منشی شمس الدین اعجاز رقم
فنِ خطاطی کے باکمال استاد ، نقاد اور مبلغ
(خورشید عالم گوہر قلم)
پھول بچو! برصغیر پاک و ہند میں ایسے ایسے باکمال خطاط گزرے ہیں جو ہمیشہ فن خطاطی کی تاریخ میں روشن ستاروں کی طرح جگمگاتے رہیں گے۔انہیں آج بھی دنیا بھر میں ایک استاد کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے فنی شاہکار دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈالتے رہیں گے۔ انہی باکمال اساتذہ میں منشی شمس الدین اعجاز رقم بھی شامل تھے۔ اعجاز رقم کا وطن لکھنو تھا اور وہ مولانا عبد الحلیم شرر کے معاصر تھے اور خطِ نستعلیق کے نہایت ماہر استاد تھے۔ آپ کا خطاطی کے میدان میں آنے کا واقعہ بہت دلچسپ ہے۔ ابتدا میں وہ بے پروا تھے اور سکول کے زمانے میں ان کا خط زیادہ بہتر نہیں تھا اور ان کے اساتذہ اس وجہ سے اُن سے عموما ناراض رہا کرتے تھے۔ ایک دن ان کے ایک استاد نے ازراہ مذاق کہا کہ "لگتا ہے کہ تمہار خط ، خطاطی کا شکار ہے"
منشی صاحب نے اس بات کو بہت محسوس کیا اور خطاطی کے فن پر بھر پور توجہ دینے کے لیے منشی ہادی علی خوشنویس کے ہاں جا پہنچے۔ منشی صاحب نے شمس الدین کو کچھ لکھنے کے لیے کہا۔ جب شمس الدین نے لکھا تو منشی صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ:
"میاں! مجھے تو تربیت دینے کا کوئی انکار نہیں ہے مگر شاید تم کبھی بھی اس میدان میں آگے نہ بڑھ سکو" اس بات کو سن کر شمس الدین نے برجستہ کہا کہ:
"آپ راہنمائی فرمائیں میں اپنی پوری ہمت لگا دوں گا"
پیارے بچو! اس دن کے بعد اعجاز رقم نے دن رات ایک کر دیا اور صرف ایک سال کے مختصر عرصے میں ان کی تحریر میں ایسا خوبصورت انداز پیدا ہوا کہ مدرسہ کے اساتذہ اور دیگر لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ تحریر شمس الدین کی ہے۔ شمس الدین نے اتنی محنت کی کہ آخر ان کے استاد صاحب نے انہیں "اعجاز رقم" کا خطاب دیا۔
شمس الدین اعجاز رقم نے کثرت محنت سے وہ مقام حاصل کیا کہ ہر طرف سے تقاضہ ہونے لگا کہ وہ خطاطی کی تربیت کے لیے ابتدائی قواعد اور فن پاروں پر مشتمل کتابیں تحریر کریں۔ اور یوں منشی اعجاز رقم نے فن خطاطی پر جو کتابیں لکھیں ان میں تنویر شمس ، مرقع نگاریں ، گلدستہ ریاحین ، بزم پرویں اور اعجاز رقم شامل ہیں۔
شمس الدین اعجاز رقم نے خود ایسی رباعیات بحیثیت شاعر لکھیں جن میں کشش اور دائروں کا استعمال زیادہ ہو تا کہ اہل فن ان کی زیادہ سے زیادہ مشق کر کے کمال فن حاصل کریں اور یوں آج تک نستعلیق کی مشق کرنے والے ان رباعیات و قطعات کی مشق کر کے اپنے فن میں کمال حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
چونکہ شمس الدین اعجاز رقم باکمال شاعر بھی تھے اس لیے انہوں نے ایک ایسی طویل نظم لکھی کہ جس میں ایک ایک حرف کے اصول و قواعد شاعری میں لکھے ہیں جو کہ نہایت دلچسپ اور اعلی ہیں۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں روشنائی بنانے کے طریقے اور بہت سے رسوم الخط کی تشریحات بھی لکھیں۔ چونکہ پاکستان میں علم و فن کے چاہنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے اور نہ ہی پبلشنگ ادارے ایسی اعلیٰ پائے کی کتابیں چھاپتے ہیں اس لیے نہ صرف ہماری نوجوان نسل بلکہ بہت سے اہل فن بھی ان کتابوں سے ناواقف ہیں۔ پاکستان میں جان بوجھ کر تعلیمی نصاب ، ذرائع ابلاغ اور حکومتی نشریاتی اداروں سے ان کتابوں اور ماہرینِ فنِ خطاطی کی کاوشوں کو نکال دیا گیا جس کے نتیجے میں آج ہمارا ملک علوم و فنون میں اس طرح پیچھے رہ گیا ہے کہ باقی ممالک کے ساتھ ہماری کوئی مماثلت نہیں اور ہم ان لوگوں سے مل کر احساس کمتری محسوس کرتے ہیں۔ شاید ہمارے حکمرانوں کو انہی مصروفیات اور اپنے دھندوں سے باہر جھانکنے کا موقع نہیں ملتا اور ہوسکتا ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب کے ارکان نے امریکہ و برطانیہ کی غلامی سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی ہو۔
پیارے بچو! آپ بھی محنت کریں ، آگے بڑھیں اور اپنے ملک کے لیے ، اسلام کے لیے ، اپنی عزت و بقا کے لیے کسی مدد کی طرف نظر کیے بغیر اپنا علم و فن کا سفر جاری رکھیں!
بقول حافظ مظہر الدین
راہِ نبی میں غیر پہ تکیہ حرام ہے
اے عشق آ کہ بے سر و ساماں سفر کریں