پاکستانی
محفلین
پیغمبراعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا تیرھواں سال تھا کہ مدنیے سے پچھتر لوگ اپنے قبائل کے مشورے سے آپ سے بیعت ہونے اور آپ کو مدنیے میں آباد ہونے کی دعوت دینے کے لئے مکہ آئے۔ ملاقات منٰی میں رات کے وقت طے پائی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو مکے اور مدنیے کے غیر مسلموں سے پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔ آپ اپنے چچا حضرت عباس کے ساتھ ملاقات کی جگہ پر پہنچ گئے۔ گفتگو شروع ہوئی اور مدنیے کے مسلمان بیعت ہونے لگے تو حضرت عباس جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے کھڑے ہو گئے اور مدنیے کو لوگوں سے فرمایا ‘ٹھہرو! پہلے میری بات سن لو۔ تمہیں معلوم ہے کہ قریشِ مکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن ہیں۔ اگر تم ان سے کوئی عہد و پیماں کرنے لگے ہو تو یہ سمجھ کر کرنا کہ یہ بڑا نازک اور مشکل کام ہے۔ ان سے عہد و اقرار کرنے سے ہر سرخ و سیاہ (یعنی باقی تمام دنیا سے) لڑائیوں کو دعوت دو گے۔ ہم ان کے لئے سینہ سپر رہے ہیں۔ اگر تم بھی ان کو اپنی جانوں، اولادوں اور مالوں سے زیادہ عزیز رکھ سکو تو بہتر ورنہ ابھی جواب دے دو۔ جو اقدام بھی کرو سوچ سمجھ کر کرو ورنہ بہتر ہے کچھ نہ کرو‘ حضرت عباس کے خطاب کے بعد کچھ باتیں ہوئین اور مدنیے والے بیعت کو تیار ہوئے تھے کہ ان میں سے حضرت سعد بن ضرار کھڑے ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہا ‘بھائیو! یہ بھی خبر ہے کہ کس چیز پر بیعت کر رہے ہو؟ یہ عرب و عجم اور جن او انس کے خلاف جنگ ہے۔‘ سب نے جواب دیا ‘ہاں ہم اسی چیز پر بیعت کر رہے ہیں‘ مختصرا یہ کہ کسی عربی یا عجمی مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان مٹھی بھر بے سروسامان لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت کو تسلیم کر لیا اور ان کے ساتھ جینے اور مرنے کا عہد کیا۔ تاریخی عمل شاہد ہے کہ ان مٹھی بھر لوگوں کو متحارب قوتوں نے صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے بےتحاشہ انفرادی و اجتماعی کوششیں کیں مگر ربِ رحمٰن کے فضلِ فراواں سے کوئی کوشش بارآور نہ ہو سکی اور ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔
مخصوص نظریات کے حامل یہ چند لوگ، تمام مخالفوں کے باجود، ایک قوم میں ڈھلتے گئے۔ اس قوم کو اپنے اعتقادات و ایمانیات اور افکار جلیلہ و محرکہ کے مطابق ایک علیحدہ ریاست کی ضرورت محسوس ہوئی، جو اَن تھک جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کر لی گئی۔ یہ ریاست مدنیہ تھی جو تاریخ عالم میں پہلی مرتبہ، روایات دنیا کے برعکس، ایک قوم کے وجود میں آنے کے بعد معرض وجود میں آئی۔ اس ریاست میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا کام جو کیا وہ رب رحمٰن کے حکم کے مطابق صلٰواۃ ، زکواۃ، امربالمعروف و نہی عن المنکر کی بنیادوں پر اسلامی معاشرے کا قیام تھا، جس میں حکومتِ الہیہ کا سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا۔
دینِ اسلام کے احکام و قوانین، ہدایت و تعلیمات اور افکار جلیلہ و محرکہ کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدیوں سے تضاد و تخالف کے شکار اور باہم برسرپیکار عرب کے وحشی و جنگجو قبائل باہم شیروشکر ہو گئے۔ علاوہ ازیں اخوت و محبت اور وحدت و یکجہتی میں ڈھل کر ایک مہذب و ترقی یافتہ قوم بن گئے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اس قوم نے دیکھتے دیکھتے اقوام عالم کی قیادت سنبھال لی۔
چودہ صدیوں کے بعد ایک بار پھر اپنے اعتقادات و ایمانیات کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ ہوا، جس کے نتیجہ میں ایک ریاست وجود میں جو ‘مملکت اسلامیہ پاکستان‘ کے نام سے موسوم ہوئی۔ مسلمانوں علیحدہ وطن حاصل کر کے اسلام کے دشمنوں کو دعوت آزار تو دے دی لیکن اپنے اعتقادات و ایمانیات اور افکار جلیلہ و محرکہ کو اپنی زندگی کا جزولاینفک نہ بنا سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نصف صدی گزرنے کے بعد ہم ایک ترقی یافتہ قوم بننے کی نجائے ذلت و مسکنت کا شکار ہو گئے۔
انگریزی محاورے It is never too late کے مصداق ابھی وقت ہے کہ ہم نظامِ اسلام میں پورے پورے داخل ہو کر ایک ترقی یافتہ قوم بن کر ابھر آئیں اور اقوام عالم کی قیادت کرنے لگیں۔ یہ رب رحمٰن کا وعدہ ہے اور وہ کبھی وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔
مخصوص نظریات کے حامل یہ چند لوگ، تمام مخالفوں کے باجود، ایک قوم میں ڈھلتے گئے۔ اس قوم کو اپنے اعتقادات و ایمانیات اور افکار جلیلہ و محرکہ کے مطابق ایک علیحدہ ریاست کی ضرورت محسوس ہوئی، جو اَن تھک جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کر لی گئی۔ یہ ریاست مدنیہ تھی جو تاریخ عالم میں پہلی مرتبہ، روایات دنیا کے برعکس، ایک قوم کے وجود میں آنے کے بعد معرض وجود میں آئی۔ اس ریاست میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا کام جو کیا وہ رب رحمٰن کے حکم کے مطابق صلٰواۃ ، زکواۃ، امربالمعروف و نہی عن المنکر کی بنیادوں پر اسلامی معاشرے کا قیام تھا، جس میں حکومتِ الہیہ کا سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا۔
دینِ اسلام کے احکام و قوانین، ہدایت و تعلیمات اور افکار جلیلہ و محرکہ کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدیوں سے تضاد و تخالف کے شکار اور باہم برسرپیکار عرب کے وحشی و جنگجو قبائل باہم شیروشکر ہو گئے۔ علاوہ ازیں اخوت و محبت اور وحدت و یکجہتی میں ڈھل کر ایک مہذب و ترقی یافتہ قوم بن گئے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اس قوم نے دیکھتے دیکھتے اقوام عالم کی قیادت سنبھال لی۔
چودہ صدیوں کے بعد ایک بار پھر اپنے اعتقادات و ایمانیات کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ ہوا، جس کے نتیجہ میں ایک ریاست وجود میں جو ‘مملکت اسلامیہ پاکستان‘ کے نام سے موسوم ہوئی۔ مسلمانوں علیحدہ وطن حاصل کر کے اسلام کے دشمنوں کو دعوت آزار تو دے دی لیکن اپنے اعتقادات و ایمانیات اور افکار جلیلہ و محرکہ کو اپنی زندگی کا جزولاینفک نہ بنا سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نصف صدی گزرنے کے بعد ہم ایک ترقی یافتہ قوم بننے کی نجائے ذلت و مسکنت کا شکار ہو گئے۔
انگریزی محاورے It is never too late کے مصداق ابھی وقت ہے کہ ہم نظامِ اسلام میں پورے پورے داخل ہو کر ایک ترقی یافتہ قوم بن کر ابھر آئیں اور اقوام عالم کی قیادت کرنے لگیں۔ یہ رب رحمٰن کا وعدہ ہے اور وہ کبھی وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔