محمد تابش صدیقی
منتظم
جو لکھنا ہے اسے توصیفِ شبّر
پئے تعظیم خامہ ہے نگوں سر
پسر وہ فاطمہؓ کا نیک اختر
حسینؓ ابنِ علیؓ سبطِ پیمبرؐ
حسین ایسے کہ حسن ان پر نچھاور
نگاہِ عشق قرباں ہر ادا پر
گلِ عارض مہکتے دو گلِ تر
لبِ خنداں ہیں یا یاقوتِ احمر
گریباں میں چھپے گر صبحِ انور
پنہ زلفوں میں لے شامِ معطر
درِ دولت کا کیا کہنا وہاں پر
فرشتے بھی کھڑے رہتے تھے اکثر
محمدؐ مصطفیٰ کے وہ تھے دلبر
کہاں سے آئے کوئی ان کا ہمسر
رہے ان کے ہی زیرِ سایہ اکثر
سرایت کر گیا سب خلقِ اطہر
شباب آیا تو نکلے وہ قد آور
جھکے تعظیم کو سر و صنوبر
قدم بوس ان کا تھا بختِ سکندر
عطائے رب زہے اوجِ مقدر
سراپائے وفا وہ صبر پیکر
وہ مردِ متقی دل کا تونگر
شہادت گاہِ الفت کا سپہ گر
شجیع و شیر دل مردِ دلاور
مصافِ حق کا وہ دلدوز منظر
شہیدِ راہِ حق اللہ اکبر
کیا جامِ شہادت نوشِ جاں اف
جو پیاسے تین دن سے تھے برابر
انہیں پانی کی حاجت بھی کہاں تھی
لگا ہونٹوں سے تھا جب جامِ کوثر
سلامِ خادمانہ سب کا پہنچے
محمدؐ اور آلِ مصطفیٰ پر
خلافِ حق جو ان کے منہ کو آئے
وہ ظالم وہ سیہ رو وہ ستم گر
جہنم کا وہ ایندھن تا ابد ہیں
رہی دنیا تو اس میں خوار و ابتر
پڑا گردن میں ان کی طوقِ لعنت
نحوست ہی نحوست ان کے اوپر
ملا جو درس ہے ابنِ علیؓ سے
وہ بابِ عشق میں ہم سب کو رہبر
نہ آئے آنچ دیں پر جان جائے
پئے خوشنودی خلاقِ اکبر
برائے حق ستیزہ کار ہونا
برائے دینِ حق سب کچھ نچھاور
نہ کام آئے منال و مالِ دنیا
خدا اعمال پوچھے روزِ محشر
یہ دنیا کیا فقط ہے دھوپ چھاؤں
تماشہ دیکھنا ہے اس کا دم بھر
پڑھیں جب داستانِ کربلا کو
جو اسوہ ان کا ہے اس پر نظرؔ کر
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
پئے تعظیم خامہ ہے نگوں سر
پسر وہ فاطمہؓ کا نیک اختر
حسینؓ ابنِ علیؓ سبطِ پیمبرؐ
حسین ایسے کہ حسن ان پر نچھاور
نگاہِ عشق قرباں ہر ادا پر
گلِ عارض مہکتے دو گلِ تر
لبِ خنداں ہیں یا یاقوتِ احمر
گریباں میں چھپے گر صبحِ انور
پنہ زلفوں میں لے شامِ معطر
درِ دولت کا کیا کہنا وہاں پر
فرشتے بھی کھڑے رہتے تھے اکثر
محمدؐ مصطفیٰ کے وہ تھے دلبر
کہاں سے آئے کوئی ان کا ہمسر
رہے ان کے ہی زیرِ سایہ اکثر
سرایت کر گیا سب خلقِ اطہر
شباب آیا تو نکلے وہ قد آور
جھکے تعظیم کو سر و صنوبر
قدم بوس ان کا تھا بختِ سکندر
عطائے رب زہے اوجِ مقدر
سراپائے وفا وہ صبر پیکر
وہ مردِ متقی دل کا تونگر
شہادت گاہِ الفت کا سپہ گر
شجیع و شیر دل مردِ دلاور
مصافِ حق کا وہ دلدوز منظر
شہیدِ راہِ حق اللہ اکبر
کیا جامِ شہادت نوشِ جاں اف
جو پیاسے تین دن سے تھے برابر
انہیں پانی کی حاجت بھی کہاں تھی
لگا ہونٹوں سے تھا جب جامِ کوثر
سلامِ خادمانہ سب کا پہنچے
محمدؐ اور آلِ مصطفیٰ پر
خلافِ حق جو ان کے منہ کو آئے
وہ ظالم وہ سیہ رو وہ ستم گر
جہنم کا وہ ایندھن تا ابد ہیں
رہی دنیا تو اس میں خوار و ابتر
پڑا گردن میں ان کی طوقِ لعنت
نحوست ہی نحوست ان کے اوپر
ملا جو درس ہے ابنِ علیؓ سے
وہ بابِ عشق میں ہم سب کو رہبر
نہ آئے آنچ دیں پر جان جائے
پئے خوشنودی خلاقِ اکبر
برائے حق ستیزہ کار ہونا
برائے دینِ حق سب کچھ نچھاور
نہ کام آئے منال و مالِ دنیا
خدا اعمال پوچھے روزِ محشر
یہ دنیا کیا فقط ہے دھوپ چھاؤں
تماشہ دیکھنا ہے اس کا دم بھر
پڑھیں جب داستانِ کربلا کو
جو اسوہ ان کا ہے اس پر نظرؔ کر
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی