سید زبیر
محفلین
منٹو : سعادت حسن کی نظر میں
" یوں تو منٹو کو میں اس کی پیدائش ہی سے جانتا ہوں ۔ ہم دونوں اکٹھے ایک ہی وقت ۱۱ مئی ۱۹۱۲ کو پیدا ہوئے لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ خود کو کچھوا بنائے رکھے جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن اندر چھپائے تو آپ لاکھ ڈھونڈتے رہیں اس کا سراغ نہ ملے لیکن میں بھی آخر اس کا ہمزاد ہوں ،میں نے اس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا
لیجئیے ! اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ خر ذات افسانہ نگار کیسے بنا ۔۔۔تنقید نگار بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھتے ہیں ،اپنی ہمہ دانی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ شوپن ہار ، فرائیڈ ،ہیگل ، نیتشے ، مارکس کے حوالے دیتے ہیں مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں
منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا نتیجہ ہے ۔اس کے والد ،خدا بخشے ! بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بےحد نرم دل ۔ ان دونوں پاٹوں کے اندر پس کر یہ دانۂ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہوگا اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں
اب میں اس کی اسکول کی زندگی کی طرف آتا ہوں ،بہت ذہین لڑکا تھا اور بے حد شریر ۔اس زمانے میں اس کا قد زیادہ سے زیادہ ساڑے تین فٹ ہوگا وہ اپنے باپ کا آخری بچہ تھا اس کو اپنے ماں باپ کی محبت تو میسر تھی لیکن اس کے تین بڑے بھائی جو عمر مں اس سے بہت بڑے تھے اور ولائت میں تعلیم پا رہے تھے ، ان سے اس کو کبھی ملاقات کا موقع ہی نہ ملا تھا اس لیے کہ وہ سوتیلے تھے وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے ملیں ،اس سے بڑے بھائیوں ایسا سلوک کریں لیکن یہ سلوک اسے اس وقت نصیب جب دنیائے ادب اسے بہت بڑا افسانہ نگار تسلیم کرچکی تھی
اچھا! اب اس کی افانہ نگاری کے متعلق سنئیے ۔وہ اول درجے کافراڈ ہے ۔پہلا افسانہ اس نے بعنوان 'تماشا' لکھا جو جلیاں والا باغ کے خونیں حادثے سے متعلق تھا یہ اس نے اپنے نام سے چھپوایا یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس کی دست برد سے بچ گیا ۔اس کے بعد اس کے متلون مزاج میں ایک لہر پیدا ہوئی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے ۔یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس نے انٹرنس کا امتحان دو بار فیل ہوکر پاس کیا تھا ،وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں ۔ اور آپ کو یہ سن کر بھی حیرت ہوگی کہ وہ اردو کے پرچے میں ناکام رہا۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ اردو کا بہت بڑا ادیب ہے اور میں یہ سن کر ہنستا ہوں اس لیے کہ اردو اب بھی اسے نہیں آتی وہ لفظوں کے پیچھے یوں بھاگتا ہے جیسے کوئی جالی وال شکاری تتلیوں کے پیچھے ۔وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریر میں خوب صورت الفاظ کی کمی ہے وہ لٹھ مار ہے لیکن جتنے لٹھ اس کی گردن پر پڑے ،اس نے بڑی خوشی سے برداشت کیے ہیں اس کی لٹھ بازی عام محاورے کے مطابق جانوںکی لاٹھ بازی نہیں ہے ،وہ بنوٹ اور پھکیت ہے وہ ایک عام انسان ہے جو صاف اور سیدھی سڑک پر نہیں چلتا بلکہ تنے ہوئے رسے پر چلتا ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ اب گرا اب گرا ۔لیکن وہ کمبخت آج تک کبھی نہیں گرا ۔۔۔شائد گر جائے اوندھے منہ !۔۔۔ کہ پھر نہ اٹھے ۔لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ لوگوں سے کہے گا کہ میں اس لیے گرا تھا کہ گراوٹ کی مایوسی ختم ہو جائے ۔۔۔"
(جاری ہے )
ماخوذ از سہ ماہی 'شعور'دہلی۔۔۔مطبوعہ ماہنامہ آہنگ جنوری ۲۰۱۱