فاخر
محفلین
منصورہند: صوفی سرمد شہید ؒ(قسط ِ دوم )
افتخاررحمانی ، نئی دہلی
ایک مضمون آدھا ادھورا میں نے صوفی سرمد شہید کے متعلق کئی ماہ قبل لکھا تھا ،چوں کہ دل کی انگیٹھی سرد ہوگئی تھی،بناء بریں کچھ لکھنے کی طبیعت بھی نہیں چاہ رہی تھی ؛ اس لیے قلم رکا ہوا تھا ۔ ایک بار پھر جامع مسجد (دہلی) گیا اور دل کی انگیٹھی گرم کی، گرم ہی نہیں کی ؛بلکہ اس کو خوب آتش خیز بھی بنایا ۔یہ بھی عجیب تماشہ ہے کہ اکثر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ’’انقباض‘‘ مجھ پر حاوی ہوگیا ہے۔ اس حالت میں ایک لفظ بھی لکھا نہیں جاسکتا۔ یہ معاملہ صرف میرے ہی ساتھ ہی یا پھر اور بھی کئی دوسروں کے ساتھ، اللہ بہتر جانے ۔ خیر !جب دل کی انگیٹھی گرم ہوتی ہے ؛بلکہ آتش خیز و آتش نوا ہوجاتی ہے تو قلم از خود چل پڑتا ہے ، کوئی جھجھک نہیں ہوتی، قلم کہیں رکتابھی نہیں، تراکیب و استعارے از خوددل سے نکلتے ہیں اور قلم کے ذریعہ صفحۂ قرطاس پر رقم ہوتے رہتے ہیں،جس کو شاعری کی اصطلاح میں ’’آمد‘‘ کہا جاتا ہے ۔ گویا بزبان غالبؔ : ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں ؍ غالب ؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے‘‘۔اوربسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اس عالم بیخودی میں جب کوئی نئی ترکیب نوک قلم پر آجاتی ہے تو ’جھوم‘ بھی جاتا ہوں۔
یہ الگ بات ہے کہ میں نہ تواردوشاعری کے باب میں کوئی غالبؔ ہوں اور نہ ہی نثر کے شعبہ میںکوئی ’ابوالکلام‘،البتہ ان دونوں ہستیوں کو اپنا مقتدا ضرور سمجھتا ہوں اور ان دونوں معزز ہستیوں کے فکر و فن سے خوشہ چینی اپنا حق بھی تصور کرتا ہوں اور بسا اوقات نثر میں مولانا آزاد کی ناکام’ نقل‘ کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے؛کیوں کہ یہ دونوں ہمارے لیے مآخذ بھی ہیں تو مصادر بھی ،فکر و فن کے اعتبار سے نایاب بھی تو فقید المثال بھی حتیٰ کہ دونوں اپنے اپنے شعبہ میں درجہ ٔ اجتہاد و امامت پر فائز بھی ہیں۔
آمدم برسر مطلب!گزشتہ مضمون میں صوفی سرمد شہید کے تختہ ٔ دار سے لٹکائے جانے سے قبل تک کے واقعات پیش کئے گئے تھے ۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر تختہ ٔدار ہی سرمد ؔ کا مقد رتھا یا پھر سیاست کی بے رخی ، عناد تھا۔یا مخالف کوخاموش کرنے کے لیے شریعت کا سہارا لیا گیا تاکہ مخالفین یک زبان ہوکر صدائے احتجاج بلندنہ کرسکیں ۔ کئی امور اس کے تحت تشنہ طلب ہیں جس کا تشفی بخش جواب نہیں دیا جاسکا ہے،البتہ اس کے متعلق من گھڑت باتیں اور بیہودہ عقیدے ضرور شامل کئے گئے ہیں، سینہ بہ سینہ حکایات خوب شائع کی گئیں ، جس سے سرمدؔ کا اصلی منظر نامہ چھپ کر رہ گیا ، اور جس کے لیے وہ اس دنیاسے ’لاتعلق ‘ ہوا تھا وہ مقصد ہی فوت ہوکر رہ گیا اور اس سے سرمدؔ کا اصلی رو پ اس مفروضات میں گم ہوکر رہ گیا۔ جب کہ لازم تو یہ تھا کہ سرمد ؔ کے متعلق تحقیق اور مباحثہ کئے جاتے ہیں ، ان کی زندگی کے پہلوؤں کو انصاف پسندانہ نظر سے عوام کے سامنے لائے جاتے ، ان کو تاریخی حیثیت و رتبہ فراہم کیا جاتا ہے ، مگر ستم ظریفی یہ کہہ لیں کہ تاریخ میں اس کا کہیں ذکر ِ خیر تو کجا ’ذکر شر‘ بھی نہیں ہے ۔مولاناآزادنے بھی اس تعلق سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے جزبز ہوکر سوال بھی کیا کہ ’’حضرت اورنگ زیب عالم گیر علیہ الرحمہ کے دور اقتدار میں اتنا بڑا واقعہ پیش آیا کہ ایک صوفی مست انسان کو شرعی امور کے پس منظر(کشف العورۃ) میں تختہ ٔ دار پر لٹکادیا گیا تھا؛ لیکن اس صوفی ٔ مست کے متعلق تاریخی طور پر کیوں پر اسرار خاموشی ہے؟ کہیں بھی اشارتاً ، کنایتاً کوئی ذکر نہیں ہے‘‘۔لفظ و عبار ت یاجملہ تو بہت دور کی کوڑی ہے ، کوئی عجب نہیں کہ عالم بالا میں دنیا کی ناانصافی پر سرمدؔ سرپیٹتے ہوں اور حافظؔ کی زبان میں کہتے ہوں ؎
’’یہ وہ زمانہ تھا کہ عنقریب بساط ہند پر عالم گیر ؒ ایک نئی چال چلنے والا تھا اور شاہ جہانی حکومت کا عہد آخری اور شاہزادہ دارا شکوہ ولی عہد سلطنت تھا ۔ سلسلہ ٔ مغلیہ میں دار شکوہ ایک عجیب طبیعت و دماغ کا شخص گزرا ہے ۔اور ہمیشہ افسوس کرنا چاہیے کہ تاریخ ہند کے قلم پر ،کہ اس کے دشمن کا قبضہ رہا ؛ اس لیے اصلی تصویر ’پولیٹکل چالوں‘ کے گرد و غبار میں چھب گئی، وہ ابتداء سے درویش داشت اور صوفیانہ دل و ماغ کا شخص تھا اور ہمیشہ فقراء اور ارباب تصوف کی صحبت میں رہتا تھا ،اس کے متعلق بعض تحریرات جو دست برد ِحوادث سے بچ گئی ہیں، بتلاتی ہیں کہ ان کا لکھنے والا بھی ذوق و کیفیت سے خالی نہیں ، اس کے صاحب ذوق ہونے کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ تلاش مقصد میں دیر و حرم کی تمیر اٹھادی تھی اور جس نیاز کیشی کے ساتھ مسلمان فقراء کے آگے سرجھکاتا تھا ، ویسی ہی عقیدت ہندو رشیوں سے بھی رکھتا تھا ۔ اس اصول سے کون صاحب حال اختلاف کرسکتا ہے ؛کیوں کہ اگر اس عالم میں بھی کفر واسلام کی تمیر ہوتو پھر اعمیٰ اور بصیر میں کیافرق باقی رہ گیا ؟ پروانہ کو تو شمع ڈھونڈھنی چاہیے ،اگر صرف شمع حرم ہی کا شیدا ہے توسوز طلبی میں کامل نہیں ؎
’’سرمدؔ جوش جنوں میں پھرتا ہوا جب شاہ جہان آباد (دہلی ) پہنچا تو قضانے اشارہ کیا کہ قدم روک لئے جائیں ؛کیوں کہ جس جام کی تلاش ہے وہ اسی میخانہ میں ملے گا ۔ مصنف مرا ۃ الخیال جو عالمگیر پرستی کے معبد میں صف اولیں کاطالب ہے ، لکھتا ہے :’’ چوں خاطر سلطاں داراشکوہ بجانب مجانین میل داشت صحبت بہ وے در گرفت ‘‘ ۔بیچارہ علی شیر بھی ہوشیاری و دیوانگی کی بحث میں سرمار رہا ہے ، اسے کیا خبر کہ دنیا میں ایسے ترازو بھی ہیں جن کے ایک پلّے میں اگر دیوانگی رکھ دی جائے تو دوسرا پلّہ تمام عالم کی ہوشیاری رکھ دینے سے بھی نہیں جھک سکتا اور پھر ایسے خریدار بھی ہیںجن کو اگر ہوش وحواس کا تمام سرمایہ دے دینے سے ایک ذرہ جنون مل سکتا ہو تو بازار یوسف کی طرح ہر طرف سے ہجوم کریں ۔ بہر کیف خواہ کچھ ہو ، عالمگیر ؒ کی ہوشیاری سے تو ہمیں داراشکوہ کی دیوانگی اور جنون دوستی پسند آتی ہے کہ وہاں تو تیغ ہوشیاری ٔ کشتگان حسرت کے خون سے رنگین ہے اور یہاں خود اپنے جسم کے رگہائے گردان سے خون کی نالیاں بہہ رہی ہیں ۔ شاید داراشکوہ بھی عالمگیر جیسے ہوشیاروں کی ہوشیاری سے تنگ آگیا تھا ، اس لئے اس نے سرمدؔ جیسے مجانین کی صحبت کو ہوش والوں کی مجلس پر ترجیح دی ۔ غرض کہ سرمدؔ دارا شکوہ کی صحبت میں رہنے لگا اور اسے بھی سرمد سے کمال عقیدت تھی ۔ اس زمانہ میں عشق کی شورش انگیزیاں کبھی کبھی اسے باہر نکلنے پر مجبور کرتیں ؛لیکن چوں کہ معلوم ہوچکا تھا کہ آخری امتحان گاہ یہی ہے ، اس لیے شاہجہان آباد سے نکل نہیں سکتا تھا یہاں تک کہ شاہجہاں کی علالت اور داراشکوہ کی نیابت نے عالمگیری ارادوں کے ظہور کا سامان کردیااور ایک عرصہ کی شورش و خو ن ریزی کے بعد ۱۰۶۹ھ میں عالمگیر اورنگ زیب تخت نشیں حکومت ہوا ۔ یہ زمانہ دارا شکوہ کے ساتھیوں اور ہم نشینوں کے لیے (بلکہ) خود داراشکوہ کے لیے کم مصیبت انگیز نہ تھا ۔ بہت سے لوگ تو داراشکوہ کے ساتھ نکل گئے اور جو رہ گئے انہوں نے اپنے آپ کو ’کشتی ٔ طوفان ‘ میں پایا ؛لیکن اس رہین بے خبری (سرمد)کو اپنے استغرا ق میں اس کی فرصت کہاں ملتی تھی کہ دنیا کو نظر اٹھا کے دیکھے اور اگر دیکھتا بھی تو وہاں سے کیوں کر نکلتا؛کیوں کہ بایں ہمہ بے خبری اس سے بے خبر نہ تھا کہ اب تک جو کچھ ہوا ہے ، عشق کی ابتدائی منزلیں تھیں ، آخری منزل طے کرنی باقی ہے اور وہ یہیں پیش آنے والی ہے ؎
’’سرمدؔ کی شہادت کے اسباب تذکرہ نویسوں نے مختلف بتائے ہیں تذکرۃ الخیال میں ہے کہ سرمدؔ کی اس رباعی پر جبہ پوشان شرع کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے اسے کفر قرار دیا کہ معراج جسمانی سے انکار لازم آتا ہے :
’’در عجائبہائے طور عشق حکمتہاکم ست٭عقل را با مصلحت اندیشی ٔ مجنوں چہ کار
لیکن اصل بات یہ ہے کہ عالمگیر کی نظروں میں تو سرمد ؔ کا سب سے بڑا جرم داراشکوہ کی معیت تھی ۔ اور وہ کسی نہ کسی بہانے قتل کرنا چاہتا تھا ۔ ایشیا میں ہمیشہ سے پالٹیکس مذہب کی آڑ میں رہا ہے اور ہزاروں خوں ریزیاں جو پولیٹیکل اسباب سے ہوئی ہیں انہیں مذہب کی چادر اوڑھاکر چھپایا گیا ہے ‘‘۔آگے مزید مولانا آزادؔ لکھتے ہیں :
’’جب کوئی اور بہانہ نہ ملا تو عریانی و برہنگی کو خلاف رسم شرع ہے ، بنیاد قرار دیا اور مذکورہ بالا رباعی سے نتیجہ نکالا کہ معراج جسمانی کا منکر ہے ۔ ملا قوی اس زمانہ میں قاضی القضاہ تھے ، عالمگیر نے انہیں سرمدؔ کے پاس بھیجا کہ برہنگی کی وجہ دریافت کریں ، ملاصاحب نے کہا ہے کہ باوجود کمال علم و فضل برہنہو مکشوف العورۃ کس عذر پر مبنی ہے ؟ سرمدؔ نے کہا کیاکروں شیطان قوی ہے اور فی البدیہ یہ رباعی پڑھی ؎
سرمدؔ کے متعلق ظاہر پرست قاضیوں کی جور ائے تھی ، اس رائے کے خلاف مولانا نے لکھا ہے کہ قاضیوں نے ہمیشہ باطن پرست اہل دل کو مشق ستم کانشانہ بنایا ہے ۔جن اہل دل نے اسرار حقیقت سے قربت حاصل کی ، انہیں اپنا سر دے کر نجات حاصل کرنا پڑی ۔ اس ضمن مین مولانا آزاد لکھتے ہیں :
’’اسلام کے تیرہ سو برس کے عرصہ میں فقہاء کاقلم ہمیشہ تیغ بے نیام رہا ہے ۔ اور ہزاروں حق پرستوں کا خون ان کے فتووں کا دامن گیر ہے ۔ اسلام کی تاریخ کو کہیں سے پڑھو ، سینکڑوں مثالیں کہتی ہیںکہ بادشاہ جب خون ریزی پر آتا تھا تو دارالافتاء کاقلم اور سپہ سالار کی تیغ دونوں یکساں طور پر کام دیتے تھے ۔ صوفیہ اور ارباب وطن پر منخصر نہیں ،علمائے شریعت میں سے بھی جو نکتہ بیں اسرار حقیقت کے قریب ہوئے فقہاء کے ہاتھوں انہیں مصیبت اٹھانی پڑی اور بالآخر سردے کر نجات پائی ۔ سرمدؔ بھی اسی تیغ کا شہید ہے ؎
چوں میرد و نظیریؔ خونیں کفن بہ حشر ٭ خلقے فغاں کنند کہ ایں داد خواہ کیست ‘‘
سرمدؔ کی تقدیر میں جنون عشق کے ہاتھوں شہید ہونا لکھا تھا اور پھر خود سرمدؔ نے اس کی طلب بھی کی تھی ۔ بالآخر اتفاق رائے سے یہ تجویز طے ہوئی کہ سرمدؔ کو مجلس میں بلایا جائے اور اس سے کشف العورۃ کے متعلق سوال کیا جائے ؟ الغرض سرمدؔ کو مجلس میں طلب کی گئی اور کشف العورۃ (برہنگی ) کے متعلق سوال و جواب کیا گیا ، مجلس طلبی اور پھر سوال و جواب کو مولانا آزاد ؔ کی زبانی سنیں ، مولانا آزاد لکھتے ہیں :
’’آخر الامر یہ قرار پایا کہ سرمدؔ کو علماء و فضلائے عصر کے مجمع میں طلب کیا جائے اور تمام علماء کی جو رائے ہو قائم اس کے مطابق فیصلہ کیاجائے ؛چناں چہ مجلس منعقد ہوئی اور سرمدؔ کو بلایا گیا ۔ سب سے پہلے خود عالمگیر مخاطب ہوا اور پوچھالوگ کہتے ہیں کہ سرمدؔ نے دارا شکوہ کو مژدہ ٔ سلطنت دیا تھا ، کیا یہ سچ ہے ؟ سرمدؔ نے کہا ، ہاں ! اور وہ مژدہ درست نکلا کہ اسے ابدی سلطنت کی تاج پوشی نصیب ہوئی ۔ عمامہ بندوں نے کہا کہ برہنگی شرع کے خلاف ہے اور اس کے لیے صاحب عقل و تمیز کا کوئی عذر مسموع نہیں ، اس کا جواب تو سرمدؔ نے پہلے ہی دے چکا تھا ؎
’’ دزدے عجبے برہنہ کردہ است مرا ‘‘
مولانا آزاد مجمع عام کی مزید تفصیل والہ داغستانی کی روایت نقل کرتے ہوئے لکھا کہ:
’والہ داغستانی انہیں(ایک معروف صوفی)بزرگ سے روایت کرتا ہے کہ جب مجمع علماء میں سرمدؔ کو لباس پہننے کے لیے کہا گیا اور مسموع نہ ہوا تو بادشاہ نے علماء سے کہا کہ محض برہنگی وجہ قتل نہیں ہوسکتی ، اس سے کہا جائے کہ کلمہ طیبہ پڑھے ۔ اور یہ اس لیے کہا کہ بادشاہ سن چکا تھا کہ سرمدؔ کی عادات عجیبہ میں سے ایک یہ عادت بھی ہے کہ کلمہ طیبہ جب پڑھتا ہے تو لاالٰہ سے زیادہ نہیں کہتا ، علماء نے سرمدؔ سے کلمہ پڑھنے کی خواہش کی تو اپنی عادت کے مطابق صرف ’لا الٰہ‘ پڑھا کہ جملہ نفی ہے ، اس پر علماء نے شور مچایا تو کہا ’’ابھی تک میں نفی میں مستغرق ہوں ، مرتبہ ٔ اثبات تک نہیں پہنچا ،اگر الااللہ کہوں گا تو جھوٹ ہوگا اور جو دل میں نہ ہو وہ زبان پر کیسے آئے ؟ علماء نے کہا ایسا کہنا کفر صریح ہے ۔ اگر توبہ نہ کرے تو مستحقِ قتل ہے ۔ یہ ظاہر پرست نہیں جانتے تھے کہ سرمدؔ اس سے بہت اونچا ہے کہ کفر و ایمان کی بحثیں سنائی جائیں اور وہ قتل و خون کے احکام سے مرعوب ہو۔ کفر ساز تو اپنے مدرسہ و مسجد کے صحن میں کھڑے ہوکر سوچتے تھے کہ اس کی کرسی کتنی اونچی ہے اور وہ اس منار عشق پر تھا جہاں کعبہ اور مندر بالمقابل نظر آتے ہیں اور جہاں کفر و ایمان کے علم ایک ساتھ لہراتے ہیں ؎
’’غرض کہ جب سرمدؔ نے تو بہ نہ کی تو علماء نے بلا تامل فتوائے قتل صادر کیا اورد وسرے دن قتل گاہ میں لے گئے ، بموجب بیان مراۃ الخیال یہ واقعہ ۱۰۷۲ھ میں ہوا کہ عالم گیر کی تخت نشینی کو تین سال سے زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا ؎
’’ مجھے سرمدؔ کی خدمت میں کمال خصوصیت حاصل تھی ۔ جب شورش و ہنگامہ شروع ہوا تو مجھ سے نہ رہا گیا ۔ ایک دن موقع پاکر عرض کیا کہ اگر اپنی وضع وحالت بدل لیں تو بندگان الٰہی کی منت و سماجت دیکھتے ہوئے بظاہر کوئی نقصان نہیں ‘‘ یہ سن کر نظر اٹھائی اور اپنا شعر پڑھ دیا ؎
افتخاررحمانی ، نئی دہلی
ایک مضمون آدھا ادھورا میں نے صوفی سرمد شہید کے متعلق کئی ماہ قبل لکھا تھا ،چوں کہ دل کی انگیٹھی سرد ہوگئی تھی،بناء بریں کچھ لکھنے کی طبیعت بھی نہیں چاہ رہی تھی ؛ اس لیے قلم رکا ہوا تھا ۔ ایک بار پھر جامع مسجد (دہلی) گیا اور دل کی انگیٹھی گرم کی، گرم ہی نہیں کی ؛بلکہ اس کو خوب آتش خیز بھی بنایا ۔یہ بھی عجیب تماشہ ہے کہ اکثر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ’’انقباض‘‘ مجھ پر حاوی ہوگیا ہے۔ اس حالت میں ایک لفظ بھی لکھا نہیں جاسکتا۔ یہ معاملہ صرف میرے ہی ساتھ ہی یا پھر اور بھی کئی دوسروں کے ساتھ، اللہ بہتر جانے ۔ خیر !جب دل کی انگیٹھی گرم ہوتی ہے ؛بلکہ آتش خیز و آتش نوا ہوجاتی ہے تو قلم از خود چل پڑتا ہے ، کوئی جھجھک نہیں ہوتی، قلم کہیں رکتابھی نہیں، تراکیب و استعارے از خوددل سے نکلتے ہیں اور قلم کے ذریعہ صفحۂ قرطاس پر رقم ہوتے رہتے ہیں،جس کو شاعری کی اصطلاح میں ’’آمد‘‘ کہا جاتا ہے ۔ گویا بزبان غالبؔ : ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں ؍ غالب ؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے‘‘۔اوربسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اس عالم بیخودی میں جب کوئی نئی ترکیب نوک قلم پر آجاتی ہے تو ’جھوم‘ بھی جاتا ہوں۔
یہ الگ بات ہے کہ میں نہ تواردوشاعری کے باب میں کوئی غالبؔ ہوں اور نہ ہی نثر کے شعبہ میںکوئی ’ابوالکلام‘،البتہ ان دونوں ہستیوں کو اپنا مقتدا ضرور سمجھتا ہوں اور ان دونوں معزز ہستیوں کے فکر و فن سے خوشہ چینی اپنا حق بھی تصور کرتا ہوں اور بسا اوقات نثر میں مولانا آزاد کی ناکام’ نقل‘ کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے؛کیوں کہ یہ دونوں ہمارے لیے مآخذ بھی ہیں تو مصادر بھی ،فکر و فن کے اعتبار سے نایاب بھی تو فقید المثال بھی حتیٰ کہ دونوں اپنے اپنے شعبہ میں درجہ ٔ اجتہاد و امامت پر فائز بھی ہیں۔
آمدم برسر مطلب!گزشتہ مضمون میں صوفی سرمد شہید کے تختہ ٔ دار سے لٹکائے جانے سے قبل تک کے واقعات پیش کئے گئے تھے ۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر تختہ ٔدار ہی سرمد ؔ کا مقد رتھا یا پھر سیاست کی بے رخی ، عناد تھا۔یا مخالف کوخاموش کرنے کے لیے شریعت کا سہارا لیا گیا تاکہ مخالفین یک زبان ہوکر صدائے احتجاج بلندنہ کرسکیں ۔ کئی امور اس کے تحت تشنہ طلب ہیں جس کا تشفی بخش جواب نہیں دیا جاسکا ہے،البتہ اس کے متعلق من گھڑت باتیں اور بیہودہ عقیدے ضرور شامل کئے گئے ہیں، سینہ بہ سینہ حکایات خوب شائع کی گئیں ، جس سے سرمدؔ کا اصلی منظر نامہ چھپ کر رہ گیا ، اور جس کے لیے وہ اس دنیاسے ’لاتعلق ‘ ہوا تھا وہ مقصد ہی فوت ہوکر رہ گیا اور اس سے سرمدؔ کا اصلی رو پ اس مفروضات میں گم ہوکر رہ گیا۔ جب کہ لازم تو یہ تھا کہ سرمد ؔ کے متعلق تحقیق اور مباحثہ کئے جاتے ہیں ، ان کی زندگی کے پہلوؤں کو انصاف پسندانہ نظر سے عوام کے سامنے لائے جاتے ، ان کو تاریخی حیثیت و رتبہ فراہم کیا جاتا ہے ، مگر ستم ظریفی یہ کہہ لیں کہ تاریخ میں اس کا کہیں ذکر ِ خیر تو کجا ’ذکر شر‘ بھی نہیں ہے ۔مولاناآزادنے بھی اس تعلق سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے جزبز ہوکر سوال بھی کیا کہ ’’حضرت اورنگ زیب عالم گیر علیہ الرحمہ کے دور اقتدار میں اتنا بڑا واقعہ پیش آیا کہ ایک صوفی مست انسان کو شرعی امور کے پس منظر(کشف العورۃ) میں تختہ ٔ دار پر لٹکادیا گیا تھا؛ لیکن اس صوفی ٔ مست کے متعلق تاریخی طور پر کیوں پر اسرار خاموشی ہے؟ کہیں بھی اشارتاً ، کنایتاً کوئی ذکر نہیں ہے‘‘۔لفظ و عبار ت یاجملہ تو بہت دور کی کوڑی ہے ، کوئی عجب نہیں کہ عالم بالا میں دنیا کی ناانصافی پر سرمدؔ سرپیٹتے ہوں اور حافظؔ کی زبان میں کہتے ہوں ؎
’’ز رقیب دیوسیرت بہ خدائے خود پناہم
مگر آن شہاب ثاقب مددے دہد خدا را‘‘
الغرض ! جب ٹھٹھہ کی سرزمین سرمد کے لیے تنگ کردی گئی اوریا بلفظ دیگر یو ں کہہ لیں کہ عشق کی طرب انگیزنواؤں نے ان کو دعوت دی تو ٹھٹھہ چھوڑ کر وہ گولکنڈہ پہنچا، کاتب تقدیر نے سرمد ؔکو دہلی کے لیے منتخب کیا تھا ، سرمدؔدیوانہ وار گولکنڈہ چھوڑ کر دہلی آیا اور یہیں گلی کوچوں میں’فناگشتم من فنا گشتم ‘کا نعرہ ٔ عشق بلند کرنے لگ گیا ۔ خود سرمدؔ نے بھی بڑی دیدہ دلیری، جوان مردی کے ساتھ دیوانہ وار کہا ہے ؎مگر آن شہاب ثاقب مددے دہد خدا را‘‘
’’بیہودہ چرا در طلبش می گردی؟
بنشیں ! اگر او خدا ست خود می آید‘‘
اس حلف ِ عشق کے بعد وہ خود دہلی کے کوچہ و گلی کا اسیر بن کر رہ گیا ، کیوں کہ اس نے ٹھان لیا تھا کہ ’بنشیں ! اگر او خدا است خود می آید ‘ اس قیام کے دنوں اس سے یہ بہت بڑی غلطی واقع ہوئی کہ وہ شاہجہاں کے فرزندداراشکوہ جو طبعی طور پر صوفیوں اور ولیوں سے تعلق خاطر رکھتا تھا ؛بلکہ ان سے بڑی محبت بھی کرتا تھا سے دوستی کا گناہ کر بیٹھا ۔ مولانا آزادعلیہ الرحمہ داراشکوہ کے احوال لکھتے ہوئے داراشکوہ کو سوز طلبی کا ایک متلاشی انسان قر ار دیا ہے، ایک ایسا انسان کہ جس نے ’تلاش سوز ِ طلبی ‘میں دیروحرم کی تمیز بھی نہ کی۔ مولاناآزاد لکھتے ہیں :بنشیں ! اگر او خدا ست خود می آید‘‘
’’یہ وہ زمانہ تھا کہ عنقریب بساط ہند پر عالم گیر ؒ ایک نئی چال چلنے والا تھا اور شاہ جہانی حکومت کا عہد آخری اور شاہزادہ دارا شکوہ ولی عہد سلطنت تھا ۔ سلسلہ ٔ مغلیہ میں دار شکوہ ایک عجیب طبیعت و دماغ کا شخص گزرا ہے ۔اور ہمیشہ افسوس کرنا چاہیے کہ تاریخ ہند کے قلم پر ،کہ اس کے دشمن کا قبضہ رہا ؛ اس لیے اصلی تصویر ’پولیٹکل چالوں‘ کے گرد و غبار میں چھب گئی، وہ ابتداء سے درویش داشت اور صوفیانہ دل و ماغ کا شخص تھا اور ہمیشہ فقراء اور ارباب تصوف کی صحبت میں رہتا تھا ،اس کے متعلق بعض تحریرات جو دست برد ِحوادث سے بچ گئی ہیں، بتلاتی ہیں کہ ان کا لکھنے والا بھی ذوق و کیفیت سے خالی نہیں ، اس کے صاحب ذوق ہونے کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ تلاش مقصد میں دیر و حرم کی تمیر اٹھادی تھی اور جس نیاز کیشی کے ساتھ مسلمان فقراء کے آگے سرجھکاتا تھا ، ویسی ہی عقیدت ہندو رشیوں سے بھی رکھتا تھا ۔ اس اصول سے کون صاحب حال اختلاف کرسکتا ہے ؛کیوں کہ اگر اس عالم میں بھی کفر واسلام کی تمیر ہوتو پھر اعمیٰ اور بصیر میں کیافرق باقی رہ گیا ؟ پروانہ کو تو شمع ڈھونڈھنی چاہیے ،اگر صرف شمع حرم ہی کا شیدا ہے توسوز طلبی میں کامل نہیں ؎
’’عاشق ہم از اسلام خرابست وہم از کفر
پروانہ چراغ حرم و دیر نداند ‘‘
سرمد و داراشکوہ کے تعلقات کے تناظر میں مولانا آزاد نے جولکھا ہے وہ افراط و تفریط اور ’’لغو‘‘ سے پاک و مبرا بھی ہے ۔ مولانا سرمدؔ اور داراشکوہ کے تعلقات کے باب میں رقم طراز ہیں :پروانہ چراغ حرم و دیر نداند ‘‘
’’سرمدؔ جوش جنوں میں پھرتا ہوا جب شاہ جہان آباد (دہلی ) پہنچا تو قضانے اشارہ کیا کہ قدم روک لئے جائیں ؛کیوں کہ جس جام کی تلاش ہے وہ اسی میخانہ میں ملے گا ۔ مصنف مرا ۃ الخیال جو عالمگیر پرستی کے معبد میں صف اولیں کاطالب ہے ، لکھتا ہے :’’ چوں خاطر سلطاں داراشکوہ بجانب مجانین میل داشت صحبت بہ وے در گرفت ‘‘ ۔بیچارہ علی شیر بھی ہوشیاری و دیوانگی کی بحث میں سرمار رہا ہے ، اسے کیا خبر کہ دنیا میں ایسے ترازو بھی ہیں جن کے ایک پلّے میں اگر دیوانگی رکھ دی جائے تو دوسرا پلّہ تمام عالم کی ہوشیاری رکھ دینے سے بھی نہیں جھک سکتا اور پھر ایسے خریدار بھی ہیںجن کو اگر ہوش وحواس کا تمام سرمایہ دے دینے سے ایک ذرہ جنون مل سکتا ہو تو بازار یوسف کی طرح ہر طرف سے ہجوم کریں ۔ بہر کیف خواہ کچھ ہو ، عالمگیر ؒ کی ہوشیاری سے تو ہمیں داراشکوہ کی دیوانگی اور جنون دوستی پسند آتی ہے کہ وہاں تو تیغ ہوشیاری ٔ کشتگان حسرت کے خون سے رنگین ہے اور یہاں خود اپنے جسم کے رگہائے گردان سے خون کی نالیاں بہہ رہی ہیں ۔ شاید داراشکوہ بھی عالمگیر جیسے ہوشیاروں کی ہوشیاری سے تنگ آگیا تھا ، اس لئے اس نے سرمدؔ جیسے مجانین کی صحبت کو ہوش والوں کی مجلس پر ترجیح دی ۔ غرض کہ سرمدؔ دارا شکوہ کی صحبت میں رہنے لگا اور اسے بھی سرمد سے کمال عقیدت تھی ۔ اس زمانہ میں عشق کی شورش انگیزیاں کبھی کبھی اسے باہر نکلنے پر مجبور کرتیں ؛لیکن چوں کہ معلوم ہوچکا تھا کہ آخری امتحان گاہ یہی ہے ، اس لیے شاہجہان آباد سے نکل نہیں سکتا تھا یہاں تک کہ شاہجہاں کی علالت اور داراشکوہ کی نیابت نے عالمگیری ارادوں کے ظہور کا سامان کردیااور ایک عرصہ کی شورش و خو ن ریزی کے بعد ۱۰۶۹ھ میں عالمگیر اورنگ زیب تخت نشیں حکومت ہوا ۔ یہ زمانہ دارا شکوہ کے ساتھیوں اور ہم نشینوں کے لیے (بلکہ) خود داراشکوہ کے لیے کم مصیبت انگیز نہ تھا ۔ بہت سے لوگ تو داراشکوہ کے ساتھ نکل گئے اور جو رہ گئے انہوں نے اپنے آپ کو ’کشتی ٔ طوفان ‘ میں پایا ؛لیکن اس رہین بے خبری (سرمد)کو اپنے استغرا ق میں اس کی فرصت کہاں ملتی تھی کہ دنیا کو نظر اٹھا کے دیکھے اور اگر دیکھتا بھی تو وہاں سے کیوں کر نکلتا؛کیوں کہ بایں ہمہ بے خبری اس سے بے خبر نہ تھا کہ اب تک جو کچھ ہوا ہے ، عشق کی ابتدائی منزلیں تھیں ، آخری منزل طے کرنی باقی ہے اور وہ یہیں پیش آنے والی ہے ؎
’’بیک دہ زخم کہ خوردن ز عشق امن مباش
کہ در کمیں گہ ابرو کمان کش ست ہنوز ‘‘
مولانا آزاد کے اس بیان میں صداقت بھی نظر آتی ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے تخت نشیں ہوتے ہی داراشکوہ کے محبین و متوسلین اوردارا شکوہ کو’ خسروی ٔ شاہانہ ‘ کی دعا دینے والوں پر عتاب نازل ہوگیا تھا ، چن چن کر سیاسی حکمت عملی کے تحت پس زنداں کئے جاتے رہیں یا پھر ان کو تختہ ٔ دار پر لٹکایا جاتا رہا ۔اس کے تئیں کئی دلائل ہیں جو کہ تاریخی سے تعلق رکھتی ہیں ،اور یہ بحث ایسی گنجلک ، متضاد ، غیر واضح اورمبہم ہے کہ کوئی تاریخ نویس اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش میں حوصلہ ہار جائے اور اس کی سانس پھول جائے ؛کیوں کہ اس سلسلے میں کوئی واضح تاریخ ہی موجود نہیں ہے ،گرچہ سرمدؔ کے واقعات بیان نہ کرنے کے سیاسی مقاصد ہیں ، جن کو سمجھنا لازمی ہے ۔میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ جو کہ عیاں ہوتی ہے وہ یہ کہ سرمدؔکو تختہ ٔدار پر لٹکایا جانا اورنگ زیب عالمگیر ؒ کی سیاسی حکمت عملی اور شرع کی پابندی کی واضح نشانی ہے۔ اس تعلق سے آئندہ مفصل گفتگو کی جائے گی کہ آخر اورنگ زیب ؒ نے سرمد ؔ کو تختہ دار پرکیوں لٹکایا۔ مولانا آزاد سرمدؔ کی شہادت متعلق یوں لکھتے ہیں :کہ در کمیں گہ ابرو کمان کش ست ہنوز ‘‘
’’سرمدؔ کی شہادت کے اسباب تذکرہ نویسوں نے مختلف بتائے ہیں تذکرۃ الخیال میں ہے کہ سرمدؔ کی اس رباعی پر جبہ پوشان شرع کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے اسے کفر قرار دیا کہ معراج جسمانی سے انکار لازم آتا ہے :
’’ہر کس کہ سر حقیقتش پا در شد
او پہن تر از سپہر پہنا در شد
ملا گوید کہ بر فلک شد احمد
سرمدؔ گوید فلک بہ احمد در شد ‘‘
مگر اس ترک سادہ کو فقیہانہ جنگ و جدال سے کیا سروکار تھا ، اس نے نظر اٹھا کے دیکھا تک نہیں کیہ کور بصر کیا شور و غوغا کر رہے ہیں ؟ وہ تو اس عالم میں تھاکہ جہاں ان اقرار و انکار کی بحثوں کی آواز بھی نہیں پہنچ سکتی ؎او پہن تر از سپہر پہنا در شد
ملا گوید کہ بر فلک شد احمد
سرمدؔ گوید فلک بہ احمد در شد ‘‘
’’در عجائبہائے طور عشق حکمتہاکم ست٭عقل را با مصلحت اندیشی ٔ مجنوں چہ کار
لیکن اصل بات یہ ہے کہ عالمگیر کی نظروں میں تو سرمد ؔ کا سب سے بڑا جرم داراشکوہ کی معیت تھی ۔ اور وہ کسی نہ کسی بہانے قتل کرنا چاہتا تھا ۔ ایشیا میں ہمیشہ سے پالٹیکس مذہب کی آڑ میں رہا ہے اور ہزاروں خوں ریزیاں جو پولیٹیکل اسباب سے ہوئی ہیں انہیں مذہب کی چادر اوڑھاکر چھپایا گیا ہے ‘‘۔آگے مزید مولانا آزادؔ لکھتے ہیں :
’’جب کوئی اور بہانہ نہ ملا تو عریانی و برہنگی کو خلاف رسم شرع ہے ، بنیاد قرار دیا اور مذکورہ بالا رباعی سے نتیجہ نکالا کہ معراج جسمانی کا منکر ہے ۔ ملا قوی اس زمانہ میں قاضی القضاہ تھے ، عالمگیر نے انہیں سرمدؔ کے پاس بھیجا کہ برہنگی کی وجہ دریافت کریں ، ملاصاحب نے کہا ہے کہ باوجود کمال علم و فضل برہنہو مکشوف العورۃ کس عذر پر مبنی ہے ؟ سرمدؔ نے کہا کیاکروں شیطان قوی ہے اور فی البدیہ یہ رباعی پڑھی ؎
’’خوش بالائے کردہ چنیں پست مرا ٭ چشمے بدو جام بردہ از دست مرا
او در بغل من ست و من در طلبش٭ دزدے عجبے برہنہ کردہ است مرا
ملا صاحب برہم ہوئے اور برہم ہونے کی بات ہی تھی ؛کیوں کہ اسلام کی توہین نہیں کی گئی ،مگر خود ان کے وجود اسلام عبارت کی سخت اہانت ہوئی ، یعنی ان کا اسم سامی ابلیس لعین کا وصف قرار پایا ۔ بہر کیف انہوں نے عالمگیر سے آکر کہا کہ کفر کا کافی مواد ہاتھ آگیا ہے اور قلمدان کھولناچاہا کہ علمائے ظاہر کی تیغ خوں آشام اسی نیام میں رہتی ہے ؛لیکن عالمگیر کی عاقبت اندیشیوں نے صرف اس بہانے کو کافی نہ سمجھا، وہ خوب سمجھتا تھا کہ سرمدؔ کوئی معمولی شخص نہیں ہے جس کا قتل ایک عامۃ الورود واقعہ سمجھا جائے گا، علم و وفضل کے لحاظ سے کوئی اس کا ہمتا نہیں اور رجوع خلائق کایہ حال ہے کہ سارا شاہجہان آباد اس کا معتقد اور ہوا خواہ ہے ؛اس لیے جب تک کوئی بہانہ قوی ہاتھ نہ آئے ،اس ارادے کو ملتوی رکھنا چاہیے ۔ ‘‘او در بغل من ست و من در طلبش٭ دزدے عجبے برہنہ کردہ است مرا
سرمدؔ کے متعلق ظاہر پرست قاضیوں کی جور ائے تھی ، اس رائے کے خلاف مولانا نے لکھا ہے کہ قاضیوں نے ہمیشہ باطن پرست اہل دل کو مشق ستم کانشانہ بنایا ہے ۔جن اہل دل نے اسرار حقیقت سے قربت حاصل کی ، انہیں اپنا سر دے کر نجات حاصل کرنا پڑی ۔ اس ضمن مین مولانا آزاد لکھتے ہیں :
’’اسلام کے تیرہ سو برس کے عرصہ میں فقہاء کاقلم ہمیشہ تیغ بے نیام رہا ہے ۔ اور ہزاروں حق پرستوں کا خون ان کے فتووں کا دامن گیر ہے ۔ اسلام کی تاریخ کو کہیں سے پڑھو ، سینکڑوں مثالیں کہتی ہیںکہ بادشاہ جب خون ریزی پر آتا تھا تو دارالافتاء کاقلم اور سپہ سالار کی تیغ دونوں یکساں طور پر کام دیتے تھے ۔ صوفیہ اور ارباب وطن پر منخصر نہیں ،علمائے شریعت میں سے بھی جو نکتہ بیں اسرار حقیقت کے قریب ہوئے فقہاء کے ہاتھوں انہیں مصیبت اٹھانی پڑی اور بالآخر سردے کر نجات پائی ۔ سرمدؔ بھی اسی تیغ کا شہید ہے ؎
چوں میرد و نظیریؔ خونیں کفن بہ حشر ٭ خلقے فغاں کنند کہ ایں داد خواہ کیست ‘‘
سرمدؔ کی تقدیر میں جنون عشق کے ہاتھوں شہید ہونا لکھا تھا اور پھر خود سرمدؔ نے اس کی طلب بھی کی تھی ۔ بالآخر اتفاق رائے سے یہ تجویز طے ہوئی کہ سرمدؔ کو مجلس میں بلایا جائے اور اس سے کشف العورۃ کے متعلق سوال کیا جائے ؟ الغرض سرمدؔ کو مجلس میں طلب کی گئی اور کشف العورۃ (برہنگی ) کے متعلق سوال و جواب کیا گیا ، مجلس طلبی اور پھر سوال و جواب کو مولانا آزاد ؔ کی زبانی سنیں ، مولانا آزاد لکھتے ہیں :
’’آخر الامر یہ قرار پایا کہ سرمدؔ کو علماء و فضلائے عصر کے مجمع میں طلب کیا جائے اور تمام علماء کی جو رائے ہو قائم اس کے مطابق فیصلہ کیاجائے ؛چناں چہ مجلس منعقد ہوئی اور سرمدؔ کو بلایا گیا ۔ سب سے پہلے خود عالمگیر مخاطب ہوا اور پوچھالوگ کہتے ہیں کہ سرمدؔ نے دارا شکوہ کو مژدہ ٔ سلطنت دیا تھا ، کیا یہ سچ ہے ؟ سرمدؔ نے کہا ، ہاں ! اور وہ مژدہ درست نکلا کہ اسے ابدی سلطنت کی تاج پوشی نصیب ہوئی ۔ عمامہ بندوں نے کہا کہ برہنگی شرع کے خلاف ہے اور اس کے لیے صاحب عقل و تمیز کا کوئی عذر مسموع نہیں ، اس کا جواب تو سرمدؔ نے پہلے ہی دے چکا تھا ؎
’’ دزدے عجبے برہنہ کردہ است مرا ‘‘
مولانا آزاد مجمع عام کی مزید تفصیل والہ داغستانی کی روایت نقل کرتے ہوئے لکھا کہ:
’والہ داغستانی انہیں(ایک معروف صوفی)بزرگ سے روایت کرتا ہے کہ جب مجمع علماء میں سرمدؔ کو لباس پہننے کے لیے کہا گیا اور مسموع نہ ہوا تو بادشاہ نے علماء سے کہا کہ محض برہنگی وجہ قتل نہیں ہوسکتی ، اس سے کہا جائے کہ کلمہ طیبہ پڑھے ۔ اور یہ اس لیے کہا کہ بادشاہ سن چکا تھا کہ سرمدؔ کی عادات عجیبہ میں سے ایک یہ عادت بھی ہے کہ کلمہ طیبہ جب پڑھتا ہے تو لاالٰہ سے زیادہ نہیں کہتا ، علماء نے سرمدؔ سے کلمہ پڑھنے کی خواہش کی تو اپنی عادت کے مطابق صرف ’لا الٰہ‘ پڑھا کہ جملہ نفی ہے ، اس پر علماء نے شور مچایا تو کہا ’’ابھی تک میں نفی میں مستغرق ہوں ، مرتبہ ٔ اثبات تک نہیں پہنچا ،اگر الااللہ کہوں گا تو جھوٹ ہوگا اور جو دل میں نہ ہو وہ زبان پر کیسے آئے ؟ علماء نے کہا ایسا کہنا کفر صریح ہے ۔ اگر توبہ نہ کرے تو مستحقِ قتل ہے ۔ یہ ظاہر پرست نہیں جانتے تھے کہ سرمدؔ اس سے بہت اونچا ہے کہ کفر و ایمان کی بحثیں سنائی جائیں اور وہ قتل و خون کے احکام سے مرعوب ہو۔ کفر ساز تو اپنے مدرسہ و مسجد کے صحن میں کھڑے ہوکر سوچتے تھے کہ اس کی کرسی کتنی اونچی ہے اور وہ اس منار عشق پر تھا جہاں کعبہ اور مندر بالمقابل نظر آتے ہیں اور جہاں کفر و ایمان کے علم ایک ساتھ لہراتے ہیں ؎
’’کشورے ہست کہ در وے وہ و از کفر سخن
ہمہ جا گفت و شنو برسرایمان نہ رود
اور سرمدؔ نے تو اپنی اصلی حالت بے کم و کاست بیان کردی تھی ۔ ایمان بالغیب پر جو لوگ قانع نہیں ہوتے اور اس عدم قناعت ہی کا نام ’تلاشِ حقیقت ‘ ہے وہ اپنے اقرار کو مشاہدہ ٔ غیبی سے استوار کرنا چاہتے ہیں ۔ اورشاہد حقیقت کی رونمائی نقد شہادت ہے جو ابھی سرمد ؔ کو نصیب نہیں ہوئی تھی ۔ پس جس چیز کو دیکھا نہ تھا کیوں کر کہہ دیتا کہ ’’ہے ‘‘۔ اس ملک میں جتنے رہرو ہیں سب ہی کو اس منزل سے دو چار ہونا پڑتا ہے ؛لیکن سرمدؔ کا جرم یہ تھا کہ وہ جس جام کو چھپ کر پیتے ہیں ، سرمدؔ نے اعلانیہ منھ سے لگایا اور درہ ٔ محتسب کا مستحق ٹھہرا ۔‘‘
اب جب کہ دربار عالمگیری میں وجہ ٔ قتل پختہ ہوچکی تھی ، عمامہ اور خرقہ پوش اور دربارِ عالمگیری کے پرستان اکبر کو تختہ ٔ دار پر لٹکائے جانے کی مضبوط دلیل ہاتھ لگ گئی تھی ، شاید ظاہر پرست علماء کے دامن پر کاتب تقدیر نے سرمدؔ کا خون لکھا تھا ،کیوں کہ سرمدؔ اس کی آمدکی دیرینہ خواہش کا بڑی شدت سے کیا تھا ، اس نے اس خواہش کو سن لیا تھا ،مگر اپنے محبوب کی شہادت کا خون اپنے ذمہ نے لے کر اوروں پر کندھے پر ڈال دیا ۔ آگے کی داستان مولانا آزادؒ کی زبانی ہی سنیں ، مولانا لکھتے ہیں :ہمہ جا گفت و شنو برسرایمان نہ رود
اور سرمدؔ نے تو اپنی اصلی حالت بے کم و کاست بیان کردی تھی ۔ ایمان بالغیب پر جو لوگ قانع نہیں ہوتے اور اس عدم قناعت ہی کا نام ’تلاشِ حقیقت ‘ ہے وہ اپنے اقرار کو مشاہدہ ٔ غیبی سے استوار کرنا چاہتے ہیں ۔ اورشاہد حقیقت کی رونمائی نقد شہادت ہے جو ابھی سرمد ؔ کو نصیب نہیں ہوئی تھی ۔ پس جس چیز کو دیکھا نہ تھا کیوں کر کہہ دیتا کہ ’’ہے ‘‘۔ اس ملک میں جتنے رہرو ہیں سب ہی کو اس منزل سے دو چار ہونا پڑتا ہے ؛لیکن سرمدؔ کا جرم یہ تھا کہ وہ جس جام کو چھپ کر پیتے ہیں ، سرمدؔ نے اعلانیہ منھ سے لگایا اور درہ ٔ محتسب کا مستحق ٹھہرا ۔‘‘
’’غرض کہ جب سرمدؔ نے تو بہ نہ کی تو علماء نے بلا تامل فتوائے قتل صادر کیا اورد وسرے دن قتل گاہ میں لے گئے ، بموجب بیان مراۃ الخیال یہ واقعہ ۱۰۷۲ھ میں ہوا کہ عالم گیر کی تخت نشینی کو تین سال سے زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا ؎
’’ مو بمویم دوست شد ترسم کہ استیلائے عشق
یک انا الحق گوئے دیگر برسر دار آورد ‘‘
شاہ اسد اللہ نامی ایک مرد درویش وحق آگاہ راوی ہیں کہ :یک انا الحق گوئے دیگر برسر دار آورد ‘‘
’’ مجھے سرمدؔ کی خدمت میں کمال خصوصیت حاصل تھی ۔ جب شورش و ہنگامہ شروع ہوا تو مجھ سے نہ رہا گیا ۔ ایک دن موقع پاکر عرض کیا کہ اگر اپنی وضع وحالت بدل لیں تو بندگان الٰہی کی منت و سماجت دیکھتے ہوئے بظاہر کوئی نقصان نہیں ‘‘ یہ سن کر نظر اٹھائی اور اپنا شعر پڑھ دیا ؎
’’عمریست کہ آوازہ ٔ منصور کہن شد
من از سرنو جلوہ وہم دار و رسن را ‘‘
باقی آئندہ
٭٭٭٭
من از سرنو جلوہ وہم دار و رسن را ‘‘
باقی آئندہ
٭٭٭٭