محمد تابش صدیقی
منتظم
حق مدح کا ان کی نہ ادا ہو گا بشر سے
جب تک نہ لکھے کوئی بشر خونِ جگر سے
بنتِ شہِ لولاک کے اس لختِ جگر سے
ہو کیوں نہ محبت مجھے حیدرؓ کے پسر سے
صورت ہے ضیا تاب سوا روئے قمر سے
سیرت کی چمک دیکھ ذرا دل کی نظر سے
وہ عارضِ تاباں کہ سدا نور ہی برسے
وہ زلفِ سیہ رنگ گھٹا بھی جسے ترسے
ہر بندۂ مومن کو عقیدت ترے گھر سے
ایمان کی دولت کہ ملی ہے اسی در سے
گزری تھی کبھی موجۂ خوں آپ کے سر سے
دل آج بھی ہوتا ہے لہو غم کے اثر سے
پوچھو یہ گروہِ مَلَک و جن و بشر سے
محفوظ نہ تھا دامنِ دیں پنجۂ شر سے
دیکھی نہ گئی آپ سے بے چارگیِ دیں
شمشیر و سناں باندھ کے نکلے وہ کمر سے
اف کود پڑے معرکۂ عشق میں تنہا
پائی تھی وراثت میں شجاعت جو پدر سے
اے کشتۂ تیغِ ستمِ عشق مبارک
پائندہ ہے اسلام تیرے خونِ جگر سے
نقشِ کفِ پا کی تیرے اللہ رے عظمت
پیشانیِ عظمت پہ ہیں تابندہ گہر سے
جانبازیِ شبیرؓ جدا سب سے جدا ہے
تم دیکھ لو تاریخ میں خود اپنی نظرؔ سے
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
جب تک نہ لکھے کوئی بشر خونِ جگر سے
بنتِ شہِ لولاک کے اس لختِ جگر سے
ہو کیوں نہ محبت مجھے حیدرؓ کے پسر سے
صورت ہے ضیا تاب سوا روئے قمر سے
سیرت کی چمک دیکھ ذرا دل کی نظر سے
وہ عارضِ تاباں کہ سدا نور ہی برسے
وہ زلفِ سیہ رنگ گھٹا بھی جسے ترسے
ہر بندۂ مومن کو عقیدت ترے گھر سے
ایمان کی دولت کہ ملی ہے اسی در سے
گزری تھی کبھی موجۂ خوں آپ کے سر سے
دل آج بھی ہوتا ہے لہو غم کے اثر سے
پوچھو یہ گروہِ مَلَک و جن و بشر سے
محفوظ نہ تھا دامنِ دیں پنجۂ شر سے
دیکھی نہ گئی آپ سے بے چارگیِ دیں
شمشیر و سناں باندھ کے نکلے وہ کمر سے
اف کود پڑے معرکۂ عشق میں تنہا
پائی تھی وراثت میں شجاعت جو پدر سے
اے کشتۂ تیغِ ستمِ عشق مبارک
پائندہ ہے اسلام تیرے خونِ جگر سے
نقشِ کفِ پا کی تیرے اللہ رے عظمت
پیشانیِ عظمت پہ ہیں تابندہ گہر سے
جانبازیِ شبیرؓ جدا سب سے جدا ہے
تم دیکھ لو تاریخ میں خود اپنی نظرؔ سے
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
آخری تدوین: