مناظر ِ سحر
کیا روح فزا جلوۂ رخسار ِ سحر ہے
کشمیر دل زار ہے فردوس نظر ہے
ہر پھول کا چہرہ عرقِ حسن سے تر ہے
ہر چیز میں اک بات ہے ہر شے میں اثر ہے
ہر سمت بھڑکتا ہے رُخِ حُور کا شعلہ
ہر ذرّۂ ناچیز میں ہے طور کا شعلہ !
لرزش وہ ستاروں کی وہ ذرّوں کا تبسّم
چشموں کا وہ بہنا کہ فدا جن پر ترنّم
گردوں پہ سپیدی و سیاہی کا تصادم
طوفان وہ جلووں کا وہ ، نغموں کا تلاطم !!
اڑتے ہوئے گیسو وہ نسیم سحری کے
شانوں پہ پریشاں ہیں یا بال پری کے
وہ پھیلنا خوشبو کا وہ کلیوں کا چٹکنا
وہ چاندنی مدہم ، وہ سمندر کا جھلکنا
وہ چھاؤں میں تاروں کی گلِ تر کا مہکنا
وہ جھومنا سبزہ کا ، وہ کھیتوں کا لہکنا
"شاخوں سے ملی جاتی ہیں شاخیں وہ اثر ہے
کہتی ہی نسیمِ سحری "عیدِ سحر ہے "
خنکی وہ بیاباں کی وہ رنگینئ صحرا
وہ وادی سرسبز وہ تالاب مُصفّا
پیشانئ گردوں پہ وہ ہنستا ہوا تارا
وہ راستے جنگل کے وہ بہتا ہوا دریا
ہر سمت گلستاں میں وہ انبار گلوں کے
شبنم سے وہ دھوئے ہوئے رخسار گلوں کے
وہ روح میں انوار خدا صبح و صادق
وہ حسن جسے دیکھ کے ہر آنکھ ہو عاشق
وہ سادگی انسان کی فطرت کے مطابق
زرّیں وہ افق نور سے لبریز وہ مشرق
وہ نغمہ داؤد پرندوں کی صدا میں
پیراہن یوسف کی وہ تاثیر ہوا میں
وہ برگِ گلِ تازہ ، وہ شبنم کی لطافت
اک حسن سے وہ خندۂ سامانِ حقیقت
وہ جلوۂ اصنام وہ بت خانے کی زینت
زاہد کا وہ منظر ، وہ برہمن کی صباحت
ناقوس کے سینے سے صدائیں وہ فغاں کی
وہ حمد میں ڈوبی ہوئی آواز آذاں کی
آقا کا غلاموں سے یہ ہے قرب کا ہنگام
دل ہوتے ہیں سرشار فنا ہوتے ہیں آلام
چھا جاتی ہے رحمت تو برس پڑتے ہیں انعام
اس وقت کسی طرح مناسب نہیں آرام
رونے میں جو لذّت ہے تو آہوں میں مزا ہے
اے رُوح ! "خودی" چھوڑ کہ نزدیک "خدا " ہے
حضرتِ جوش ملیح آبادی
روح ادب
26-27
کیا روح فزا جلوۂ رخسار ِ سحر ہے
کشمیر دل زار ہے فردوس نظر ہے
ہر پھول کا چہرہ عرقِ حسن سے تر ہے
ہر چیز میں اک بات ہے ہر شے میں اثر ہے
ہر سمت بھڑکتا ہے رُخِ حُور کا شعلہ
ہر ذرّۂ ناچیز میں ہے طور کا شعلہ !
لرزش وہ ستاروں کی وہ ذرّوں کا تبسّم
چشموں کا وہ بہنا کہ فدا جن پر ترنّم
گردوں پہ سپیدی و سیاہی کا تصادم
طوفان وہ جلووں کا وہ ، نغموں کا تلاطم !!
اڑتے ہوئے گیسو وہ نسیم سحری کے
شانوں پہ پریشاں ہیں یا بال پری کے
وہ پھیلنا خوشبو کا وہ کلیوں کا چٹکنا
وہ چاندنی مدہم ، وہ سمندر کا جھلکنا
وہ چھاؤں میں تاروں کی گلِ تر کا مہکنا
وہ جھومنا سبزہ کا ، وہ کھیتوں کا لہکنا
"شاخوں سے ملی جاتی ہیں شاخیں وہ اثر ہے
کہتی ہی نسیمِ سحری "عیدِ سحر ہے "
خنکی وہ بیاباں کی وہ رنگینئ صحرا
وہ وادی سرسبز وہ تالاب مُصفّا
پیشانئ گردوں پہ وہ ہنستا ہوا تارا
وہ راستے جنگل کے وہ بہتا ہوا دریا
ہر سمت گلستاں میں وہ انبار گلوں کے
شبنم سے وہ دھوئے ہوئے رخسار گلوں کے
وہ روح میں انوار خدا صبح و صادق
وہ حسن جسے دیکھ کے ہر آنکھ ہو عاشق
وہ سادگی انسان کی فطرت کے مطابق
زرّیں وہ افق نور سے لبریز وہ مشرق
وہ نغمہ داؤد پرندوں کی صدا میں
پیراہن یوسف کی وہ تاثیر ہوا میں
وہ برگِ گلِ تازہ ، وہ شبنم کی لطافت
اک حسن سے وہ خندۂ سامانِ حقیقت
وہ جلوۂ اصنام وہ بت خانے کی زینت
زاہد کا وہ منظر ، وہ برہمن کی صباحت
ناقوس کے سینے سے صدائیں وہ فغاں کی
وہ حمد میں ڈوبی ہوئی آواز آذاں کی
آقا کا غلاموں سے یہ ہے قرب کا ہنگام
دل ہوتے ہیں سرشار فنا ہوتے ہیں آلام
چھا جاتی ہے رحمت تو برس پڑتے ہیں انعام
اس وقت کسی طرح مناسب نہیں آرام
رونے میں جو لذّت ہے تو آہوں میں مزا ہے
اے رُوح ! "خودی" چھوڑ کہ نزدیک "خدا " ہے
حضرتِ جوش ملیح آبادی
روح ادب
26-27