محمد تابش صدیقی
منتظم
اس خدائے واحد کا لاکھ لاکھ احساں ہے
آج ميرے ہونٹوں پر ذکرِ پاکِ عثماںؓ ہے
تابناک چہرہ پر نور جو نماياں ہے
رشکِ مہر و انجم ہے رشکِ ماہِ تاباں ہے
امتِ محمدؐ کا تيسرا نگہباں ہے
نرم خو خليفہ ہے نيک دل مسلماں ہے
قبلہ گاہِ ايماں ہے شمعِ بزمِ عرفاں ہے
جانشينِ پيغمبرؐ نازشِ مسلماں ہے
زہد و پارسائی ميں بے مثال انساں ہے
جب بھی ديکھیے غلطاں در حروفِ قرآں ہے
وہ غنی و مستغنی بے نيازِ ساماں ہے
مست اپنی گدڑی ميں خرقہ پوش انساں ہے
قدر و منزلت ميں وہ رشکِ شاہِ شاہاں ہے
پر نہ کوئی ايواں ہے اور نہ کوئی درباں ہے
اس کا خيرِ امت پر بے شمار احساں ہے
مال و زر نچھاور ہے اس کی جاں بھی قرباں ہے
سرکشوں نے گھيرا ہے بند گھر ميں عثماںؓ ہے
پڑھ رہا ہے وہ قرآں معرکہ نہ ميداں ہے
قتلِ مجرميں سے وہ جانے کيوں گريزاں ہے
پاک باز وہ راضی با رضائے يزداں ہے
سر قلم کيا جس نے سرگروہِ شيطاں ہے
لعنتِ خدا اس پر وہ کوئی مسلماں ہے
يوں تو ہے خدا شاہد واقعات کا ليکن
اس کے قتلِ ناحق کا خود گواہ قرآں ہے
خوش نہاد و خوش طينت خوش مزاج و خوش باطن
جادۂ ہدايت کا وہ بھی مير و سلطاں ہے
کامل الحيا ہے وہ مرحبا حيا داری
مصطفیٰؐ بھی شرمائے وہ حيائے عثماںؓ ہے
حرف حرف قرآں کا مجتمع کيا اس نے
پڑھ رہے ہيں سب جس کو وہ اسی کا قرآں ہے
سرخرو ہے دنيا ميں کامراں ہے عقبیٰ ميں
وہ نبیؐ کا ساتھی ہے رکنِ بزمِ خاصاں ہے
مصطفیٰؐ کے ہاتھوں پر ہے جو بيعتِ رضواں
اس کی ذاتِ والا ہی مرحبا سر عنواں ہے
بيٹياں نبیؐ کی دو اس کے عقد ميں آئيں
مفتخر نبیؐ اس پر وہ نبیؐ پہ نازاں ہے
گو نظر نہيں آتا ہاں مگر وہ ہے زندہ
خلد اس کا مسکن ہے وہ خدا کا مہماں ہے
کون اس کو بھولے گا بھول بھی نہيں سکتا
لوحِ دل پہ نام اس کا آج بھی درخشاں ہے
قتل و خوں ہزاروں کا ہو رہا ہے دنيا ميں
ہے نظرؔ گماں ميرا يہ قصاصِ عثماںؓ ہے
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
آج ميرے ہونٹوں پر ذکرِ پاکِ عثماںؓ ہے
تابناک چہرہ پر نور جو نماياں ہے
رشکِ مہر و انجم ہے رشکِ ماہِ تاباں ہے
امتِ محمدؐ کا تيسرا نگہباں ہے
نرم خو خليفہ ہے نيک دل مسلماں ہے
قبلہ گاہِ ايماں ہے شمعِ بزمِ عرفاں ہے
جانشينِ پيغمبرؐ نازشِ مسلماں ہے
زہد و پارسائی ميں بے مثال انساں ہے
جب بھی ديکھیے غلطاں در حروفِ قرآں ہے
وہ غنی و مستغنی بے نيازِ ساماں ہے
مست اپنی گدڑی ميں خرقہ پوش انساں ہے
قدر و منزلت ميں وہ رشکِ شاہِ شاہاں ہے
پر نہ کوئی ايواں ہے اور نہ کوئی درباں ہے
اس کا خيرِ امت پر بے شمار احساں ہے
مال و زر نچھاور ہے اس کی جاں بھی قرباں ہے
سرکشوں نے گھيرا ہے بند گھر ميں عثماںؓ ہے
پڑھ رہا ہے وہ قرآں معرکہ نہ ميداں ہے
قتلِ مجرميں سے وہ جانے کيوں گريزاں ہے
پاک باز وہ راضی با رضائے يزداں ہے
سر قلم کيا جس نے سرگروہِ شيطاں ہے
لعنتِ خدا اس پر وہ کوئی مسلماں ہے
يوں تو ہے خدا شاہد واقعات کا ليکن
اس کے قتلِ ناحق کا خود گواہ قرآں ہے
خوش نہاد و خوش طينت خوش مزاج و خوش باطن
جادۂ ہدايت کا وہ بھی مير و سلطاں ہے
کامل الحيا ہے وہ مرحبا حيا داری
مصطفیٰؐ بھی شرمائے وہ حيائے عثماںؓ ہے
حرف حرف قرآں کا مجتمع کيا اس نے
پڑھ رہے ہيں سب جس کو وہ اسی کا قرآں ہے
سرخرو ہے دنيا ميں کامراں ہے عقبیٰ ميں
وہ نبیؐ کا ساتھی ہے رکنِ بزمِ خاصاں ہے
مصطفیٰؐ کے ہاتھوں پر ہے جو بيعتِ رضواں
اس کی ذاتِ والا ہی مرحبا سر عنواں ہے
بيٹياں نبیؐ کی دو اس کے عقد ميں آئيں
مفتخر نبیؐ اس پر وہ نبیؐ پہ نازاں ہے
گو نظر نہيں آتا ہاں مگر وہ ہے زندہ
خلد اس کا مسکن ہے وہ خدا کا مہماں ہے
کون اس کو بھولے گا بھول بھی نہيں سکتا
لوحِ دل پہ نام اس کا آج بھی درخشاں ہے
قتل و خوں ہزاروں کا ہو رہا ہے دنيا ميں
ہے نظرؔ گماں ميرا يہ قصاصِ عثماںؓ ہے
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
مدیر کی آخری تدوین: