طارق شاہ
محفلین
غزل
منظر اعجاز
تھکن سے چُور ہوئے حوصلے سفر والے
اُڑان بھُول گئے، سارے بال وپر والے
یقیں کے دائرے سمٹے، تو اِس قدر سمٹے
گماں کے شہر میں بسنے لگے نظر والے
مسامِ جاں میں، جو گل کی طرح مہکتے تھے
اُڑے وہ حرف کتابوں کے آب وزر والے
کہاں وہ بات، جو پھل پات میں تھی خوشبو سی
یہاں تو سائے بھی بِکنے لگے شجر والے
طلسمِ ہوش رہا ہے یہ دَورِ دیدہ وراں
خود اپنے آپ سے ہیں بے خبر، خبر والے
وہ چاہتے تھے، کہ ہو دردِ آگہی دل میں
کچھ ایسے لوگ تھے منظر جنوں کے سر والے