عدیل منا
محفلین
میں نے کب کی ہے ترے کاکل و لب کی تعریف
میں نے کب لکھے قصیدے ترے رخساروں کے
میں نے کب ترے سراپا کی حکایات کہیں
میں نے کب شعر کہے جھومتے گلزاروں کے
جانے دو دن کی محبت میں یہ بہکے ہوئے لوگ
کیسے افسانے بنا لیتے ہیں دلداروں کے
میں کہ شاعر تھا، میرے فن کی روایت تھی یہی
مجھ کو اک پھول نظر آئے تو گلزار کہوں
مسکراتی ہوئی ہر آنکھ کو قاتل جانوں
ہر نگاہِ غلط انداز کو تلوار کہوں
میری فطرت تھی کہ میں حسنِ بیان کی خاطر
ہر حسین لفظ کو در مدحِ رخِ یار کہوں
میرے دل میں بھی کھِلے ہیں چاہت کے کنول
ایسی چاہت کہ جو وحشی ہو تو کیا کیا نہ کرے
مجھے گر ہو بھی تو کیا زعمِ طوافِ شعلہ
تو وہ شمع ہے کہ پتھر کی بھی پرواہ نہ کرے
میں نہیں کہتا کہ تجھ سا ہے نا مجھ سا کوئی
ورنہ شوریدگئ شوق تو دیوانہ کرے
کیا یہ کم ہے کہ ترے حسن کی رعنائی سے
میں نے وہ شمعیں جلائی ہیں کہ مہتاب نثار
تیرے پیمانِ وفا سے میرے فن نے سیکھی
وہ دل آویز صداقت کہ کئی خواب نثار
تیرے غم نے میرے وجدان کو بخشی وہ کسک
میرے دشمن، میرے قاتل، میرے احباب نثار
میں کسی غم میں بھی رویا ہوں تو میں نے دیکھا
تیرے غم سے کوئی مجروح نہیں تیرے سوا
میرے پیکر میں تیری ذات گھلی ہے اتنی
کہ میرا جسم، میری روح نہیں تیرے سوا
میرا موضوعِ سخن تُو ہو کہ ساری دنیا
درحقیقت کوئی "ممدوح" نہیں تیرے سوا