اریب آغا ناشناس
محفلین
کتاب: منطقِ استخراجیہ
مصنف: سید کرامت حسین جعفری
خلاصہ نویس: اریب آغا ماشناس
بابِ اول : منطق کی تعریف اور اس کا موضوع
منطق: یہ وہ علم ہے جو صحیح فکر کے قوانین کا مطالعہ کرتا ہے۔
اس تعریف میں چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
1۔ علم (science)
2۔قوانین (laws)
3۔صحیح (valid)
4۔ فکر (thought)
1-علم:
علم سے مراد ہر شے سے واقفیت ہے۔ لیکن ہر واقفیت علم نہیں ہوتی۔
مثلاً آپ کا ستاروں سے متعلق واقفیت علم النجوم نہیں کہلا سکتی۔ علم کسی موضوع کے متعلق مربوط، صحیح اور مکمل واقفیت کا نام ہے۔
علوم کی دو اقسام ہیں:
الف۔ طبعی علوم (Natural Science)
ب۔ معیاری علوم (Normative Science)
طبعی علوم اشیاء کو جیسے کہ وہ ہوں بیان کرتے ہیں ۔ان کا کام ہے مشاہدے اور تجربے کے ذریعے سے مظاہرِ قدرت کی نوعیت کو سمجھنا ، ان کے متعلق قوانین معلوم کرنا سن قوانین کی مدد سے مظاہرِ قدرت کے متعلق پیشگوئی کرنا وغیرہ وغیرہ۔
معیاری علوم کی غرض و غایت اشیاء کی ہست و بود سے نہیں ہوتا بلکہ ان کی قدر و قیمت سے ہوتا ہے ۔ وہ ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ فلاں اشیاء یوں ہیں یا تھیں بلکہ انہیں یوں ہونا چاہیے۔مثلا علمِ منطق، علم اخلاق وغیرہ۔۔۔
2۔قوانین :
تمام علوم اپنے اپنے حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں (جیسے علمِ نباتات پودوں اور درختوں کا، علمِ حیوانات حیوانات کا وغیرہ)۔
لیکن ہر علم اپنے حقائق سے ایسے قوانین وضع کرنے کی کوشش کرتی ہے جو تمام حقائق پر حاوی ہو۔ ۔ مثلاً علمِ نباتات کسی خاص پودے کی نشوونما کے اسباب یا قوانین میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتا جتنی کہ نشوونما کے عمومی قوانین معلوم کرنے میں رکھتا ہے۔ اسی طرح علمِ منطق کسی خاص استدلال میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتا جتنی کہ قوانینِ استدلال میں ۔
قوانین کی اقسام:
الف۔ سیاسی قوانین: جنہیں بدلا بھی جاسکتا ہے اور توڑا بھی جاسکتا ہے۔ What must be
ب۔ قوانینِ قدرت: جنہیں نہ بدلا جاسکتا ہے اور نہ توڑا جا سکتا ہے۔ What is
ج۔ قوانینِ منطق۔ ان کا تعلق صحیح فکر سے ہے۔ یہ بدلے نہیں جا سکتے لیکن توڑے جاسکتے ہیں ۔ What should be.
صحیح قوانینِ فطرت ہمیشہ سے اٹل رہے ہیں اور ہمیشہ اٹل رہیں گے ۔ جیسے مثلاً یہ ایک قانونِ فکر ہے کہ ایک شے میں دو متضاد صفات جمع نہیں ہو سکتیں ۔
3۔صحیح:
صحتِ فکر کا مطلب ہے کہ فکر میں خود اپنی ہی تردید نہ پائی جاتی ہو، نیز فکر حقیقت کے مطابق ہو۔
انسان فانی ہیں۔
ہم انسان ہیں ۔
اس لئے ہم فانی نہیں ہیں ۔
یہ استدلال غلط ہے ، کیونکہ ہمارا نتیجہ پہلی دو باتوں سے مطابقت نہیں رکھتا ۔
انسان درخت ہیں ۔
کتے انسان ہیں ۔
اس لئے کتے درخت ہیں ۔
یہاں نتیجہ پہلی دو باتوں سے لازمی نکلتا ہے اور منافی نہیں ہے۔ اگرچہ فکر میں خود اپنی تردید پائی نہیں جاتی، پھر بھی یہ استدلال غلط ہے کیونکہ یہاں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ بیرونی حقیقت کے مخالف ہے۔
چنانچہ صحیح فکر کے دو اجزا ہوئے:
الف۔ اس میں اپنی تردید خود نہ پائی جاتی ہو۔ اسے صوری صحت یعنی Formal Validity کہتے ہیں
ب۔ وہ بیرونی حقیقت کے مطابق ہو۔ اسے مادی صحت یعنی Material Validity کہتے ہیں ۔
انہی دو اقسامِ فکر کی بنیاد پر منطق بھی دو حصوں میں منقسم ہے:
منطقِ استخراجیہ یعنی Deductive Logic
منطقِ استقرائیہ یعنی Material Logic.
4.فکر:
نفسیات اور منطق دونوں کا تعلق فکر سے ہے۔ لیکن نفسیات کا تعلق فکر کے عمل سے ہے، جبکہ منطق کا تعلق فکر کے نتائج سے ہے۔ منطق میں فکر کے تین نتائج ہیں:
الف۔ تصور (Concept)
ب۔ تصدیق (Judgement)
ج۔استنتاج (Reasoning)
تصور:
فلاں گھوڑا اچھا ہے۔ اس جملے سے ہمارے ذہن میں کسی خاص گھوڑے کی تصویر آتی ہے۔ لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ گھوڑا ایک مفید جانور ہے، تو ہمارا ذہن کسی خاص گھوڑے کی طرف نہیں ، بلکہ اس مفہوم کی طرف جاتا ہے جو تمام گھوڑوں میں مشترک ہو، یعنی نوع۔ یہاں گھوڑا تصور ہے۔ اسی طرح زید فانی ہے۔ یہاں کسی خاص انسان زید کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن انسان فانی ہے، یہاں انسان تصور ہے۔ چنانچہ تصورات اپنی اپنی نوع کے تمام افراد پر مشتمل ہیں ۔
جب تصور کو الفاظ میں ادا کیا جائے تو اسے حد یا اسم یا طرف یا Term کہتے ہیں ۔
تصدیق:
گھوڑا جانور ہے۔ یہاں دو تصورات (گھوڑا اور جانور) میں ایک تعلق پیدا ہوا ہے۔یہ تعلق دونوں تصورات کے تقابل کا نتیجہ ہے۔ اس تقابل کو عملِ تصدیق کہتے ہیں ۔ تصدیقات دو تصورات کے باہمی اتحاد یا اختلاف کو ظاہر کرتی ہیں ۔
جب تصدیق کو الفاظ میں ادا کیا جائے تو اسے منطق میں قضیہ Proposition کہا جاتا ہے۔
استنتاج:
دو تصدیقات کے درمیان کوئی مشترک عنصر تقابل پیدا کر کے استنتاج پیدا کرتا ہے۔مثلاً
گھوڑے جانور ہیں ۔
جانور فانی ہیں۔
اس لئے گھوڑے فانی ہیں ۔
تو یہاں دو تصدیقات کو ملا کر نتیجہ پیدا کیا گیا، جسے استنتاج کہا جاتا ہے۔
جب استدلال یا استنتاج کو الفاظ میں ادا کیا جائے تو اسے دلیل یا argument کہتے ہیں ۔
استنتاج کی مزید دو قسمیں ہیں:
الف۔ استنتاجِ بلا واسطہ یا استنتاجِ بدیہی یا Immediate Inference ۔۔اس کی مثال مندرجہ ذیل ہے:
تمام پٹھان مسلم ہیں۔
اس لئے کوئی پٹھان غیر مسلم نہیں ۔
ب۔ استنتاجِ بلواسطہ یا استنتاجِ نظری یا Mediate Reasoning یا قیاس۔ اس کی مثال مندرجہ ذیل ہے:
تمام پٹھان مسلم ہیں ۔
تمام کابلی پٹھان ہیں۔
اس لئے تمام کابلی مسلمان ہیں۔
وہ قضیہ یا قضیے جن سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے انہیں مقدمہ (Premise) یا مقدمات (Premises) کہا جاتا یے۔ وہ قضیہ جو بطور نتیجہ
اخذ کیا جاتا ہے، اسے نتیجہ (Conclusion) کہا جاتا ہے
(جاری ہے)
مصنف: سید کرامت حسین جعفری
خلاصہ نویس: اریب آغا ماشناس
بابِ اول : منطق کی تعریف اور اس کا موضوع
منطق: یہ وہ علم ہے جو صحیح فکر کے قوانین کا مطالعہ کرتا ہے۔
اس تعریف میں چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
1۔ علم (science)
2۔قوانین (laws)
3۔صحیح (valid)
4۔ فکر (thought)
1-علم:
علم سے مراد ہر شے سے واقفیت ہے۔ لیکن ہر واقفیت علم نہیں ہوتی۔
مثلاً آپ کا ستاروں سے متعلق واقفیت علم النجوم نہیں کہلا سکتی۔ علم کسی موضوع کے متعلق مربوط، صحیح اور مکمل واقفیت کا نام ہے۔
علوم کی دو اقسام ہیں:
الف۔ طبعی علوم (Natural Science)
ب۔ معیاری علوم (Normative Science)
طبعی علوم اشیاء کو جیسے کہ وہ ہوں بیان کرتے ہیں ۔ان کا کام ہے مشاہدے اور تجربے کے ذریعے سے مظاہرِ قدرت کی نوعیت کو سمجھنا ، ان کے متعلق قوانین معلوم کرنا سن قوانین کی مدد سے مظاہرِ قدرت کے متعلق پیشگوئی کرنا وغیرہ وغیرہ۔
معیاری علوم کی غرض و غایت اشیاء کی ہست و بود سے نہیں ہوتا بلکہ ان کی قدر و قیمت سے ہوتا ہے ۔ وہ ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ فلاں اشیاء یوں ہیں یا تھیں بلکہ انہیں یوں ہونا چاہیے۔مثلا علمِ منطق، علم اخلاق وغیرہ۔۔۔
2۔قوانین :
تمام علوم اپنے اپنے حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں (جیسے علمِ نباتات پودوں اور درختوں کا، علمِ حیوانات حیوانات کا وغیرہ)۔
لیکن ہر علم اپنے حقائق سے ایسے قوانین وضع کرنے کی کوشش کرتی ہے جو تمام حقائق پر حاوی ہو۔ ۔ مثلاً علمِ نباتات کسی خاص پودے کی نشوونما کے اسباب یا قوانین میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتا جتنی کہ نشوونما کے عمومی قوانین معلوم کرنے میں رکھتا ہے۔ اسی طرح علمِ منطق کسی خاص استدلال میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتا جتنی کہ قوانینِ استدلال میں ۔
قوانین کی اقسام:
الف۔ سیاسی قوانین: جنہیں بدلا بھی جاسکتا ہے اور توڑا بھی جاسکتا ہے۔ What must be
ب۔ قوانینِ قدرت: جنہیں نہ بدلا جاسکتا ہے اور نہ توڑا جا سکتا ہے۔ What is
ج۔ قوانینِ منطق۔ ان کا تعلق صحیح فکر سے ہے۔ یہ بدلے نہیں جا سکتے لیکن توڑے جاسکتے ہیں ۔ What should be.
صحیح قوانینِ فطرت ہمیشہ سے اٹل رہے ہیں اور ہمیشہ اٹل رہیں گے ۔ جیسے مثلاً یہ ایک قانونِ فکر ہے کہ ایک شے میں دو متضاد صفات جمع نہیں ہو سکتیں ۔
3۔صحیح:
صحتِ فکر کا مطلب ہے کہ فکر میں خود اپنی ہی تردید نہ پائی جاتی ہو، نیز فکر حقیقت کے مطابق ہو۔
انسان فانی ہیں۔
ہم انسان ہیں ۔
اس لئے ہم فانی نہیں ہیں ۔
یہ استدلال غلط ہے ، کیونکہ ہمارا نتیجہ پہلی دو باتوں سے مطابقت نہیں رکھتا ۔
انسان درخت ہیں ۔
کتے انسان ہیں ۔
اس لئے کتے درخت ہیں ۔
یہاں نتیجہ پہلی دو باتوں سے لازمی نکلتا ہے اور منافی نہیں ہے۔ اگرچہ فکر میں خود اپنی تردید پائی نہیں جاتی، پھر بھی یہ استدلال غلط ہے کیونکہ یہاں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ بیرونی حقیقت کے مخالف ہے۔
چنانچہ صحیح فکر کے دو اجزا ہوئے:
الف۔ اس میں اپنی تردید خود نہ پائی جاتی ہو۔ اسے صوری صحت یعنی Formal Validity کہتے ہیں
ب۔ وہ بیرونی حقیقت کے مطابق ہو۔ اسے مادی صحت یعنی Material Validity کہتے ہیں ۔
انہی دو اقسامِ فکر کی بنیاد پر منطق بھی دو حصوں میں منقسم ہے:
منطقِ استخراجیہ یعنی Deductive Logic
منطقِ استقرائیہ یعنی Material Logic.
4.فکر:
نفسیات اور منطق دونوں کا تعلق فکر سے ہے۔ لیکن نفسیات کا تعلق فکر کے عمل سے ہے، جبکہ منطق کا تعلق فکر کے نتائج سے ہے۔ منطق میں فکر کے تین نتائج ہیں:
الف۔ تصور (Concept)
ب۔ تصدیق (Judgement)
ج۔استنتاج (Reasoning)
تصور:
فلاں گھوڑا اچھا ہے۔ اس جملے سے ہمارے ذہن میں کسی خاص گھوڑے کی تصویر آتی ہے۔ لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ گھوڑا ایک مفید جانور ہے، تو ہمارا ذہن کسی خاص گھوڑے کی طرف نہیں ، بلکہ اس مفہوم کی طرف جاتا ہے جو تمام گھوڑوں میں مشترک ہو، یعنی نوع۔ یہاں گھوڑا تصور ہے۔ اسی طرح زید فانی ہے۔ یہاں کسی خاص انسان زید کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن انسان فانی ہے، یہاں انسان تصور ہے۔ چنانچہ تصورات اپنی اپنی نوع کے تمام افراد پر مشتمل ہیں ۔
جب تصور کو الفاظ میں ادا کیا جائے تو اسے حد یا اسم یا طرف یا Term کہتے ہیں ۔
تصدیق:
گھوڑا جانور ہے۔ یہاں دو تصورات (گھوڑا اور جانور) میں ایک تعلق پیدا ہوا ہے۔یہ تعلق دونوں تصورات کے تقابل کا نتیجہ ہے۔ اس تقابل کو عملِ تصدیق کہتے ہیں ۔ تصدیقات دو تصورات کے باہمی اتحاد یا اختلاف کو ظاہر کرتی ہیں ۔
جب تصدیق کو الفاظ میں ادا کیا جائے تو اسے منطق میں قضیہ Proposition کہا جاتا ہے۔
استنتاج:
دو تصدیقات کے درمیان کوئی مشترک عنصر تقابل پیدا کر کے استنتاج پیدا کرتا ہے۔مثلاً
گھوڑے جانور ہیں ۔
جانور فانی ہیں۔
اس لئے گھوڑے فانی ہیں ۔
تو یہاں دو تصدیقات کو ملا کر نتیجہ پیدا کیا گیا، جسے استنتاج کہا جاتا ہے۔
جب استدلال یا استنتاج کو الفاظ میں ادا کیا جائے تو اسے دلیل یا argument کہتے ہیں ۔
استنتاج کی مزید دو قسمیں ہیں:
الف۔ استنتاجِ بلا واسطہ یا استنتاجِ بدیہی یا Immediate Inference ۔۔اس کی مثال مندرجہ ذیل ہے:
تمام پٹھان مسلم ہیں۔
اس لئے کوئی پٹھان غیر مسلم نہیں ۔
ب۔ استنتاجِ بلواسطہ یا استنتاجِ نظری یا Mediate Reasoning یا قیاس۔ اس کی مثال مندرجہ ذیل ہے:
تمام پٹھان مسلم ہیں ۔
تمام کابلی پٹھان ہیں۔
اس لئے تمام کابلی مسلمان ہیں۔
وہ قضیہ یا قضیے جن سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے انہیں مقدمہ (Premise) یا مقدمات (Premises) کہا جاتا یے۔ وہ قضیہ جو بطور نتیجہ
اخذ کیا جاتا ہے، اسے نتیجہ (Conclusion) کہا جاتا ہے
(جاری ہے)
آخری تدوین: