محمد قمر شفیق
محفلین
تیری رحمتوں کا نہیں کچھ شمار
اک ادنٰی سیِ قدرت ترِی آشکار
کیے کُن سے عالم اٹھارہ ہزار
ہے زیبا تجھے اکبری سروری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
تیری ذات ہے تو ہے غفوررحیم
مرضِ لادوا کا تو ہی ہے حکیم
ہمیشہ سے ہے اور رہے گا قدیم
تجھی کو کہیں ہم سمیع و علیم
تجھے علم ہے باطنی ظاہری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
تیرے حکم بِن برگ جنبش نہ کھا
جگہ سے کہیں ہل کہ ذرا نہ جا
تیرے حکم سے مینہ برسنے لگا
ہوئی باغ دنیا کی جس سے فضا
کرے خشک کھیتی کو پل میں ہری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
زمیں کا کیا تو نے عجز قبول
ہوئے اس پے ظاہر رسولﷺ
یہاں تک دیا ان کے رُتبے کو طول
کہ لولاک ہے جن کی شانِ رسول
عطا ان کو مہرِ نبوت کری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
کسی کو کیا انبیاء ، اولیاء
کسی کو دیا عہدہ ابدال کا
کسی کو قطب سے و قلندر کیا
کسی کو دیا مرتبا غوث کا
کسی کو عطا کی ہے پیغمبری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
لیا حضرت آدمؑ نے گندم کو کھا
بہشتوں سے باہر ملی ان کو جا
رہے بی بی حوا سے مدت جدا
کیا بابِ رحمت کا پھر ان کے وا
ملاقات دونوں کی باہم کری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
گرایا جو بھائیوں نے یوسفؑ کو جا
انہوں نے چاہی ادھر تیری ہی پناہ
محافظ رہا ان کا شام و پگاہ
کیا پھر ان کو مصر کا بادشاہ
ہوئی د ن بدن انکی بہتری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
ہوئے غم میں جب یعقوب ؑ مبتلا
کیا انکو یوسف ؑ سے جِس دم جدا
ہوا انکا اُس دم تو ہی رہنماء
دیا بعد مددت اُن کو ملا
کرم کی گھڑی اُنپے عائد کری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
اِس غم میں یعقوب ؑ گریہ کناں
رہے اک مددت تلک خونفشاں
ولیکن نہ پایا پسر کا نشاں
کیا رازِ پنہاںیہ اُن پے عیاں
خبر اُن پے یوسف ؑ کی ظاہر کری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
زلیخا کا فاسد ہوا جب خیال
تو اُسنے بچھا کر فریبوں کا جال
یہ چاہا کرے یوسفؑ مجھ پے وصال
لیاصاف اُنکو خلل سے نکال
مقفل تھے وہ ساتویں کوٹھڑی
میری بار کیوں دیر اتنی کری
انگوٹھی سلیمانؑ کی گم ہو گئی
جو بہت تھی شاہی سب جاتی رہی
کہ فرمان انکا نا ما نے کوئی
وہاں اک قدرت دکھائی نئی
ملی شکمِ ماہی سے وہ انگشتری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
ہوئے جب داؤدؑ غم میں مبتلا
کفِ دست میں موم لوہا کیا
تیرے حکم کی کچھ نہیں انتہا
جو چاہے کر لے جو چاہے کیا
ہے دور از سمجھ تیری کاریگری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
ترا نام عیسٰیؑ نے جس دم لیا
دیا قبرِ کہنہ سے مُردہ جِلا
یہی وقت موسٰیؑ پہ عائد ہوا
عصا سے شجر اک دکھایا گیا
ملا پھل تیری یاد جس نے کری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
لیا صبر ایوبؑ کا امتحان
کیاجسم کو کیڑوں نے چھلنی وہاں
کدورت کا پایا نہ نام و نشاں
رہا تیرا ہی شکر وردِ زباں
رفع اُنکی تکلیف پَل میں کری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
پڑے جب آگ میں حضرت خلیلؑ
پکارا اُنہوں نے کہ اے ربِ جلیل
کیا آگ کوباغِ بستاں جمیل
ہوا فضل بس ترا ہی اُنکا کفیل
وہ آتش جو دیکھی باغ باری کری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
پڑی اُمتِ نُوحؑ پر جب بلا
گیا ڈوب وہ جسکو تھا ڈوبنا
بچایااسے جسکو منظور تھا
اسے غرق مطلق نہ ہونے دیا
دکھائی وہاں تو نے صنعت گری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
زمانے میں تھا حضور کے اک بشر
برے کام کرتا تھا شام و سحر
مگر عجز ا سکا ہوا دادگر
مرا جب اُس پہ ہوئی تیری نظر
نمازاُسکی حضرت نے جا پڑہی
میری بار کیوں دیر اتنی کری
تیرا نام ستار و غفار ہے
یہ بندہ تیرا سراسر گنہ گارہے
مِری ناؤ ہے اور منجدھار ہے
تو اسکا پار کرنہار ہے
یہ حالت مِری بھلی ہے یا بُری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
تیری ذات میں کب ہو چوں چراں
تیرے بِن نہیں کوئی دوسرا
وسیلہ ہے لا تقنٰطو کی صدا
تیرے گھر کا سائل ہے ہر شاہ و گدا
ہر اک کی دعا تونے پوری کری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
تیری حمد کیا کر سکے بے زباں
ٖٖثناء خواں ہیں تیرے سب اِنس و جاں
تو خالق ہے خالقِ دو جہاں
تو عیب پوش اور تو ہی عیب داں
تجھی کو معلوم کھوٹی کھری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
گئی جبکہ یونسؑ کو ماہی نگل
نہ کام آیا اُس وقت کوئی عمل
بتایا اُسے اپنا نام برمحل
نکالا بلا حین و حرکت خلل
وہاں توہوئی یہ کرم گشتری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
گناہوں کا مجھ پے ہے بادالم
تجھ کو ہے پیدا کیے کی شرم
یہی التجا ہے میری د م بدم
کہ ہوں دور سب مجھ سے دُنیاکے غم
نہ ہومیری دُنیا میں پردہ گری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
یہ عاصی کی ہے اب تجھ سے دُعا
کہ ظاہر ہے تجھ پے میرا مدعا
بحقِ نبیؐ شاہِ خیر الورایٰ
دلا اپنے در سے میر امدعا
ہوں لاچار اُمیدتجھ پے دھری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
تو ادنٰی کو چاہے تو اعلٰی کرے
تو اعلٰی کو چاہے تو ادنٰی کرے
یہ بندہ کہاں دھرے تجھ بِن دھرے
سوا تیرے کسی کو نا کچھ سرے
کرے پَل میں ہل تو ہی مشکل اڑی
میری بار کیوں دیر اتنی کری
زمانے پہ ہے رحمت تیری کا نزول
ولیکن میں ہوں رنج و غم میں ملول
یا الٰہی بحقِ محمدﷺرسول
دعا مجھ گناہگار کی کر قبول
تو ہی اکبری تو ہی سرو ری
میری بار کیوں دیر اتنی کری