کاشفی

محفلین
موت کی آغوش میں‌جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں‌جا کر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں
 

کاشفی

محفلین
حمد
(جناب محسن نقوی شہید)
تمام حمد ہے اُس خالقِ ازل کے لئے
سکون جھیل کو دیتا ہے جو کنول کے لئے
میں اُن کے نام سے کرتا ہوں ابتدائے کلام
وہ جن کے نام فرشتوں نے بھی سنبھل کے لئے
 

کاشفی

محفلین
سرِ مسندِ خلافت کوئی بد شعار ہوتا
نہ حسینؑ سر کٹاتے تو یہ بار بار ہوتا

یہ صدا اگر نہ آتی کہ حسینؑ بس کرو بس
تو وہیں پہ سارا لشکر تہہ ذوالفقار ہوتا

دعا دے کہ کربلا کو کہا بار بار حُر نے
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

وہ ہوئی تمام غیَبت وہ امام آرہے ہیں
اگر اور جیتے رہتے یہ ہی انتظار ہوتا

غمِ شہؑ بنام بدعت یہ وہ تیر نیم کش ہے
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

کیا استغاثہ شہؑ نے تو تڑپ کے بولیں لاشیں
یوں ہی بار بار مرتے اگر اختیار ہوتا

(انظار سیتاپوری)

 

کاشفی

محفلین
لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ
کی لازوال درسگاہ حسینؑ ہے
نہ جس کی کوئی نذیر ہے
نہ جس کی کوئی مثال ہے
وہ بے مثال شہنشاہ حسینؑ ہے

حسینؑ لا الہ کی زندگی
حسینؑ انبیاء کی بندگی
لا الہ سے پوچھ لو
کہ ساری کائنات میں
صرف بنائے لاالہ حسینؑ ہے

تڑپ چکی شبیہہ مصطفٰیؑ
مگر حسینؑ ہی ڈٹا ہوا
پسر ہے نوجوان کی
ہے دھوپ میں پڑا ہوا
یہ وہ خلیلِ کربلا حسینؑ ہے

اپنے خون کا غسل ملا
کفن ہے جس کا خاکِ کربلا
کفن بہن نہ کر سکی
ہے دھوپ میں پڑا رہا
یہ وہ غریبِ کربلا حسین ہے

پڑی ہیں رن میں لاش جا بجا
جلے خیام کچھ بھی نہ بچا
حرم کے سر سے چھین لیں
یزیدیوں نے چادریں
یوں کربلا میں لٹ گیا حسینؑ ہے

حرم میں حشر کا سماں ہوا
پھپھی سے جب سکینہؑ نے کہا
مجھے نہ نیند آتی ہے
میں سوؤں کِس کے سینے پر
کہاں چلا گیا میرا حسینؑ ہے

اے ہاشمی جوانوں کیا ہوا
کہاں چلے گئے ہو با وفا
صدا یہ فاطمہؑ کی تھی
کہ رن میں کوئی بھی نہیں
اکیلا رہ گیا میرا حسینؑ ہے


حسینؑ روحِ کائنات ہے
حسینؑ فخرِ معجزات ہے
خدا نے جس کو مرحبا
ہے نفسِ مطئمن کہا
وہ کربلا کا مصطفٰی حسینؑ ہے

حسینؑ دین کا شباب ہے
حسینؑ درسِ انقلاب ہے
کفن کے بند کھول کر
بلایا جس کو ماں نے خود
وہ فاطمہؑ کا لاڈلا حسینؑ ہے
 

کاشفی

محفلین
منقبت
جب نبی قافلہ روک کر اُن میں سب کو بلانے لگے
کچھ صحابی ہوئے غمزدہ، مرتضیٰ مسکرانے لگے
 

کاشفی

محفلین
نعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یہ اسلام کیا ہے، عطائے محمد
ہے قرآن مدحت ثنائے محمد
 

کاشفی

محفلین
اصحاب تھے کیا بوذر و سلمان وغیرہ
(پروفیسر سبطِ جعفر شہید)
اصحاب تھے کیا بوذر و سلمان وغیرہ
جو بن گئے اسلام کی پہچان وغیرہ

اعلان انوکھا ہے تو منبر بھی ہو ویسا
منگوائے گئے اس لیے پالان وغیرہ

بخِاً کہا، مولا کہا، لولاک کہا پھر بھی
ہیں منحرف و منکرو انجان وغیرہ

حیدر سے مدد مانگتے ہیں دعویٰ تھا جن کا
ہم غیر کا لیتے نہیں احسان وغیرہ

جھٹلاتے ہیں جو فاطمہ حسنین و علی کو
تھے ان سے تو بہتر بنو نجران وغیرہ

مولا ہے میرا نار و جناں بانٹنے والا
پہچانتے ہیں مالک و رضوان وغیرہ

مولا کی زیارت کے مراکز ہیں یقینی
مؤمن کے لیے تُربت و میزان وغیرہ

ہیں آلِ محمد کے ثنا خوانوں میں شامل
سب جِن و مَلک قدسی و غِلمان وغیرہ

اللہ ہو جِبریل ہو رازی ہو کہ سِبطِ
جعفر ہوں فرزدق ہوں کہ حسان وغیرہ
(سبطِ جعفر شہید)
 
Top