کاشف اسرار احمد
محفلین
دو برقعے بازار میں دیکھے ------- جن کی کشش دل کی رہزن تھی
پردے میں اعضاٰء کا تناسب ------- شہد میں ڈوبی اک جامن تھی
پائے نگاریں کی رنگینی ------- آئینہ دارِ حسنِ بدن تھی
بات جو کرتیں موتی رلتے ------- خاموشی بھی جانِ سخن تھی
ان کی آنکھوں کی ہر گردش ------- جام فروش و زہد شکن تھی
ان کو مخاطب کر کے چھوڑا ------- میری نظر بھی کیا پر فن تھی
دیکھ کے مجھ کو ہنس پڑیں دونوں ------- شوق کو کیا پھر جائے سخن تھی
مقنع کے اندر کی ہنسی تھی ------- گل افشاں و برق فگن تھی
ایک کے پیچھے ایک روانہ ------- اک ڈبہ تھی اک انجن تھی
اگلی گویا شوق زلیخا ------- پچھلی یوسف کا دامن تھی
سیٹی بجاتا ساتھ تھا میں بھی ------- ہر دوکاں اک اسٹیشن تھی
دیکھا تو رفتار بھی ان کی ------- موجِ نسیمِ صبح چمن تھی
پیٹھ پہ وہ ابھری ہوئی چوٹی ------- تھیلے کے اندر ناگن تھی
حسن سے ان کے ڈر لگتا تھا ------- رخ سے عیاں دل کی دھڑکن تھی
ہلکا سا پردہ باقی تھا ------- اب جو جھجھک تھی وہ رسماََ تھی
میں بھی خلوت کا متلاشی ------- ان کو بھی ملنے کی لگن تھی
شوق کا اک طوفان تھا دل میں ------- دید کی عجلت میں الجھن تھی
دونوں نے الٹی جو نقابیں ------- اک بیوی تھی، ایک بہن تھی !
پردے میں اعضاٰء کا تناسب ------- شہد میں ڈوبی اک جامن تھی
پائے نگاریں کی رنگینی ------- آئینہ دارِ حسنِ بدن تھی
بات جو کرتیں موتی رلتے ------- خاموشی بھی جانِ سخن تھی
ان کی آنکھوں کی ہر گردش ------- جام فروش و زہد شکن تھی
ان کو مخاطب کر کے چھوڑا ------- میری نظر بھی کیا پر فن تھی
دیکھ کے مجھ کو ہنس پڑیں دونوں ------- شوق کو کیا پھر جائے سخن تھی
مقنع کے اندر کی ہنسی تھی ------- گل افشاں و برق فگن تھی
ایک کے پیچھے ایک روانہ ------- اک ڈبہ تھی اک انجن تھی
اگلی گویا شوق زلیخا ------- پچھلی یوسف کا دامن تھی
سیٹی بجاتا ساتھ تھا میں بھی ------- ہر دوکاں اک اسٹیشن تھی
دیکھا تو رفتار بھی ان کی ------- موجِ نسیمِ صبح چمن تھی
پیٹھ پہ وہ ابھری ہوئی چوٹی ------- تھیلے کے اندر ناگن تھی
حسن سے ان کے ڈر لگتا تھا ------- رخ سے عیاں دل کی دھڑکن تھی
ہلکا سا پردہ باقی تھا ------- اب جو جھجھک تھی وہ رسماََ تھی
میں بھی خلوت کا متلاشی ------- ان کو بھی ملنے کی لگن تھی
شوق کا اک طوفان تھا دل میں ------- دید کی عجلت میں الجھن تھی
دونوں نے الٹی جو نقابیں ------- اک بیوی تھی، ایک بہن تھی !