ڈال کر تھوکا ۔ میں نے مر کر برجستہ کہا قبلہ اگر یہ دھندا کرنا ہے تو براہ کرم دوسری جگہ تلاش کیجئے ۔ ” کیا فرمایا جناب نے ؟“ ’ ’میں نے یہ فرمایا کہ جناب یہ لال پچکاریاں کسی دوسری جگہ چھوڑیں “۔ انہوں نے نہایت ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا ” معاف کیجئے گا میں اس قسم کی گفتگو کا عادی نہیں “۔ ” اگر جناب ایسی گفتگو کے عادی نہیں تو میں بھی اس کا عادی نہیں ، کہ میرے پاس بیٹھ کر گندگی پھیلائیں …“ ” جناب آپ ذرا “ ” لاحول ولاقوة‘ ‘ میں نے بھی بات کاٹتے ہوئے کہا : ” ذرا غور تو کیجئے کہ بکری کی طرح پتے چبانا … قسم خدا کی “ ۔ میں نے اپنے ساتھی کو مخاطب کرکے کہا ۔ ” یہ چھالیا بھی خوب ہے ! گویا ایندھن یا لکڑی چبا رہے ہیں “ ۔ ناری غصہ کے ان حضرات کا منھ لال ہو گیا مگر نہایت ہی تحمل سے انہوں نے بالکل خاموش ہو کر میری طرف سے منھ موڑ لیا اور سنی ان سنی ایک کر دی ۔ ” آپ کو یہ نہیں چاہے تھا “ میرے ساتھی نے میری بداخلاقی کو دیکھتے ہوئے کہا ” میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ کو پان سے کتنی نفرت ہے “۔ ہمارے نئے ساتھی جو غازی آباد سے بیٹھے تھے عجب کہ کلاس فیلو نکلے ۔ انہوں نے بھی ایل ایل بی فائنل کا امتحان علی گڑھ سے دیا تھا اور میں نے بھی دیا تھا ایک دوسرے کو قطعی نہ جانتے تھے کیونکہ جماعت میں پونے دو سو لڑکے تھے اور رات کو لیکچر ہوتے تھے ۔ اتفاق کی بات نظر ایک دوسرے پر نہ پڑتی تھی یا اگر کبھی پڑی ہو گی تو خیال نہ رہا ہوگا دوسرے صاحب کو اس پر تعجب ہوا امتحان کا نتیجہ ابھی شائع نہ ہوا تھا۔ صرف پچیس دن امتحان کو گزارے تھے ۔ لامحالہ امتحان کا ذکر ہونے لگا ان کے سب پرچے اچھے ہوئے تھے اور میرے بھی سب پرچے اچھے ہوئے تھے گزشتہ سال وہ سکینڈ ڈویثرن میں پاس ہوئے تھے اور میں فرسٹ ڈویثرن میں پاس ہوا تھا اپنے پاس ہونے کا مجھ کو قطعی یقین تھا اور وہ حضرت کہنے لگے کہ ” جناب ! سکینڈڈویثرن تو آپ کی کہیں گئی ہی نہیں …“ یہ جملہ میرے لیے کس قدر خوشگوار تھا ؟ دل سے خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کہ تعلیم کی آخری منزل بھی ختم ہوئی کیونکہ مجھ کو اپنے پاس ہونے کا قطعی یقین تھا ۔ جس میں شبہ تک کی گنجائش نہ تھی ۔ تاوقتیکہ کوئی غیر معمولی واقعہ رجسٹر ار یونیورسٹی کے دفتر میں پیش نہ آجائے ہر پرچہ کا ذکر کیا گیا اور ہر پرچہ میں کتنے نمبر ملنے کی امید تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔