منطقِ استخراجیہ کا باب وار خلاصہ

کتاب: منطقِ استخراجیہ
مصنف: سید کرامت حسین جعفری
خلاصہ نویس: اریب آغا ماشناس

بابِ اول : منطق کی تعریف اور اس کا موضوع


منطق: یہ وہ علم ہے جو صحیح فکر کے قوانین کا مطالعہ کرتا ہے۔

اس تعریف میں چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
1۔ علم (science)
2۔قوانین (laws)
3۔صحیح (valid)
4۔ فکر (thought)

1-علم:
علم سے مراد ہر شے سے واقفیت ہے۔ لیکن ہر واقفیت علم نہیں ہوتی۔
مثلاً آپ کا ستاروں سے متعلق واقفیت علم النجوم نہیں کہلا سکتی۔ علم کسی موضوع کے متعلق مربوط، صحیح اور مکمل واقفیت کا نام ہے۔
علوم کی دو اقسام ہیں:
الف۔ طبعی علوم (Natural Science)
ب۔ معیاری علوم (Normative Science)
طبعی علوم اشیاء کو جیسے کہ وہ ہوں بیان کرتے ہیں ۔ان کا کام ہے مشاہدے اور تجربے کے ذریعے سے مظاہرِ قدرت کی نوعیت کو سمجھنا ، ان کے متعلق قوانین معلوم کرنا سن قوانین کی مدد سے مظاہرِ قدرت کے متعلق پیشگوئی کرنا وغیرہ وغیرہ۔
معیاری علوم کی غرض و غایت اشیاء کی ہست و بود سے نہیں ہوتا بلکہ ان کی قدر و قیمت سے ہوتا ہے ۔ وہ ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ فلاں اشیاء یوں ہیں یا تھیں بلکہ انہیں یوں ہونا چاہیے۔مثلا علمِ منطق، علم اخلاق وغیرہ۔۔۔

2۔قوانین :
تمام علوم اپنے اپنے حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں (جیسے علمِ نباتات پودوں اور درختوں کا، علمِ حیوانات حیوانات کا وغیرہ)۔
لیکن ہر علم اپنے حقائق سے ایسے قوانین وضع کرنے کی کوشش کرتی ہے جو تمام حقائق پر حاوی ہو۔ ۔ مثلاً علمِ نباتات کسی خاص پودے کی نشوونما کے اسباب یا قوانین میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتا جتنی کہ نشوونما کے عمومی قوانین معلوم کرنے میں رکھتا ہے۔ اسی طرح علمِ منطق کسی خاص استدلال میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتا جتنی کہ قوانینِ استدلال میں ۔

قوانین کی اقسام:
الف۔ سیاسی قوانین: جنہیں بدلا بھی جاسکتا ہے اور توڑا بھی جاسکتا ہے۔ What must be
ب۔ قوانینِ قدرت: جنہیں نہ بدلا جاسکتا ہے اور نہ توڑا جا سکتا ہے۔ What is
ج۔ قوانینِ منطق۔ ان کا تعلق صحیح فکر سے ہے۔ یہ بدلے نہیں جا سکتے لیکن توڑے جاسکتے ہیں ۔ What should be.
صحیح قوانینِ فطرت ہمیشہ سے اٹل رہے ہیں اور ہمیشہ اٹل رہیں گے ۔ جیسے مثلاً یہ ایک قانونِ فکر ہے کہ ایک شے میں دو متضاد صفات جمع نہیں ہو سکتیں ۔
3۔صحیح:
صحتِ فکر کا مطلب ہے کہ فکر میں خود اپنی ہی تردید نہ پائی جاتی ہو، نیز فکر حقیقت کے مطابق ہو۔
انسان فانی ہیں۔
ہم انسان ہیں ۔
اس لئے ہم فانی نہیں ہیں ۔
یہ استدلال غلط ہے ، کیونکہ ہمارا نتیجہ پہلی دو باتوں سے مطابقت نہیں رکھتا ۔

انسان درخت ہیں ۔
کتے انسان ہیں ۔
اس لئے کتے درخت ہیں ۔
یہاں نتیجہ پہلی دو باتوں سے لازمی نکلتا ہے اور منافی نہیں ہے۔ اگرچہ فکر میں خود اپنی تردید پائی نہیں جاتی، پھر بھی یہ استدلال غلط ہے کیونکہ یہاں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ بیرونی حقیقت کے مخالف ہے۔
چنانچہ صحیح فکر کے دو اجزا ہوئے:
الف۔ اس میں اپنی تردید خود نہ پائی جاتی ہو۔ اسے صوری صحت یعنی Formal Validity کہتے ہیں
ب۔ وہ بیرونی حقیقت کے مطابق ہو۔ اسے مادی صحت یعنی Material Validity کہتے ہیں ۔
انہی دو اقسامِ فکر کی بنیاد پر منطق بھی دو حصوں میں منقسم ہے:
منطقِ استخراجیہ یعنی Deductive Logic
منطقِ استقرائیہ یعنی Material Logic.

4.فکر:
نفسیات اور منطق دونوں کا تعلق فکر سے ہے۔ لیکن نفسیات کا تعلق فکر کے عمل سے ہے، جبکہ منطق کا تعلق فکر کے نتائج سے ہے۔ منطق میں فکر کے تین نتائج ہیں:
الف۔ تصور (Concept)
ب۔ تصدیق (Judgement)
ج۔استنتاج (Reasoning)
تصور:
فلاں گھوڑا اچھا ہے۔ اس جملے سے ہمارے ذہن میں کسی خاص گھوڑے کی تصویر آتی ہے۔ لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ گھوڑا ایک مفید جانور ہے، تو ہمارا ذہن کسی خاص گھوڑے کی طرف نہیں ، بلکہ اس مفہوم کی طرف جاتا ہے جو تمام گھوڑوں میں مشترک ہو، یعنی نوع۔ یہاں گھوڑا تصور ہے۔ اسی طرح زید فانی ہے۔ یہاں کسی خاص انسان زید کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن انسان فانی ہے، یہاں انسان تصور ہے۔ چنانچہ تصورات اپنی اپنی نوع کے تمام افراد پر مشتمل ہیں ۔
جب تصور کو الفاظ میں ادا کیا جائے تو اسے حد یا اسم یا طرف یا Term کہتے ہیں ۔
تصدیق:
گھوڑا جانور ہے۔ یہاں دو تصورات (گھوڑا اور جانور) میں ایک تعلق پیدا ہوا ہے۔یہ تعلق دونوں تصورات کے تقابل کا نتیجہ ہے۔ اس تقابل کو عملِ تصدیق کہتے ہیں ۔ تصدیقات دو تصورات کے باہمی اتحاد یا اختلاف کو ظاہر کرتی ہیں ۔
جب تصدیق کو الفاظ میں ادا کیا جائے تو اسے منطق میں قضیہ Proposition کہا جاتا ہے۔

استنتاج:
دو تصدیقات کے درمیان کوئی مشترک عنصر تقابل پیدا کر کے استنتاج پیدا کرتا ہے۔مثلاً
گھوڑے جانور ہیں ۔
جانور فانی ہیں۔
اس لئے گھوڑے فانی ہیں ۔
تو یہاں دو تصدیقات کو ملا کر نتیجہ پیدا کیا گیا، جسے استنتاج کہا جاتا ہے۔
جب استدلال یا استنتاج کو الفاظ میں ادا کیا جائے تو اسے دلیل یا argument کہتے ہیں ۔
استنتاج کی مزید دو قسمیں ہیں:
الف۔ استنتاجِ بلا واسطہ یا استنتاجِ بدیہی یا Immediate Inference ۔۔اس کی مثال مندرجہ ذیل ہے:
تمام پٹھان مسلم ہیں۔
اس لئے کوئی پٹھان غیر مسلم نہیں ۔
ب۔ استنتاجِ بلواسطہ یا استنتاجِ نظری یا Mediate Reasoning یا قیاس۔ اس کی مثال مندرجہ ذیل ہے:
تمام پٹھان مسلم ہیں ۔
تمام کابلی پٹھان ہیں۔
اس لئے تمام کابلی مسلمان ہیں۔


وہ قضیہ یا قضیے جن سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے انہیں مقدمہ (Premise) یا مقدمات (Premises) کہا جاتا یے۔ وہ قضیہ جو بطور نتیجہ
اخذ کیا جاتا ہے، اسے نتیجہ (Conclusion) کہا جاتا ہے

(جاری ہے)
 
آخری تدوین:
بابِ دوم: فکر کے اصول

منطق اور فکر کا دارومدار چار اصول پر ہے، جنہیں اصولِ اولیہ کہا جاتا ہے ۔
یہ اصول چار ہیں:
1) اصولِ عینیت Law of Identity
2) اصولِ مانعِ اجتماعِ نقیضین Law of Non-Contradiction
3) اصولِ خارج الاوسط Law of Excluded Middle
4) اصولِ وجہء کافی Law of Sufficient Reason

1) اصولِ عینیت:
یہ اصول کہتا ہے کہ ہر شے وہی ہے، جو کہ وہ ہے۔ ایک کتا کتا ہے۔ ایک بلی بلی ہے۔
اس اصول کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ اگر الف ب ہے تو یہ ب ہے۔ مثلاً اگر لوہا ایک دھات ہے تو یہ ایک دھات ہے۔
یعنی یہ اصول یہ کہتا ہے کہ اگر ہم کسی شے کے متعلق کسی چیز کا اقرار کریں تو ہمیں ہمیشہ اس شے کے متعلق اس صفت کا اقرار کرنا چاہیے۔ اگر ہم الفاظ یا قضیے کے مفہوم کو بدلتے رہے تو فکر الجھ جائے گا۔ مثلاً کبھی شراب سے مراد مے لیا جائے تو کبھی ہر پینے والی چیز ، اس سے فکر الجھے گا۔

2)اصولِ مانعِ اجتماعِ نقیضین:
یہ اصول یہ کہتا ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی شے ایک ہی وقت میں ہو بھی اور نہ بھی ہو۔ ایک شے ایک ہی وقت میں ہست بھی اور نیست بھی ہو، ممکن نہیں ہے ۔
الف ایک ہی وقت میں ب اور غیر ب نہیں ہو سکتا۔
مثلاً "زید لائق ہے" اور" زید نالائق ہے" یہ متناقص قضیے ایک ہی وقت میں درست نہیں ہو سکتے۔دو۔نقیضین میں سے ایک ضرور غلط ہوگا ۔

3) اصولِ خارج الاوسط:
یہ اصول کہتا ہے کہ ہر شے یا ہے، یا نہیں ہے۔
یعنی الف یا تو ب ہے یا غیرِ ب۔ اس اصول کے مطابق دو نقیضین کے درمیان کوئی تیسری صورت نہیں ہوگی۔ایک طالبِ علم یا لائق ہوگا یا نالائق۔
اصولِ مانعِ اجتماعِ نقیضین یہ کہتا ہے کہ دو نقیضین ایک ہی وقت میں درست نہیں ہوسکتے۔ اصولِ خارج الاوسط یہ کہتا ہے دو نقیضین غلط بھی نہیں ہو سکتے۔
ضدین (Contraries) اور نقیضین میں فرق ہے۔ ہندو اور مسلم ضدین ہو سکتے ہیں ، نقیضین نہیں ۔ یعنی یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص نہ مسلم ہو نہ ہندو، کیونکہ تیسری صورت موجود ہو سکتی ہے۔ لیکن مسلم اور غیر مسلم نقیضین ہیں ، ان میں ایک غلط اور ایک درست ضرور ہوگا۔ ضدین آپس میں مانع (Mutually Exclusive) ہوتے ہیں مگر جامع نہیں ہوتے۔ لیکن نقیضین جامع اور مانع دونوں ہوتے ہیں ۔

4)اصولِ وجہء کافی:
یہ اصول کہتا ہے کہ اگر کوئی شے سچ ہے تو اس کے ایسا ہونے کے لیے کافی وجہ ہے۔ اگر الف ب ہے تو اس امر کے لیے کافی وجہ ہوگی کہ الف ب کیوں ہے اور چیزِ دیگر کیوں نہیں ۔
 
چوتھا باب: حدود اور ان کی اقسام

ایک قضیہ تین چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ موضوع (Subject)، محمول (Predicate) اور نسبتِ حکمیہ (Copula)۔ موضوع وہ تصور ہوتا ہے جس کے متعلق کسی دوسرے تصور کا اقرار یا انکار کیا جائے۔ محمول وہ تصور ہے جس کا موضوع سے متعلق اقرار یا انکار کیا جائے۔ ۔موضوع اور محمول کے درمیان اقرار یا انکار کے تعلق کو نسبتِ حکمیہ کہا جاتا ہے ۔مثلاً "پانی گرم ہے"۔ یہاں "پانی" موضوع ہے، "گرم" محمول ہے اور "ہے" نسبتِ حکمیہ ۔
موضوع اور محمول کو قضیے کے اطراف یا حدود کہا جاتا ہے۔ اوپر والی مثال میں پانی اور گرم دونوں حدود ہیں۔
حدود یا تو الفاظ ہو سکتے ہیں یا حروفِ جار جیسے کا، کے، کی وغیرہ۔ مثلاً "کالج کا پرنسپل مسلمان ہے" میں "کالج کا پرنسپل " اور"مسلمان" حدود ہیں۔
حدود کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں:
1) حدودِ یک‌لفظی (Single worded)
2) حدودِ کثیر الفاظ (Many worded)
3) حدودِ یک‌معنی (Univocal)
4) حدودِ ذومعنی (Equivocal)
5) حدودِ معرفہ (Singular)
6) حدودِ نکرہ (Plural)
7) حدودِ مجموعی (Collective)
8 ) حدودِ جزئی (Distributive)
9) حدودِ مثبت (Positive)
10) حدودِ منفی (Negative)
11) حدودِ سلبی (Private)
12) حدودِ ذاتی (Concrete)
13) حدودِ صفاتی (Abstract)
14) حدودِ مطلق (Absolute)
15) حدودِ اضافی (Relative)
16) حدودِ تضمنی (Connotative)
17) حدودِ غیر تضمنی (Non-Connotative)

حدودِ یک‌لفظی: وہ حدود ہیں جن میں ایک ہی لفظ ہوتا ہے جیسے کتاب، قلم، شہر وغیرہ
حدودِ کثیر الالفاظ: وہ حدود ہیں جن میں دو یا دو سے زیادہ الفاظ ہوتے ہیں ۔ جیسے میری کتاب، ہمارا شہر، یونیورسٹی کا رجسٹرار وغیرہ
یک‌معنی حدود: وہ حدود جو صرف ایک ہی معنی میں استعمال ہو سکتی ہیں ۔ مثلاً روپیہ، طالبِ علم وغیرہ۔
ذومعنی حدود: جو ایک سے زیادہ معنی میں استعمال ہو سکتی ہیں ۔ مثلاً راست، قلم، عرض، مُہر، چشمہ، سونا، زبان، بال وغیرہ
کچھ حدود دکھنے میں یک‌معنی نظر آتی ہیں لیکن ہوتی وہ ذومعنی ہیں۔ صحیح فکر کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمیں حدود کے مختلف معانی کا علم ہو اور یہ بھی کہ کوئی حد کس معنی میں استعمال ہو رہی ہے۔
حدودِ معرفہ: وہ حدود جن سے مراد ایک مفہوم میں صرف ایک ہی شے ہو۔ مثلاً لاہور، میری کتاب، پاکستان کا دارالخلافہ ۔
حدودِ نکرہ: وہ حدود جو ایک ہی مفہوم میں کسی جماعت کے ہر فرد کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ مثلاً انسان، کتاب، میز وغیرہ ۔
مجموعی حدود: جو کسی جماعت کے ہر فرد کے لیے استعمال ہونے کے بجائے پوری جماعت کے لیے استعمال ہوتی ہیں ۔ مثلاً کتب‌خانہ۔ ہہ حد ہر ایک کتاب کے لیے استعمال نہیں ہوتی بلکہ کتابوں کے صرف اس مجموعے کے لیے مستعمل ہے جسے کتب‌خانہ کہتے ہیں ۔اسی طرح قوم، فوج، کمیٹی وغیرہ ہیں ۔ حدودِ مجموعی معرفہ اور نکرہ دونوں ہو سکتی ہیں ۔
جزئی حدود:وہ حدود جو کسی جماعت کے ہر فرد کے مستعمل ہوں۔ مثلاً درخت، قلم، سپاہی وغیرہ۔۔۔
مثبت حدود: وہ حد ہوتی ہے جو کسی شے یا صفت کی موجودگی کو ظاہر کرے۔ مثلاً لائق، مسلم، دیانت وغیرہ۔
منفی حدود: جو کسی شے یا صفت کی عدم‌موجودگی کو ظاہر کرے۔ مثلاً نالائق، غیرمسلم، بددیانت وغیرہ۔
حدودِ سلبی: جو کسی صفت کے متعلق ایک ایسی صفت کی غیر حاضری کو ظاہر کرے جو عام طور پر اس شے میں پائی جاتی ہے۔ مثلاً اندھا، بہرا، گونگا، لنگڑا وغیرہ۔ اندھا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک جانور جو عموماً بینائی رکھتا ہے، اب بینائی سے محروم ہے۔
ذاتی حدود: وہ حدود جو اشیاء کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ مثلاً آدمی، حیوان، دوست وغیرہ۔
صفاتی حدود: جو صفات کی طرف اشارہ کریں۔ مثلاً آدمیت، حیوانیت، دوستی وغیرہ۔ ایسے الفاظ اگر کسی قضیے میں محمول ہوں تو حدودِ ذاتی شمار کیے جائیں گے ۔ مثلاً
میری ٹوپی سرخ ہے۔ یہاں سرخ حدِ ذاتی ہے۔
لیکن اگر یہ الفاظ موضوع ہیں تو پھر حدودِ صفاتی شمار ہوں گے۔ مثلاً سیاہ ماتم کا نشان ہے۔ یہاں سیاہ سے مراد سیاہی ہے، جو کہ حدِ صفاتی ہے۔
مطلق حدود: جو کسی دوسری حد کی طرف اشارہ کرنے کے بغیر سمجھی جا سکے۔ مثلاً میز، کتاب گھوڑا وغیرہ
اضافی حدود: جو کسی اور حد کی طرف لازمی طور پر اشارہ کرے۔ مثلا باپ، بیٹا، خاوند بیوی وغیرہ۔ خاوند کا مفہوم بیوی کے مفہوم کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی طرح باپ کا مفہوم بیٹے کے بغیر ناممکن ہے۔
تضمنی حدود اور غیر تضمنی حدود:
حدود کے مفہوم دو باتوں پر مشتمل ہوتی ہیں:
دلالتِ افرادی یا تعبیر Denotation
دلالتِ وصفی یا تضمن Connotation
یعنی حدود اشیاء یا افراد کی طرف اشارہ کرتی ہیں ، اور دوم یہ کہ ان صفات کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو ان اشیاء کے لیے لازمی ہیں۔ مثلاً انسان سے مراد اول وہ تمام افراد (دلالتِ افرادی)ہیں جنہیں انسان کہا جاتا ہے اور دوم وہ صفات (دلالتِ وصفی) جن کی وجہ سے انسان کو انسان کہا جاتا ہے۔ ۔
چنانچہ ایسی حدود جن سے مراد اشیاء بھی ہوں اور صفات بھی، جن کی وجہ سے اشیاء کو ہم وہ نام دیتے ہیں جو کہ ان کے ہیں ، حدودِ تضمنی کہلاتی ہیں ۔ میز، کرسی، انسان وغیرہ ۔ یعنی حدودِ تضمنی میں دلالتِ افرادی اور دلالتِ وصفی دونوں موجود ہوتی ہیں ۔
حدودِ غیر تضمنی وہ حدود ہیں جن میں یا تو صرف تعبیر پائی جاتی ہے (یعنی صرف افراد کی طرف اشارہ کرتی ہیں ) یا صرف تضمن (یعنی صرف صفات کی طرف اشارہ کرتی ہیں)۔ مثلاً زید سے مراد صرف وہ فرد ہے جو زید کہلاتا ہے ۔ اس سے مراد کوئی صفات نہیں جن کی وجہ سے زید کو زید کہا جاتا ہے۔ اسی طرح سفیدی، شجاعت بھی حدودِ غیرتضمنی ہیں کیونکہ ان سے مراد صرف صفات ہیں، افراد نہیں ۔

(ان سب اقسام میں مزید تفصیلات بھی موجود ہیں جن کے لیے کتاب کا براہِ راست مطالعہ ہی مناسب ہے۔ چونکہ یہ خلاصہ ہے، اس لئے ان تفصیلات اور وضاحت کو یہاں سپردِ قلم نہیں کیا گیا)
 
آخری تدوین:
پانچواں باب: حدود کی تعبیر اور تضمن

مفہوم کے لحاظ سے حدود کی دلالت دو قسموں کی ہوتی ہے۔ تضمن اور تعبیر۔ حدود کی دلالتِ افرادی کو ان کی تعبیر کہتے ہیں جبکہ حدود کی دلالتِ وصفی کو ان کا تضمن کہتے ہیں ۔انسان کی تعبیر سے یعنی دلالتِ افرادی سے مراد دنیا کے تمام وہ افراد ہیں جنہیں انسان کہا جاتا ہے۔ اور انسان کے تضمن سے مراد وہ ضروری صفات ہیں جو تمام انسانوں میں پائی جاتی ہیں اور جن کی وجہ سے انسان کو انسان کہا جاتا ہے ۔
تعبیر اور تضمن کے فرق کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ تعبیر میں ایک حد تمام افراد یا اشیاء کے لئے محمول بن سکتی ہے۔ مثلاً زید انسان ہے۔ تضمن میں تمام صفات ایک حد کے لئے محمول بن سکتی ہیں ۔ مثلاً انسان کی صفات میں حیوانیت اور عقل شامل ہیں ۔ اگر ان دو صفات کو علامتِ ص سے ظاہر کی جائیں تو یہ تضمن انسان کے لیے محمول بن سکتا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان ص ہے۔
تضمن اور تعبیر میں تعلق
تضمن اور تعبیر میں تعلقِ معکوس پایا جاتا ہے۔ یعنی اگر تعبیر کو بڑھایا جائے تو تضمن میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور اگر تضمن کو بڑھایا جائے تو تعبیر میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اس کی مثال ایسے دی جا سکتی ہے:
حیوان-------»انسان-----» طلبہ---------»کالج کے طلبہ
حیوان سے انسان، طلبہ اور کالج کے طلبہ کی طرف بڑھتے ہوئے تضمن یعنی دلالتِ وصفی بڑھ رہی ہے جبکہ تعبیر یعنی دلالتِ افرادی کم ہو رہی ہے ۔جبکہ کالج کے طلبہ سے حیوان کی طرف بڑھتے ہوئے تضمن کم ہو رہا ہے جبکہ تعبیر بڑھ رہی ہے۔ یعنی انسان کی تعبیر یعنی انسانوں کی تعداد حیوان کی تعبیر یعنی تعداد سے کم ہے۔اسی طرح طلبہ کی تعداد تمام انسانوں کی تعداد سے کم ہے۔ اور کالج کے طلبہ کی تعداد تمام طلبہ کی تعداد سے کم ہے۔ لیکن انسان کا تضمن حیوان کے تضمن سے زیادہ ہے کیونکہ حیوان میں صرف حیوانیت پائی جاتی ہے جبکہ انسان میں حیوانیت کے علاوہ عقل بھی پائی جاتی ہے۔ طلبہ میں انسان کی تمام صفات کے علاوہ طالبِ علم ہونے کی صفت بھی پائی جاتی ہے ۔ کالج کے طلبہ کا تضمن طلبہ کے تضمن سے زیادہ ہے کیونکہ طلبہ کی صفت کے علاوہ کالج کے طالب علم ہونے کی صفت بھی پائی جاتی ہے۔
تعبیر اور تضمن کا باہمی تعلق صرف متعلق حدود کی مدد سے ہی ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ صرف ایک حد (مثلاً انسان) سے ہم تعبیر اور تضمن کے گھٹنے بڑھنے کو ظاہر نہیں کر سکتے۔
تضمن اور تعبیر کے گھٹنے بڑھنے کا کوئی خاص تناسب نہیں ہے ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر تعبیر دگنی ہوجائے تو تضمن آدھا رہ جائے گا یا اس کے برعکس۔ ہوسکتا ہے کہ ایک صفت کے بڑھانے سے تعبیر میں تھوڑی کمی واقع ہو اور ایک اور صفت کے بڑھانے سے زیادہ کمی واقع ہو۔ مثلاً
آدمی------»سفید آدمی
آدمی-----»ایمان دار آدمی

دونوں صورتوں میں تعبیر کم ہوگی لیکن ایک جیسی کم نہیں ہوگی۔ دوسری صورت میں تعبیر پہلی صورت سے زیادہ کم ہوگی کیونکہ ایماندار آدمیوں کی تعداد سفید آدمیوں سے کم ہے ۔
تضمن بڑھانے سے تعبیر یعنی تعداد میں کمی واقع ہوتی ہے لیکن اگر کوئی ایسی صفت کا اضافہ ہو جو اس جماعت کے تمام افراد میں پائی جاتی ہو تو اس صورت میں تعبیر میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ مثلاً فانی انسان، گول دائرہ وغیرہ ۔ ہر انسان کی صفت ہے فانی ہونا، فلہذا فانی انسانوں کی تعداد انسانوں سے کم نہیں ، اس لئے تعبیر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔اسی طرح گول ہونے کی صفت تمام دائروں میں پائی جاتی ہے ، اسی لیے تعبیر میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تعبیر اور تضمن میں فوقیت
تعبیر اور تضمن میں کسے فوقیت دی جاتی ہے؟ نفسیات میں تعبیر کو تضمن پر فوقیت ہے کیونکہ انسانی ذہن ہمیشہ سب سے پہلے تعبیر کی طرف جاتا ہے اور پھر تضمن کی طرف۔ یعنی لفظ آدمی بولنے سے ہمارا ذہن سب سے پہلے ان افراد کی طرف جاتا ہے جنہیں آدمی بولا جاتا ہے، بعد ازاں ان صفات کی طرف جاتا ہے جو آدمی میں پائی جاتی ہیں ۔ لیکن علمِ منطق میں ہمیشہ تضمن کو تعبیر پر فوقیت دی جاتی ہے کیونکہ آدمی کی صفات کے حامل ہوئے بغیر کوئی بھی فرد یا شے آدمی نہیں کہلائی جا سکتی۔
 
چھٹا باب: حدودِ قابل الحمل (Predicables)

جیسا کہ ہم پڑھ چکے ہیں کہ ایک قضیہ موضوع ، محمول اور نسبتِ حکمیہ پر مشتمل ہوتا ہے ۔ موضوع اور محمول میں پانچ قسم کے تعلقات ممکن ہیں:

1۔ جنس Genus
2۔نوع species
3۔ فصل Differentia
4۔خاصہ Property
5۔عرض Accident



جنس اور نوع:

ہم پچھلے باب میں پڑھ چکے ہیں کہ دو حدود آپس میں اس طرح متعلق ہو سکتی ہیں کہ ایک کی تعبیر دوسری کی تعبیر میں شامل ہوں ۔یعنی ایک بلحاظِ تعبیر بڑی جماعت ہو اور دوسری بلحاظِ تعبیر چھوٹی جماعت ہو۔مثلا حیوان اور انسان۔ حیوان بڑی جماعت ہے جس میں انسان کی جماعت شامل ہے۔ایسی بڑی جماعت کو جس میں چھوٹی جماعتیں شامل ہوں جنس کہتے ہیں ، اور ایک چھوٹی جماعت کو جو ایک بڑی جماعت میں شامل ہو نوع کہتے ہیں ۔

نوع اور جنس کا فرق محض ایک اضافی فرق ہے کیونکہ ایک ہی حد بیک وقت نوع بھی ہوسکتی ہے اور جنس بھی ۔ مثلاً انسان حیوان کے مقابلے میں نوع ہے لیکن طلبہ کے مقابلے میں جنس ہے۔

اگر ہم انواع سے اجناس کی طرف جائیں تو آخر میں ہم ایک ایسی جماعت تک پہنچ جائیں گے جو سب سے بڑی ہے اور جو کسی بڑی جماعت کی نوع نہیں بن سکتی ۔ ایسی وسیع ترین جماعت کو جنسِ عالی یا جنس الاجناس یا Summum Genus کہتے ہیں ۔اسی طرح سب سے چھوٹی جماعت کو جس میں کوئی اور اس سے چھوٹی جماعت شامل نہ ہو نوعِ سافل یعنی Infima Species کہتے ہیں ۔



نوعِ سافل کی تقسیم افراد میں ہو سکتی ہے لیکن جماعتوں میں نہیں ۔ مثلاً شکلوں کی تقسیم ہم مثلثوں، دائروں ، مستطیلوں میں کر سکتے ہیں ۔ مثلثوں کی تقسیم پھر مساوی الاضلاع ، مساوی الساقین اور مختلف الاضلاع مثلثوں میں کرسکتے ہیں ۔ لیکن اب یہ تین انواع انواعِ سافل ہوں گی کیونکہ انہیں مزید جماعتوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

جنسِ عالی اور نوعِ سافل کے درمیان اجناس و انواع کو اجناسِ متوسط اور انواعِ متوسط کہا جاتا ہے۔ اگر ایک جنس اور ایک نوع ایک دوسرے کے قریب ہوں تو وہ ایک دوسرے کی جنسِ قریب اور نوعِ قریب کہلاتی ہیں ۔ اور اگر ایک دوسرے سے دور ہوں تو جنسِ بعید اور نوعِ بعید کہلاتی ہیں ۔مثلا حیوان اور انسان آپس میں جنسِ قریب اور نوعِ قریب ہیں ، لیکن طلبہ اور حیوان آپس میں نوعِ بعید اور جنسِ بعید ہیں۔



فصل:

وہ صفات جو نوع کو اس کی جنس سے ممیز کرتی ہیں فصل کہلاتی ہیں ۔ انسان حیوان کی نوع ہے کیونکہ دونوں میں حیوانیت پائی جاتی ہے، لیکن وہ تضمن ،جو انسان کو حیوان سے ممیز کرتی ہے ، تعقل ہے ۔ فلہذا تعقل انسان کا فصل ہے۔ بالفاظِ دیگر جنس کے تضمن اور نوع کے تضمن کے فرق کو فصل کہتے ہیں ۔



خاصہ:

خاصہ اس صفت کو کہتے ہیں جو اگرچہ تضمن میں بیان نہیں کی جاتیں لیکن لازمی طور پر تضمن سے اخذ کی جاتی ہیں ۔مثلا کھانا، پینا، سوچنا، لکھنے پڑھنے کے قابل ہونا انسان کے خاصے ہیں ۔یہ تضمن میں بیان نہیں کی جاتیں مگر اس کے تضمن (حیوانیت اور تعقل) سے لازمی طور پر نکلتے ہیں ۔پس خاصہ تضمن پر مبنی ہوتا ہے۔

خاصہ دو قسموں کا ہوتا ہے: خاصہء نوعی اور خاصہء جنسی۔ اول الذکر کا تعلق نوع کی فصل سے ہے جبکہ موخر الذکر کا تعلق جنس کی فصل سے ہے۔انسان کا لکھنا پڑھنا سوچنا خاصہء نوعی ہیں جبکہ کھانا پینا سونا خاصہء جنسی ہیں۔



عرض:

عرض سے مراد کسی جنس یا نوع یا فرد کی وہ صفت ہوتی ہے جو نہ تو اس جماعت یا فرد کے تضمن کا جزو ہو اور نہ ہی اس کے تضمن سے اخذ کی جاسکے۔ عرض ایسی صفت کو کہتے ہیں جو کسی جماعت یا فرد میں اتفاقی طور پر موجود ہو اور جس کا اس جماعت یا فرد کی اصلیت سے کوئی تعلق نہ ہو۔یہ کسی جماعت یا فرد کے لیے لازم نہیں ہوتی اور اس کی موجودگی یا عدم موجودگی سے اس جماعت یا فرد کی اصلیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔مثلا اگر کوئی آدمی سفید یا سیاہ نہ بھی ہو تو بھی آدمی ہو سکتا ہے۔انسان کا رنگ نہ تو اس کی حیوانیت سے اخذ کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے تعقل سے۔

عرض ایک جماعت کا بھی ہوسکتا ہے اور ایک فرد کا بھی۔ اس کے علاوہ عرض فارق separable بھی ہوسکتا ہے اور غیر فارق inseparable بھی۔ چنانچہ عرض کی چار قسمیں ہوئیں:

1۔جماعت کا عرضِ فارق (وہ عرض جو اس جماعت کے کچھ افراد میں موجود ہو اور کچھ میں نہ ہو۔ مثلا کتوں کا سیاہ ہونا، آدمیوں کا امیر ہونا)

2۔جماعت کا عرضِ غیر فارق۔ (وہ عرض جو اس جماعت کے تمام افراد میں موجود ہو۔ مثلاً کوؤں کا سیاہ ہونا۔ بگلوں کا سفید ہونا)

3۔فرد کا عرضِ فارق۔ (وہ عرض جو تبدیل کیا جاسکے یا ترک کیا جاسکے۔ مثلاً کسی آدمی کا مذہب یا پیشہ)

4۔فرد کا عرضِ غیر فارق۔(وہ عرض جو تبدیل یا ترک نہ کیا جا سکے۔مثلا جائے پیدائش یا ولدیت وغیرہ)



بعض اوقات جماعت کے عرضِ غیر فارق اور خاصے میں تمیز کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ دونوں کسی جماعت کے تمام افراد میں پائے جاتے ہیں اور دونوں تضمن میں بیان نہیں کیے جاتے۔مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ خاصہ تو تضمن سے اخذ کیا جاسکتا ہے لیکن عرضِ غیر فارق تضمن سے اخذ نہیں کیا جاسکتا۔انسان کے سوچنے سمجھنے کا خاصہ اس کے تضمن یعنی تعقل میں پایا جاتا ہے۔ اس کا فانی ہونا اس کی حیوانیت میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس فرد کی تاریِخ پیدائش یا ولدیت کی وجہ نہ تو اس کے تعقل میں پایا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی حیوانیت میں۔



ہم نے اس باب میں پڑھا کہ محمول کو اپنے موضوع کے ساتھ پانچ قسم کے تعلقات ہو سکتے ہیں ۔ ان میں سے جنس اور نوع سے مراد جماعتیں ہیں ۔ فصل، خاصے اور عرض سے مراد صفات ہوتی ہیں ۔
 
بےپناہ داد و تحسین آپ کے لیے جو آپ نے اتنی دلچسپی دکھائی۔ ورنہ منطق جیسے خشک مضمون سے لوگ راہِ گریز اختیار کرتے ہیں ۔
سوئم باب : منطق کی تقسیم
جیسا کہ ہم نے کہا کہ فکر کے تین نتائج ہیں: تصورات ، تصدیقات اور استنتاج۔ چنانچہ اگلے ابواب میں ہم فرداً فرداً ہر نتیجے سے متعلق بحث کریں گے ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بےپناہ داد و تحسین آپ کے لیے جو آپ نے اتنی دلچسپی دکھائی۔ ورنہ منطق جیسے خشک مضمون سے لوگ راہِ گریز اختیار کرتے ہیں ۔

سوئم باب : منطق کی تقسیم
جیسا کہ ہم نے کہا کہ فکر کے تین نتائج ہیں: تصورات ، تصدیقات اور استنتاج۔ چنانچہ اگلے ابواب میں ہم فرداً فرداً ہر نتیجے سے متعلق بحث کریں گے ۔
میں نے پڑھنا شروع کیا تو پڑھ ہی لیا۔۔۔۔ سمجھ بوجھ تو میری واجبی سی ہے۔۔۔ مگر ہمت کر لی۔

باب سوئم تو بہت چھوٹا سا ہے۔۔۔۔۔
 
ساتواں باب: تعریف

تعریف کسے کہتے ہیں ؟ جب ہم کسی شے کی تعریف کرتے ہیں تو ہم اس شے کی وہ صفات بیان کرتے ہیں جن کی موجودگی اس شے کے لیے لازمی ہوتی ہے۔ ایسی صفات کو تضمن کہتے ہیں ۔چنانچہ تعریف سے مراد ہے کسی شے کا تضمن بیان کرنا ۔ ایک شے میں بہت سی صفات پائی جاتی ہیں ۔ مگر جب ہم اس شے کی تعریف کرتے ہیں تو اس کی تمام صفات کو بیان نہیں کرتے۔ صرف انہی صفات کو شامل کیا جاتا ہے جو کہ اس کا تضمن ہیں ۔ یعنی انسان کی تعریف میں یہ کہنا کافی ہے کہ وہ حیوانِ عاقل ہے۔

تعریف کس طرح وضع کی جاتی ہے ؟
تعریف کا کام تضمن کی حدبندی کرنا ہے ۔ اس کے لیے دو باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔
اول اس شے اور اسی جماعت کی دیگر اشیاء میں کون سی صفات مشترک ہیں ۔ یعنی ہمیں اس جماعت کی نمائندہ افراد کو جمع کرنا ہوتا ہے اور پھر ان کا موازنہ کرکے ان صفات کو معلوم کرنا ہوتا ہے جو ان سب افراد میں مشترک ہیں ۔ لیکن یہ صفات فقط تضمن کی ہوں، خاصہ اور غیر فارق عرض کی نہ ہوں
دوم مخالف یا متضاد جماعتوں کے افراد کو بھی جمع کرنا ہوتا ہے اور ان صفات کو دیکھنا ہوتا ہے جن میں وہ آپس میں مختلف ہیں ۔لیکن یہ صفات بھی تضمن والی یعنی جو ان جماعتوں کا طغرائے امتیاز ہو۔
تعریف کے وضع کرنے کے سلسلے میں ایک قانون عموماً بیان کیا جاتا ہے کہ تعریف جنسِ قریب اور فصل پر مشتمل ہونی چاہیے ۔ مثلاً انسان کی تعریف کرتے ہوئے ہمیں اس کی جنسِ قریب یعنی حیوان کو لینا ہے اور پھر فصل یعنی تعقل۔

قواعدِ تعریف:
اول قاعدہ: تعریف میں تعریف‌شدہ حد کا مکمل تضمن بیان کرنا چاہیے ۔ نہ اس سے کم نہ زیادہ۔
یعنی غیر ضروری اور غیر اساسی صفات کو شامل نہیں کرنا (کیونکہ وہ فالتو صفت یا خاصہ ہوگی یا پھر عرضِ غیر فارق یا عرضِ فارق) اور ضروری اور اساسی صفات کو چھوڑنا نہیں ۔ مثلاً یہ کہنا انسان ایک حیوانِ عاقل ہے جو کہ فانی (خاصہ) ہے، صحیح تعریف نہیں کیونکہ فانی ہونا حیوانیت سے اخذ کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ، انسان حیوانِ عاقل ہے جو ہنس سکتا ہے (عرضِ غیر فارق)، بھی درست تعریف نہیں کیونکہ ہنسنا ایسی صفت ہے جو کہ انسان کے تضمن میں شامل نہیں ۔اسی طرح ، انسان ایک حیوانِ عاقل ہے جو مسلمان ہے ( صفتِ غیر فارق)، درست نہیں کیونکہ یہاں تعریف کو تنگ کر دیا گیا ہے اور صرف ان افراد پر اطلاق کر دیا گیا ہے جو مسلمان ہیں۔
اسی طرح تضمن سے کم صفات تعریف میں بیان کی جائیں تو تعریف شدہ حد وسیع ہوجائے گی اور ان افراد کو شامل کر لے گی جو کہ اس حد کی تعبیر میں شامل نہیں ۔مثلا انسان حیوان ہے، ایک غلط تعریف ہے کیونکہ اس کے مطابق انسان کی تعریف میں وہ حیوان بھی شامل ہو جائیں گے جو انسان نہیں ہیں ۔
قاعدہ دوم: تعریف مبہم ،مشکل اور پیچیدہ الفاظ میں نہیں ہونی چاہیے ۔
مثلاً اونٹ ریگستان کا جہاز ہے۔ حیا عورت کا زیور ہے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ یہ درست تعریف نہیں کیونکہ تعریف کا مقصد کسی حد کے مفہوم کو واضح کرنا ہوتا ہے ۔
قاعدہ سوم: تعریف میں تعریف‌شدہ حد کا نام یا اس کے مترادف الفاظ نہیں ہونے چاہیے۔
تعریف کا مقصد یہ ہے کہ جس چیز کو ہم نہیں جانتے، اسے ایسے الفاظ میں بیان کیا جائے جن سے ہمیں اس کے متعلق علم حاصل ہو۔ لیکن اگر تعریف میں تعریف‌شدہ چیز کا نام یا اس کا مترادف استعمال کریں گے تو ہمیں اس چیز کے متعلق کوئی علم حاصل نہیں ہوگا۔
مثلاً منصف وہ ہے جو انصاف کرے۔ نیکی خیر ہے۔ برائی شر ہے۔سچائی سچ بولنے کا نام ہے وغیرہ۔ایسی تعریف میں مغالطہء دور یعنی Fallacy of Circle پایا جاتا ہے۔ اس لئے انہیں دوری تعریف یعنی Circular definitions کہا جاتا ہے۔

قاعدہ چہارم: تعریف حتی الوسع مثبت ہونی چاہیے۔
اگر تعریف سلبی یعنی منفی ہو تو وہ ہمیں یہ بتائے گی کہ کوئی چیز کیا چیز نہیں ہے ۔جبکہ تعریف کا مقصد ہی یہ ہے کہ کوئی چیز کیا ہے۔انسان کی یہ تعریف کہ انسان جانور نہیں ہے ۔ نیکی کی یہ تعریف کہ نیکی بدی نہیں ہے ، بےفائدہ تعریفیں ہیں ۔ جب کسی حد کی مثبت تعریف ممکن ہو تو اس کی سلبی تعریف کرنے کو مغالطہء تعریفِ سلبی یعنی Fallacy of Negative Definition کہتے ہیں ۔
لیکن اگر کوئی حد منفی ہو تو اس کی سلبی تعریف جائز ہے۔ مثلاً کنوارے کی تعریف کہ کنوارہ وہ ہے جس کی شادی نہ ہوئی ہو، جائز ہے ۔اندھا وہ ہے جو دیکھ نہ سکے۔ وغیرہ
مغالطہء تعریفِ سلبی اسی صورت میں پیدا ہوتی ہے جب حد کی مثبت تعریف ممکن ہو۔

تعریف کن حدود کی ممکن نہیں ؟
1)اسمائے خاص یعنی Proper names
2) ایک فردِ واحد۔ جیسے انسان کہ تعریف تو ممکن ہے لیکن "یہ انسان" کی ممکن نہیں ۔ کیونکہ تعریف شدہ حد کو کسی جماعت کے تحت ظاہر کرنا ضروری ہے ۔
3)سادہ ترین تصورات ۔کیونکہ ہمیں سادہ ترین تصورات کے لیے ان سے زیادہ سادہ الفاظ مل نہیں سکتے۔

تعریف اور تشبیہ میں اختلاف:
1) تعریف میں صرف تضمن یعنی ضروری صفات بیان کیں جاتی ہیں جبکہ تشبیہ میں ضروری اور غیر ضروری دونوں بیان کی جاتی ہیں ۔ تشںیہ کا تعلق نمایاں اور سطحی صفات سے ہوتا ہے جبکہ تعریف کا تعلق ضروری اور اساسی صفات سے ہوتا ہے۔
2)تعریف سے ہمیں کسی چیز کا علم ہوتا ہے جبکہ تشبیہ سے صرف ہمارے ذہن میں اس کی تصویر بنتی ہے۔
3)تعریف کی بنیاد فکر پر ہوتی ہے جبکہ تشبیہ کا تعلق ادراک، یاد اور تخیل سے ہوتا ہے
4)تعریف صرف جماعتوں کی ہوسکتی ہے، فرد کی نہیں ۔ جبکہ تشبیہ فرد کی بھی ممکن ہے۔
5) تعریف مختصر ہوتی ہے لیکن تشبیہ طویل بھی ہو سکتی ہے۔
 
آٹھواں باب: تقسیم

منطقی تقسیم کسے کہتے ہیں ؟ منظقی تعریف سے مراد ہے کسی حد کے تضمن کا تجزیہ، ذور منطقی تقسیم سے مراد ہے کسی حد کی تعبیر کا تجزیہ، یعنی کسی جنس کو اس کی انواع میں تقسیم کرنا (یعنی کسی بڑی جماعت کو مشمولہ چھوٹی جماعتوں میں تقسیم کرنا)۔ مثلاً آدمیوں کی مسلمانوں ، ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں وغیرہ میں تقسیم کرنا۔
لیکن آدمیوں کی تقسیم احمد، موہن وغیرہ میں درست نہیں کیونکہ احمد، موہن افراد ہیں ، جماعتیں نہیں ۔ فلہذا منطقی تقسیم کو ان دیگر عملوں سے ممیز کرنا چاہیے جنہیں عام طور پر تقسیم کہا جاتا ہے۔ یہ عمل تین ہیں:
تحلیلِ طبعی ( Physical Analysis)
مابعد الطبیعیاتی تجزیہ (Metaphysical Analysis)
گنتی (Enumeration)

اگر کسی جماعت کو اس کی چھوٹی جماعتوں میں تقسیم کیا جائے تو وہ منطقی تقسیم ہوگی۔ اگر کسی ایک فرد کو اس کے مختلف اجزاء یا حصوں میں تقسیم کیا جائے تو وہ تحلیلِ طبعی ہوگی جیسے ایک آدمی کو ناک، پاؤں ، ہاتھ وغیرہ میں تقسیم کر نا
۔
مابعد الطبیعیاتی تجزیہ میں کسی فرد کو اس کی صفات میں تحلیل کیا جاتا ہے مثلاً ایک آدمی کا تجزیہ اس کی صفات یعنی حیوانیت ، انسانیت وغیرہ میں کریں۔ منطقی تقسیم کا تعلق تعبیر سے ہے جبکہ مابعد الطبیعیاتی تجزیہ کا تعلق تضمن سے ہوتا ہے۔
گنتی میں ایک جماعت کے مشمولہ افراد کو گن دیا جاتا ہے۔ مثلاً مختلف سیاروں کے نام گننا تقسیم نہیں بلکہ گنتی ہے۔
منطقی تقسیم میں تقسیم شدہ جماعت اپنی چھوٹی جماعتوں میں سے ہر ایک کے لیے محمول بن سکتی ہے، مگر چھوٹی جماعتیں تقسیم شدہ جماعت کے لیے محمول نہیں بن سکتیں۔ مثلاً "گدھے حیوان ہیں" درست ہے، لیکن "حیوان گدھے ہیں" درست نہیں ۔
مابعد الطبیعیاتی تجزیہ میں تحلیل شدہ فرد اپنی مشمولہ صفات کے لیے محمول نہیں بن سکتا لیکن مشمولہ صفات اس فرد کے لیے محمول بن سکتی ہیں ۔ مثلاً کھانڈ سفید ہے ، درست ہے، لیکن سفیدی کھانڈ ہے، درست نہیں ۔
تحلیلِ طبعی میں فرد اور مشمولہ اجزاء دونوں ایک دوسرے کے لیے محمول نہیں بن سکتے ۔ مثلاً "درخت ٹہنیاں ہیں" اور " ٹہنیاں درخت ہیں" دونوں درست نہیں ۔
عملِ تقسیم میں وہ جماعت جسے تقسیم کیا جاتا ہے ، تقسیم شدہ جماعت کہلاتی ہے۔ وہ جماعتیں جن میں اس جماعت کو تقسیم کیا جاتا ہے، اجزائے تقسیم کہلاتی ہیں ۔ اور وہ بنیاد جس کی بناء پر کسی جماعت کو اس کی مشمولہ جماعتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، بنیادِ تقسیم کہلاتی ہے۔

قواعدِ تقسیم:
پہلا قاعدہ
: بنیادِ تقسیم صرف ایک ہونی چاہیے ۔
اجزائے تقسیم ایک دوسرے سے علیحدہ (Mutually Exclusive) ہونی چاہیے ۔اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے جب بنیادِ تقسیم ایک ہو۔ چنانچہ آدمیوں کی تقسیم ہندؤوں ، سکھوں ، مسلمانوں وغیرہ میں درست ہے کیونکہ بنیادِ تقسیم ایک ہی ہے یعنی مذہب، لیکن مسلمانوں، ڈاکٹروں، ادیبوں میں کرنا غلط ہے کیونکہ یہ تینوں جماعتیں آپس میں مانع نہیں ہیں، اور بنیادِ تقسیم ایک نہیں ہے۔ ایک ڈاکٹر ادیب بھی ہوسکتا ہے اور مسلمان بھی۔ ایسی تقسیم کو خلط ملط تقسیم (Cross Division) کہتے ہیں ۔

دوسرا قاعدہ: بنیادِ تقسیم عرضِ فارق ہونا چاہیے ۔
کسی جماعت کو مشمولہ جماعتوں میں تقسیم کرتے وقت ہمارے پیشِ نظر ایسی صفت ہونی چاہیے جو بعض مشمولہ جماعتوں میں ہو اور بعض میں نہ ہو، جسے عرضِ فارق کہتے ہیں ۔ وہ صفت جو تمام مشمولہ جماعتوں میں ہو، بنیادِ تقسیم نہیں بن سکتی۔ چنانچہ فصل، خاصہ اور عرضِ غیر فارق بنیادِ تقسیم نہیں بن سکتے۔
تیسرا قاعدہ: ایک جماعت یا جنس کو اس کی انواعِ قریب میں تقسیم کرنا چاہیے۔
مثلاً جانداروں کی تقسیم سالِ اول کے طلباء اور سالِ دوم کے طلباء میں کرنا غلط ہے کیونکہ یہ دونوں جانداروں کی انواعِ بعید ہیں ۔ چنانچہ پہلے جانداروں کو انسانوں اور غیر انسانوں میں تقسیم کرنا چاہیے ، پھر انسانوں کو طلبہ اور غیر طلبہ میں کرنا چاہیے اور ازاں پس طلبہ کو سالِ اول اور سالِ دوم کے طلباء میں تقسیم کرنا چاہیے ۔ پھر اس طرح ان کو بھی بتدریج تقسیم کرنا چاہیے تاآنکہ ہم انواعِ سافل تک پہنچ جائیں ۔
چوتھا قاعدہ: تقسیم جامع ہونی چاہیے ۔
اجزائے تقسیم کی مجموعی تعبیر تقسیم شدہ جماعت کی تعبیر کے برابر ہونی چاہیے ۔نہ کم ہونی چاہیے ، نہ زیادہ ۔ اگر کم ہوئی تقسیم تنگ ہو جائے گی اور اگر زیادہ ہوئی تو تقسیم وسیع ہوجائے گی۔
چنانچہ اگر جانداروں کو انسانوں اور حیوانوں میں تقسیم کیا جائے تو تمام انسان اور تمام حیوان مل کر تمام جانداروں کے برابر ہوں گے۔
لیکن اگر ہم مذہب کی بناء پر انسانوں کو صرف ہندو اور مسلمان میں تقسیم کریں تو پھر سکھ، عیسائی اور دیگر جماعتیں انسانوں کی تعریف سے خارج ہو جائیں گی، یعنی ہماری تقسیم تنگ ہوجائے گی۔ اور اگر ہم انسانوں کی مشمولہ جماعتیں بیان کرتے ہوئے فرشتوں کی جماعت بھی شامل کر دیں تو تقسیم وسیع ہوجائے گی۔
اس قاعدے کا پورا کرنا ایک مشکل کام ہے۔ عین ممکن ہے ہمارے علم کے محدود ہونے کی بناء پر ہم سے کوئی مشمولہ جماعت نظر انداز ہوجائے ۔اس سے بچنے کے لیے ہم تقسیم ہونے والی جماعت کو دو متناقص جماعتوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ یعنی انسانوں کو مسلمانوں اور غیر مسلموں میں تقسیم کرنا۔ اس میں تمام مذاہب آجائیں گے ۔ اسی طرح انسانوں کو پاکستانیوں اور غیر پاکستانیوں میں تقسیم کرنا۔ ایسی تقسیم کو جس میں کسی جماعت کو اس کی دو متناقص جماعتوں میں تقسیم کیا جائے ، تقسیمِ تنقیضی یا تنصیف (Division by dichotomy) کہتے ہیں ۔ اس تقسیم کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں اجزائے تقسیم جامع بھی ہوتے ہیں یا مانع بھی۔
تنصیف ایک جماعت کو کسی صفت کی بناء پر دو جماعتوں میں تقسیم کرتا ہے (یعنی ایک وہ جماعت جس میں وہ صفت موجود ہو، اور دوسری وہ جماعت جس میں وہ صفت موجود نہ ہو)۔ تنصیف کی بنیاد اصولِ مانعِ اجتماعِ نقیضین اور اصولِ خارج الاوسط پر ہوتی ہے۔ لیکن اس کے مندرجہ ذیل نقائص ہیں:
1) یہ تقسیم دو میں سے ایک جماعت کو نامعلوم اور غیر واضح رکھتی ہے۔ مثلاً پاکستانیوں اور غیر پاکستانیوں کی تقسیم میں ہمیں غیر پاکستانیوں کے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا کہ وہ کس ملک کے باشندے ہیں ۔
2) اگر منفی حد والی جماعت کو جانتے ہیں تو اسے منفی نام دینے کی کیا ضرورت ؟ اور اگر نہیں جانتے تو منفی حد کسی معلوم جماعت کا نام نہیں ، اور اس صورت میں تقسیم بےحاصل ہوگی۔
3)تنصیف صرف صوری لحاظ سے صحیح ہوتی ہیں ۔ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ فی الحقیقت جماعتیں وجود رکھتی ہیں یا نہیں ۔ مثلاً
مثلثیں:
۔۔۔۔۔۔ مساوی الاضلاع
۔۔۔۔۔۔غیر مساوی الاضلاع مثلثیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مساوی الساقین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غیر مساوی الساقین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مختلف الاضلاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غیر مختلف الاضلاع
اس مثال میں تقسیم کے بعد غیر مختلف الاضلاع مثلثوں کی جماعت در اصل وجود نہیں رکھتی ۔
لہذا یہ تقسیم محض فرضی ہوتی ہے۔
4)اس میں عملِ تقسیم بلا ضرورت طویل ہوتا ہے۔ مثلاً اوپر کی مثال میں ایک ہی عمل میں تقسیم ممکن ہے۔
مثلثیں:
۔مساوی الاضلاع
۔ مساوی الساقین
۔ مختلف الاضلاع
5)اس میں مشمولہ جماعتیں ، جو درحقیقت ایک دوسرے کے تحت نہیں ہوتیں ، ایک دوسرے کے تحت ظاہر کی جاتی ہیں ۔ مثلاً مثلثوں کی تینوں اقسام ایک دوسرے کے تحت نہیں ہیں بلکہ ایک ہی درجے پر ہیں، لیکن تنصیف میں ایک دوسرے کے تحت ظاہر کی جاتی ہیں ۔
کن حالتوں میں تقسیم ممکن نہیں
1) نوعِ سافل کی تقسیم ممکن نہیں ۔
2)فردِ واحد کی تقسیم ممکن نہیں ۔
3) حدودِ مجموعی کی تقسیم ممکن نہیں ۔ مثلاً کتاب خانے کو کتب میں یا سیکشنز میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ تحلیلِ طبعی ہوگی۔ البتہ کتب خانوں کی تقسیم یوں کر سکتے ہیں جیسے سرکاری کتب خانے اور نجی کتب خانے وغیرہ ۔
تقسیم اور تعریف کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ تعریف اور تقسیم کا مقصد حدود کے مفہوم کو متعین کرنا ہے۔ تعریف اس مقصد کو حدود کے تضمن کی تحلیل اور حدبندی سے پورا کرتی ہے۔ تقسیم ہمیں بتاتی ہے کہ وہ جماعت کتنی مشمولہ جماعتوں پر مشتمل ہے۔
 
آخری تدوین:
نواں باب: قضیے اور ان کی قسمیں
اس باب سے ہم اپنی توجہ قضیوں کی جانب مبذول کرتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم پہلے پڑھ چکے، ایک قضیہ تین اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے: موضوع ، محمول اور نسبتِ حکمیہ ۔ موضوع اور محمول کو حدود کہا جاتا ہے ۔قضیہ دو حدود کے متعلق ایک تصدیق ہوتا ہے، جو ان دونوں کے باہمی اتحاد یا اختلاف کو ظاہر کرتا ہے۔ "انسان فانی ہے"، "مثلثیں دائرے نہیں" وغیرہ قضیے ہیں ۔ اول الذکر مثال میں کہا گیا ہے انسان کیا ہے اور موخر الذکر میں کہا گیا کہ مثلثیں کیا نہیں ہیں ۔تمام قضیے جملے ہوتے ہیں لیکن تمام جملے قضیے نہیں ۔ "وہ کیوں آئے"، "تم کھڑے ہو جاؤ"، "آہا کیا خوب نظارہ ہے" وغیرہ جملے تو ہیں لیکن قضیے نہیں ۔
صاف فکر کے لیے صاف قضیے ضروری ہیں، جن میں موضوع ، محمول اور نسبتِ حکمیہ صاف صاف علیحدہ ہوں۔ بعض اوقات نسبتِ حکمیہ محمول میں مدغم ہوتی ہے ۔مثلاً "کتے بھونکے" کو منطقی شکل میں یوں تبدیل کیا جائے گا "کتے ہیں وہ جانور جو بھونکے".
نسبتِ حکمیہ کا تعلق زمانہء حال سے ہوتا ہے۔زمانہ ء ماضی و مستقبل کو محمول کی طرف منتقل کیا جائے گا ۔ مثلاً "زید کل حاضر تھا" کی منطقی شکل "زید ہے وہ شخص جو کل حاضر تھا"

قضیوں کی اقسام:
بلحاظِ ترکیب(Composition)

1) سادہ قضیے (Simple Propositions)
2)مرکب قضیے (Compound Propositions)
بلحاظِ نسبت (Relation)
3)حملیہ قضیے (Categorical)
4)شرطیہ یا متصلہ قضیے (Hypothetical)
5)منفضلہ قضیے (Disjunctive)
بلحاظِ کیفیت (Quality)
6)موجبہ قضیے (Affirmative)
7)سالبہ قضیے (Negative)
بلحاظِ کمیت (Quantity)
8)کلیہ قضیے (Universal)
9) جزئیہ قضیے (Particular)
بلحاظِ جہت (Modality)
9)ضروریہ قضیے (Necessary)
10)حادثیہ قضیے (Assestory)
11)احتمالیہ قضیے (Problematic)
بلحاظِ مفہوم (Import)
12)ملفوظی یا تحلیلی قضیے (Verbal or Analytic)
13)معقولی یا ترکیبی قضیے (Real or Synthetic)

ترکیب:
سادہ قضیے:جو صرف ایک تصدیق کو ظاہر کرے۔مثلا "تمام آدمی فانی ہیں"
مرکب قضیے: جو ایک سے زیادہ تصدیقات کو ظاہر کرے۔ مثلاً "زید اور اس کا بھائی بیمار ہیں"۔ یہ دراصل دو قضیوں پر مشتمل ہے : 1)"زید بیمار ہے" 2) "زید کا بھائی بیمار ہے"

نسبت:
حملیہ قضیے: جس میں محمول کا موضوع سے تعلق غیر مشروط ہو۔ مثلاً انسان فانی ہیں ۔
متصلہ قضیے:کو کسی مشروط تصدیق کو ظاہر کرے۔ مثلاً "اگر تم محنت کرو گے تو پاس ہوجاؤ گے"۔ اس قضیے میں پہلے حصے کو مقدم (Antecedent) کہتے ہیں جبکہ دوسرے حصے کو تالی (Consequent) کہتے ہیں ۔تالی کا انحصار ہمیشہ مقدم پر ہوتا ہے۔شرطیہ قضیے کے دو اجزاء دو حدود نہیں ہوتے بلکہ دو جملے ہوتے ہیں جن کا تعلق آپس میں مقدم اور تالی کا ہوتا ہے۔
منفضلہ قضیے:جو ایک سے زیادہ جملوں سے مل کر بنا ہوتا ہے اور ان کا آپس میں تعلق انفصال (Disjunction) کا ہو۔ مثلاً "وہ یا ڈاکٹر ہے یا وکیل"۔ایک منفضلہ قضیے میں نہ تو کچھ مشروط طور پر کہا جا رہا ہوتا ہے اور نہ ہی مشروط طور پر۔ زیادہ سے زیادہ صرف دو بدل (alternative ) پیش کیے جا رہے ہوتے ہیں ۔
کیفیت:
موجبہ قضیے:جس میں محمول کا موضوع سے متعلق اقرار پایا جاتا ہو۔مثلا کوے سیاہ ہیں ۔
سالبہ قضیے: جس میں محمول کا موضوع کے متعلق انکار پایا جاتا ہو۔ مثلاً کوے سفید نہیں ۔
یہ اقرار یا انکار کا تعلق نسبتِ حکمیہ سے ظاہر ہوتا ہے ۔ موضوع یا محمول کا مثبت یا منفی ہونے کا کیفیت سے کوئی تعلق نہیں ۔ مثلاً " ہندو غیر مسلم ہیں" ایک موجبہ قضیہ ہے
کمیت:
کلیہ قضیے:جس میں موضوع اپنی تعبیر کے لحاظ سے پورا لیا گیا ہو۔مثلاً تمام انسان فانی ہیں ۔ اس قضیے میں کُل انسانی جماعت کے بارے میں فانی ہونے کا اقرار کیا گیا ہے ۔ اسی طرح ، کوئی کوا سفید نہیں ۔ یہاں بھی کوؤں کی پوری جماعت کے بارے میں سفید ہونے کا انکار کیا گیا ہے۔
جزئیہ قضیہ: جس میں موضوع اپنی تعبیر کے لحاظ سے پورا نہیں لیا جاتا، بلکہ اس کا کچھ حصہ لیا جاتا ہو۔مثلا کچھ آدمی ایماندار ہیں، کچھ میز گول نہیں ۔

جہت:
ضروریہ قضیے: جس میں محمول کا موضوع کے متعلق اقرار یا انکار یقینی عمل ہو۔مثلا مثلث ایک تین اضلاع کی شکل ہے، انسان حیوانِ عاقل ہے ۔
حادثیہ قضیے:جس میں تصدیق محض ایک امرِ واقعہ کے طور پر کیا جاتا ہے ۔ مثلاً کوے سیاہ ہیں ، بادشاہ دولت مند ہیں ، گھوڑے سبز نہیں وغیرہ۔
احتمالیہ قضیے: اگر موضوع اور محمول کے درمیان ایسا تعلق ہو جو اگرچہ ہر حالت میں صادق نہیں ہوتا تاہم بعض حالتوں میں صادق ہو سکتا ہے ۔ مثلاً ممکن ہے ہیضے کا مریض بچ جائے، ممکن ہے آج بارش ہو وغیرہ ۔

مفہوم:
ملفوظی قضیے:جس میں محمول کا مفہوم موضوع کے مفہوم میں موجود ہوتا ہے ۔ مثلاً انسان حیوانِ عاقل ہے ، مثلثیں تین اضلاع والی شکلیں ہیں ۔ یہاں محمول ہی میں موضوع کی وضاحت موجود ہے ۔
معقولی قضیے:جس میں محمول کا مفہوم موضوع کے مفہوم میں موجود نہیں ۔مثلا پنجابی بہادر ہیں، کتے وفادار ہیں وغیرہ وغیرہ ۔یہاں محمول موضوع کے متعلق نئی اطلاع دیتا ہے ۔

اس کے علاوہ منطق کی کتابوں میں دو اور قضیے بیان کیے جاتے ہیں:
محدود قضیے (Exclusive): جس میں محمول کا اطلاق ایک خاص جماعت کے لیے محدود یا مخصوص کیا جائے۔ مثلاً صرف ہندو بت پرست ہیں ، صرف نیک لوگ جنتی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
استثنائی قضیے (Exceptive): جس میں موضوع کا کچھ حصہ مستثنیٰ یا خارج کر دیا گیا ہو۔ مثلاً مسلمانوں کے سوا سب لوگ ہندوستان میں خوشحال ہیں، پارے کے سوا تمام دھاتیں ٹھوس ہیں وغیرہ وغیرہ

(اس باب میں بہت سی تفصیلات اور نکات کو یہاں طوالت کے خوف سے سپردِ قلم نہیں کیا گیا، جیسے ایک ہی قضیے کو اوپر ایک سے زیادہ categories میں بھی شمار کیا جا سکتا ہے ۔ اس کو پڑھنے کے لئے کتاب کی طرف رجوع کیا جائے)۔
 
دسواں باب: قضیوں کی چار اساسی شکلیں

جیسا کہ ہم پہلے پڑھ چکے، کمیت کے لحاظ سے قضیوں کی قسمیں کلیہ قضیے اور جزئیہ قضیے ہیں ۔ کیفیت کے لحاظ سے قضیوں کی دو قسمیں ہیں: موجبہ اور سالبہ۔ اگر ہم کمیت اور کیفیت کو یکجا کردیں تو ہمیں کل چار قضیے ملیں گے:
1)کلیہ موجبہ۔ (تمام ا ب ہے) مثلاً تمام آم میٹھے ہیں ۔
2)کلیہ سالبہ ۔(کوئی ا ب نہیں) مثلاً کوئی کھلاڑی ذہین نہیں ۔
3) جزئیہ موجبہ۔ (کچھ ا ب ہے) مثلاً کچھ آم میٹھے ہیں ۔
4) جزئیہ سالبہ۔(کچھ ا ب نہیں) مثلاً کچھ میز گول نہیں ۔

اگر کوئی حد (خواہ وہ کسی قضیے میں موضوع ہو یا محمول) اپنی تعبیر کے لحاظ سے بحیثیتِ کل استعمال ہو تو وہ جامع (Distributed) کہلاتی ہے۔ اور اگر کوئی حد اپنی تعبیر کے لحاظ سے کسی قضیے میں بحیثیتِ جزء استعمال ہو تو وہ غیرجامع (Undistributed) کہلاتی ہے۔
مثلاً تمام انسان فانی ہیں، تو اس میں حد انسان جامع ہے کیونکہ تمام جماعتِ انسانی کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن اگر ہم کہیں کہ کچھ انسان نیک ہیں، تو یہاں انسان غیرجامع ہیں کیونکہ یہاں اشارہ صرف چند افرادِ انسانی کی جانب ہے۔قضیوں کی مندرجہ بالا چار اقسام میں حدود کی جامعیت کے حوالے سے درجہ بندی درجِ ذیل ہے:
قضیہء کلیہ موجبہ: موضوع جامع ہوتا ہے اور محمول غیرجامع ہوتا ہے۔
قضیہء کلیہ سالبہ: موضوع اور محمول دونوں جامع ہوتے ہیں ۔
قضیہء جزئیہ موجبہ: موضوع اور محمول دونوں غیرجامع ہوتے ہیں ۔
قضیہ جزئیہ سالبہ: موضوع غیرجامع ہوتا ہے اور محمول جامع ہوتا ہے
(مندرجہ بالا باتوں کو کتاب میں Euler کے دائرے کے ذریعے تفصیل سے سمجھایا گیا ہے۔ یہاں اسے بنانا ممکن نہیں ہے ، اس لئے بہتر ہے کہ کتاب کی طرف رجوع کیا جائے ۔ علاوہ ازیں جملوں کی منطقی شکل میں تحویل بھی شرح کے ساتھ کتاب میں مذکور ہے، جسے یہاں تحریر کرنا ممکن نہیں ۔)
 
گیارہواں باب: استنتاجِ استخراجیہ کی اقسام

استنتاج کا مطالعہ ہی دراصل منطق کا مطالعہ ہے۔استنتاج کا مطلب ہے کسی ایک یا ایک سے زیادہ قضیوں سے کسی نئے قضیے کو اخذ کرنا۔ وہ قضیے جو ہمیں دیے گئے ہوں مواد (Data) یا مقدمہ (Premise) کہلاتے ہیں ۔اور وہ قضیہ جو ان سے برآمد کیا جائے، نتیجہ (Conclusion) کہلاتا ہے۔فلہذا استنتاج کا مطلب ہے مقدمات سے نتیجہ اخذ کرنا۔ مثلاً:
تمام جانور فانی ہیں
تمام گھوڑے جانور ہیں
اس لئے تمام گھوڑے جانور ہیں ۔

یہاں پہلے دو جملے مقدمات ہیں ، جبکہ آخری جملہ نتیجہ ہے۔

استنتاج کا کام مقدمات میں چھپے ہوئے نتیجے کو نمایاں کرنا ہے۔چنانچہ استنتاج کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں لابُدیت (Necessity) اور جدت (Novelty) پائی جاتی ہے۔

استنتاج کی دو قسمیں ہیں:
1) استنتاجِ بلاواسطہ یا بدیہی (Immediate Inference)
2) استنتاجِ بالواسطہ یا نظری (Mediate Inference)

استنتاجِ بدیہی میں ہم ایک قضیہ یا مقدمہ سے دوسرا قضیہ یعنی نتیجہ بغیر کسی قسم کے واسطے کے اخذ کرتے ہیں ۔ مثلاً اگر ہم کہیں کہ تمام انسان فانی ہیں ، اس لئے کوئی انسان غیرفانی نہیں ، تو یہ استنتاجِ بدیہی ہوگا۔ یہاں ایک ہی مقدمے سے نتیجہ اخذ کیا گیا ہے ۔
استنتاجِ نظری میں ہم دو یا دو سے زیادہ مقدمات سے نیا قضیہ یعنی نتیجہ اخذ کرتے ہیں ۔مثلا اگر ہم کہیں کہ تمام انسان فانی ہیں ، اور تمام طلبہ انسان ہیں ، فلہذا تمام طلبہ فانی ہیں ۔ تو یہ استنتاجِ بالواسطہ ہوگا۔
دو مقدمات سے نکلنے والے نتیجے کو اصطلاح میں قیاس (Syllogism) کہتے ہیں ۔

استنتاجِ بدیہی کی دو قسمیں ہیں:
1) استنتاجِ بدیہی نسبتی
2) استنتاجِ بدیہی جہتی

استنتاجِ بدیہی جہتی کی مزید دو قسمیں ہیں:
1)عکس
2)عدل
 

الف عین

لائبریرین
مکمل ہو جائے تو اطلاع دیں، برقی کتاب تیار ہو جائے گی۔ تیسرے باب پر اب بھی سوالیہ نشان ہے
 
مکمل ہو جائے تو اطلاع دیں، برقی کتاب تیار ہو جائے گی۔ تیسرے باب پر اب بھی سوالیہ نشان ہے
کرم نوازی پر نہایت سپاس گزار ہوں ۔ تیسرا باب مندرجہ ذیل ہے ، جو کہ نہایت مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں وہی کچھ ہے جو گذشتہ اور آئندہ ابواب میں لکھا جا چکا ہے۔
بےپناہ داد و تحسین آپ کے لیے جو آپ نے اتنی دلچسپی دکھائی۔ ورنہ منطق جیسے خشک مضمون سے لوگ راہِ گریز اختیار کرتے ہیں ۔

سوئم باب : منطق کی تقسیم
جیسا کہ ہم نے کہا کہ فکر کے تین نتائج ہیں: تصورات ، تصدیقات اور استنتاج۔ چنانچہ اگلے ابواب میں ہم فرداً فرداً ہر نتیجے سے متعلق بحث کریں گے ۔
 
بارہواں باب: استنتاجِ بدیہی نسبتی یا استنتاجِ بہ اختلافِ قضایا

منطق میں چار بنیادی قضیوں کو ہم چار حروف سے represent کر سکتے ہیں ۔ ان چاروں حروف کو خاطرنشین رکھیے گا تاکہ ہمیں بار بار قضیوں کے نام نہ لکھنے پڑیں ۔
ا۔۔۔کلیہ موجبہ۔۔۔۔تمام س پ ہے ۔۔۔مثال: تمام میز گول ہیں
ع۔۔۔کلیہ سالبہ۔۔۔۔کوئی س پ نہیں ۔۔۔مثال: کوئی میز گول نہیں
ی۔۔۔جزئیہ موجبہ۔۔۔۔کچھ س پ ہے ۔۔۔مثال: کچھ میز گول ہیں
و۔۔۔جزئیہ سالبہ۔۔۔۔کچھ س پ نہیں ۔۔۔مثال: کچھ میز گول نہیں

ان قضیوں میں موضوع اور محمول ایک ہی ہیں ، لیکن یہ قضیے کیفیت یا کمیت یا دونوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ان کے باہمی اختلاف کو ایک مربع سے ظاہر کیا جاتا ہے جسے مربعِ اختلاف (square of oppositions) یا مربعِ نسبتی (Square of relations) کہا جاتا ہے۔
sq-opposition-1024x851.png


اس تصویر میں:
ا=A
ع=E
ی=I
و=O

استنتاجِ بدیہی نسبتی یا استنتاجِ بہ اختلافِ قضایا میں کسی ایک قضیے کے سچ یا جھوٹ ہونے سے ہمیں دوسرے قضیوں کے سچ یا جھوٹ یا مشتبہ ہونے کے متعلق دریافت کرنا ہوتا ہے ۔ قضیوں کے ان اختلاف یا تعلق کو اوپر دیے گئے مربعِ نسبتی سے ظاہر کیا گیا ہے ۔
1) ا اور ی میں ایک طرف اور دوسری طرف ع اور و میں تحکیم (subalternation) کا تعلق یا اختلاف ہے
2)ا اور و میں ایک طرف اور ع اور ی میں دوسری طرف تناقص (Contradictory Opposition) کا تعلق یا اختلاف ہے ۔
3)ا اور ع میں تضاد (Contrary Opposition) کا اختلاف یا تعلق ہے۔
4)ی اور و میں تضادِ تحتانی (Subcontrary Opposition) کا تعلق یا اختلاف ہے ۔
اب ہم ان نسبتوں کو سمجھتے ہیں ۔

1) تحکیم ان قضیوں سے متعلق ہیں جن کے موضوع اور محمول ایک ہوں اور جن میں کیفیت کا اختلاف نہ ہو بلکہ کمیت کا اختلاف ہو۔بالفاظِ دیگر، ایک کلیہ قضیے اور اس کی اپنی کیفیت والے جزئیہ قضیے میں ہوتا ہے۔
قواعدِ تحکیم:
1)اگر کلیہ سچ ہو تو جزئیہ بھی سچ ہوتا ہے۔ لیکن اگر کلیہ جھوٹ ہو فو جزئیہ مشتبہ یا نامعلوم ہوتا ہے۔
2)اگر جزئیہ سچ ہو تو کلیہ مشتبہ یا نامعلوم ہوتا ہے ۔ لیکن اگر جزئیہ جھوٹ ہو تو کلیہ بھی جھوٹ ہوتا ہے۔
قاعدہ 1 کو سمجھنا آسان ہے۔ جزئیہ کلیہ کا حصہ ہوتا ہے، فلہذا اگر کلیہ سچ ہو تو جزئیہ اسی کلیہ کا حصہ ہوتے ہوئے بھی سچ ہوگا۔ اگر ا (تمام انسان فانی ہیں) سچ ہو تو ی (کچھ انسان فانی ہیں) بھی لازمی سچ ہوگا۔ اسی طرح ع(کوئی انسان کامل نہیں) سچ ہو تو و (کچھ انسان کامل نہیں) بھی سچ ہوگا۔ لیکن اگر ا (تمام انسان ڈاکٹر ہیں) جھوٹ ہو تو ی (کچھ انسان ڈاکٹر ہیں) مشتبہ یا نامعلوم ہوگا۔
قاعدہ 2 کی رو سے، جزئیہ کی سچائی سے کلیہ مشتبہ رہتا ہے لیکن جزئیہ کے جھوٹ ہونے سے کلیہ بھی جھوٹ ہوتا ہے ۔ اگر ی (کچھ انسان عاقل ہیں) سچ ہو تو ا (تمام انسان عاقل ہیں) مشتبہ ہوگا۔ لیکن اگر ی (کچھ مرد عورتیں ہیں ) جھوٹ ہو تو ا (تمام مرد عورتیں ہیں) لازمی طور پر جھوٹ ہوگا۔

2)تناقص کا تعلق ان قضیوں سے ہوتا ہے جن کا ایک ہی موضوع اور محمول ہو لیکن کیفیت اور کمیت دونوں لحاظ سے مختلف ہوں۔ چنانچہ ا (تمام آدمی ڈاکٹر ہیں) اور و (کچھ آدمی ڈاکٹر نہیں) آپس میں تناقص کی نسبت رکھتے ہیں ۔ اسی طرح ع (کوئی آدمی ڈاکٹر نہیں) اور ی (کچھ آدمی ڈاکٹر ہیں) بھی تناقص کی نسبت رکھتے ہیں ۔
تناقص کی نسبت رکھنے والے دو قضیے آپس میں نقیضین (Contradictories) کہلاتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم پڑھ چکے، نقیضین آپس میں مانع (Mutually Exclusive) اور جامع (Collectively Exhaustive ) ہوتے ہیں ۔کیونکہ وہ آپ میں مانع ہوتے ہیں ، اس لئے دونوں ایک ہی وقت میں سچ نہیں ہوسکتے (اصولِ مانعِ نقیضین)۔ اور چونکہ وہ جامع ہوتے ہیں ، اس لئے دونوں ایک ہی وقت میں جھوٹ بھی نہیں ہوسکتے (اصولِ خارج الاوسط)۔ چنانچہ تناقص کا قاعدہ ہے:
اگر ایک سچ ہو تو دوسرا لازمی جھوٹ ہوگا اور اگر ایک جھوٹ ہو تو دوسرا لازمی سچ ہوگا۔
چنانچہ اگر ا (تمام انسان فانی ہیں) سچ ہو تو و (کچھ انسان فانی نہیں) جھوٹ ہوگا۔ اگر ا (تمام آدمی ڈاکٹر ہیں) جھوٹ ہو تو و (کچھ آدمی ڈاکٹر نہیں) سچ ہوگا۔ اسی طرح اگر ع (کوئی مرد عورت نہیں) سچ ہو تو ی (کچھ مرد عورتیں ہیں) جھوٹ ہوگا۔ اور اگر ع (کوئی آدمی ڈاکٹر نہیں) جھوٹ ہو تو ی (کچھ آدمی ڈاکٹر ہیں) سچ ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ

3)تضاد کا تعلق ان قضیوں میں ہوتا ہے جو ایک ہی موضوع اور محمول رکھتے ہوئے آپس میں کیفیت کے لحاظ سے مختلف ہوں۔ چنانچہ ا (تمام آدمی ڈاکٹر ہیں) اور ع (کوئی آدمی ڈاکٹر نہیں) آپس میں تضاد کی نسبت رکھتے ہیں ۔ اسی طرح ی اور و بھی تضاد کی نسبت رکھتے ہیں ۔
ضدین کے متعلق دوسرے باب میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ وہ آپس میں مانع تو ہوتے ہیں لیکن جامع نہیں ہوتے ۔ ان کے درمیان تیسری صورت ممکن ہوتی ہے۔ دونوں اصولِ مانعِ نقیضین کی رو سے ایک ہی وقت میں سچ نہیں ہوسکتے ، لیکن ان پر اصولِ خارج الاوسط کا اطلاق نہیں ہوتا چنانچہ دونوں جھوٹ بھی ہوسکتے ہیں ۔ چنانچہ تضاد کا قاعدہ یہ ہے:
اگر ایک سچ ہو تو دوسرا جھوٹ ہوگا اور اگر ایک جھوٹ ہو تو دوسرا مشتبہ ہوگا۔
مثلاً اگر ا (تمام انسان فانی ہیں) سچ ہو تو ع(کوئی انسان فانی نہیں) جھوٹ ہوگا ۔لیکن اگر ا (تمام آدمی ڈاکٹر ہیں) جھوٹ ہو تو ع (کوئی آدمی ڈاکٹر نہیں) مشتبہ ہوگا۔اسی طرح اگر ع (کوئی مرد عورت نہیں) سچ ہو تو ا (تمام مرد عورتیں ہیں) جھوٹ ہوگا۔وغیرہ وغیرہ
مندرجہ بالا نتائج کو ایک اور طریقے سے بھی ثابت کر سکتے ہیں (ساتھ ساتھ مربعِ نسبتی کو بھی دیکھیں):
1۔اگر ا سچ ہو تو و تناقص کی رو سے جھوٹ ہوگا۔ اور اگر و جھوٹ ہو تو ع تحکیم کی رو سے جھوٹ ہوگا۔ لہذا اگر ا سچ ہو تو ع جھوٹ ہوگا ۔
2۔اگر ا جھوٹ ہو تو و تناقص کی رو سے سچ ہوگا۔ اور اگر و سچ ہو رو ع تحکیم کی رو سے مشتبہ ہوگا۔ لہذا اگر ا جھوٹ ہو تو ع مشتبہ ہوگا۔
3۔اگر ع سچ ہو تو ی تناقص کی رو سے جھوٹ ہوگا۔ اور اگر ی جھوٹ ہو تو ا تحکیم کی رو سے جھوٹ ہوگا۔ لہذا اگر ع سچ ہو تو ا جھوٹ ہوگا
4۔اگر ع جھوٹ ہو تو ی تناقص کی رو سے سچ ہوگا۔ اور اگر ی سچ ہو ا تحکیم کی رو سے مشتبہ ہوگا ۔ لہذا اگر ع جھوٹ ہو تو ا مشتبہ ہوگا۔
نوٹ: نسبتِ تضاد سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ بحث کے دوران ہم نے حریف کے کسی کلیہ قضیے کو اس کی ضد (یعنی ایک کلیہ قضیے ) سے جھوٹ ثابت نہیں کرنا بلکہ اس کے نقیض (یعنی ایک جزئیہ قضیے ) سے جھوٹ ثابت کرنا ہے۔ دو متضاد کلیہ قضیے دونوں وقت میں جھوٹ ہو سکتے ہیں ۔ چنانچہ کلیہ کے مقابلے میں جزئیہ پیش کرنا چاہیے۔دوسرا سبق یہ ہے کہ کلیہ کو جھوٹ ثابت کرنا آسان ہوتا ہے لیکن جزئیہ کو جھوٹ ثابت کرنا نسبتاً مشکل کام ہے۔اسی طرح ایک جزئیہ کو سچ ثابت کرنا آسان ہوتا ہے لیکن کلیہ کو سچ ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔

4) تضادِ تحتانی کا تعلق ان دو جزئیہ قضیوں میں ہوتا ہے جو ایک ہی موضوع اور محمول رکھتے ہوئے آپس میں کیفیت کے لحاظ سے مختلف ہوں۔ چنانچہ ی (کچھ آدمی ڈاکٹر ہیں) اور و (کچھ آدمی ڈاکٹر نہیں) میں تضادِ تحتانی کی نسبت پائی جاتی ہے ۔
تضادِ تحتانی کا اختلاف تضاد کے اختلاف سے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ تضادِ تحتانی میں ضدینِ تحتانی آپس میں مانع نہیں ہوتے لیکن جامع ہوتے ہیں ۔ یعنی ان پر اصولِ مانعِ نقیضین نہیں لگتا اس لئے دونوں بیک وقت سچ بھی ہوسکتے ہیں لیکن ان پر اصولِ خارج الاوسط کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے دونوں جھوٹ نہیں ہو سکتے۔"کچھ آدمی ڈاکٹر ہیں " اور "کچھ آدمی ڈاکٹر نہیں"دونوں ایک ہی وقت میں سچ ہو سکتے ہیں ، لیکن دونوں ایک ہی وقت میں جھوٹ نہیں ہو سکتے۔چنانچہ تضادِ تحتانی کا قاعدہ ہے:
اگر ایک سچ ہو تو دوسرا مشتبہ ہوگا اور اگر ایک جھوٹ ہو تو دوسرا لازمی طور پر سچ ہوگا۔
اگر ی (کچھ آدمی ڈاکٹر ہیں) سچ ہو تو و (کچھ آدمی ڈاکٹر نہیں) مشتبہ ہوگا۔ لیکن اگر ی (کچھ آدمی ڈاکٹر ہیں) جھوٹ ہو تو و (کچھ آدمی ڈاکٹر نہیں) لازماً سچ ہوگا۔
تضادِ تحتانی کو بھی ہم بالواسطہ طریقے سے مربعِ نسبتی کی مدد سے ثابت کر سکتے ہیں جیسا کہ تضاد کے بیان میں ہم نے کیا تھا۔


استنتاجِ نسبتی کا مغالطہ (Fallacy of False Opposition) تب ہوتا ہے جب ہم کسی دیے ہوئے قضیے جے سچ یا جھوٹ ہونے سے کسی اور قضیے کے سچ یا جھوٹ ہونے کے متعلق غلط نتیجہ اخذ کریں ۔ مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ چونکہ "تمام کھلاڑی شرارتی ہوتے ہیں" جھوٹ ہے لہذا "کوئی کھلاڑی شرارتی نہیں ہوتا " سچ ہے، تو ہم استنتاجِ نسبتی کے مغالطے کے مرتکب ہوں گے۔
 
آخری تدوین:
Top