محمد تابش صدیقی
منتظم
دلِ بے تاب ہوا چشم زدن ميں پُر تاب
آ گيا لب پہ جو ذکرِ عمر ابن الخطابؓ
پايا فاروقؓ کا اس فرد نے حسنِ القاب
مرحبا وہ شہِ کونين کا ساتھی ناياب
آرزو مند ہوا جس کا نبیِؐ بے تاب
تھا قريشی وہ يہی، تھا وہ يہی دُرِّ ناب
دلِ تاريکِ عمرؓ نورِ نبیؐ سے ضو تاب
جيسے خورشيد کی کرنوں سے ہو روشن مہتاب
آہ وہ وقت کہ ايماں سے نہ تھا بہرہ ياب
واہ وہ دور کيا مزرعِ ديں کو شاداب
اس کو کيا کہیے سمجھ ميں نہيں آتے القاب
غوث کہیے کہ ولي کہیے کہ قطب الاقطاب
اس کو اللہ نے بخشی تھی جبينِ شب تاب
ضيغمِ وقت وہ تھا عبدِ حفيظ و اوّاب
سب کو سرشار کيا اور ہوا خود سيراب
از خمستانِ حجازی وہ لنڈھائی مئے ناب
خوبيوں ہی کے سبب رتبۂ عالی پايا
نگہِ قدر سے سب ديکھتے اس کو احباب
شير بيشہ کہ وہ جب داخلِ اسلام ہوا
اس کی آواز سے گونجے در و منبر محراب
وہ بنا امتِ مسلم کا خليفہ ثانی
بعد صديقؓ کہ اول تھا بہ بزمِ اصحاب
زيب تن کرتا تھا ملبوس وہ پيوند لگے
در پہ چاؤش نہ درباں نہ ہی شاہی آداب
اس کو مرغوب رہے دورِ شہنشاہی ميں
فقر کے سيکھ رکھے تھے جو نبیؐ سے آداب
زندگی اس شہِ دوراں کی تھی درويشانہ
خوفِ خالق سے رہا کرتی تھيں آنکھيں بے خواب
پاؤں ميں اس کے گرے تاج و سريرِ کسریٰ
جانتے سب ہيں يہ تاريخ و سِيَر کے اسباب
دشمنِ ديں کے لئے برقِ بلا خيز تھا وہ
خرمنِ کفر کے حق ميں وہ مثالِ سيلاب
گريۂ و سجدہ گزاری ميں گزاريں راتيں
طالبِ عفو و کرم پيشِ خدائے تواب
جوشِ انفاق رہِ حق ميں مثالی اس کا
لا کے قدموں ميں نبیؐ کے تھا رکھا نصف اسباب
وہ تھا پابندیِ آئينِ نبیؐ کا خوگر
دوسروں کو بھی سکھائے تھے يہی سب آداب
ساتھ رہتا تھا محمدؐ کے جو سايہ کی طرح
آج وہ روضۂ انور ميں ہے آسودۂ خواب
اس کے چہرہ سے ٹپکتا تھا نظرؔ جاہ و جلال
کانپتے رہتے تھے سب وقت کے رستم سہراب
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
آ گيا لب پہ جو ذکرِ عمر ابن الخطابؓ
پايا فاروقؓ کا اس فرد نے حسنِ القاب
مرحبا وہ شہِ کونين کا ساتھی ناياب
آرزو مند ہوا جس کا نبیِؐ بے تاب
تھا قريشی وہ يہی، تھا وہ يہی دُرِّ ناب
دلِ تاريکِ عمرؓ نورِ نبیؐ سے ضو تاب
جيسے خورشيد کی کرنوں سے ہو روشن مہتاب
آہ وہ وقت کہ ايماں سے نہ تھا بہرہ ياب
واہ وہ دور کيا مزرعِ ديں کو شاداب
اس کو کيا کہیے سمجھ ميں نہيں آتے القاب
غوث کہیے کہ ولي کہیے کہ قطب الاقطاب
اس کو اللہ نے بخشی تھی جبينِ شب تاب
ضيغمِ وقت وہ تھا عبدِ حفيظ و اوّاب
سب کو سرشار کيا اور ہوا خود سيراب
از خمستانِ حجازی وہ لنڈھائی مئے ناب
خوبيوں ہی کے سبب رتبۂ عالی پايا
نگہِ قدر سے سب ديکھتے اس کو احباب
شير بيشہ کہ وہ جب داخلِ اسلام ہوا
اس کی آواز سے گونجے در و منبر محراب
وہ بنا امتِ مسلم کا خليفہ ثانی
بعد صديقؓ کہ اول تھا بہ بزمِ اصحاب
زيب تن کرتا تھا ملبوس وہ پيوند لگے
در پہ چاؤش نہ درباں نہ ہی شاہی آداب
اس کو مرغوب رہے دورِ شہنشاہی ميں
فقر کے سيکھ رکھے تھے جو نبیؐ سے آداب
زندگی اس شہِ دوراں کی تھی درويشانہ
خوفِ خالق سے رہا کرتی تھيں آنکھيں بے خواب
پاؤں ميں اس کے گرے تاج و سريرِ کسریٰ
جانتے سب ہيں يہ تاريخ و سِيَر کے اسباب
دشمنِ ديں کے لئے برقِ بلا خيز تھا وہ
خرمنِ کفر کے حق ميں وہ مثالِ سيلاب
گريۂ و سجدہ گزاری ميں گزاريں راتيں
طالبِ عفو و کرم پيشِ خدائے تواب
جوشِ انفاق رہِ حق ميں مثالی اس کا
لا کے قدموں ميں نبیؐ کے تھا رکھا نصف اسباب
وہ تھا پابندیِ آئينِ نبیؐ کا خوگر
دوسروں کو بھی سکھائے تھے يہی سب آداب
ساتھ رہتا تھا محمدؐ کے جو سايہ کی طرح
آج وہ روضۂ انور ميں ہے آسودۂ خواب
اس کے چہرہ سے ٹپکتا تھا نظرؔ جاہ و جلال
کانپتے رہتے تھے سب وقت کے رستم سہراب
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی