منصور مکرم
محفلین
عرصہ قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے شبقدر کے اس پار منڈا بریج تک جانے کا پروگرام بنا۔چونکہ دریائے سوات یہاں سے ہو کر گذرتا ہے۔اور ساتھ میں یہ بندوبستی علاقے اور قبائلی علاقے کی سرحد بھی ہے۔ کہ دریا کے اِس طرف تو بندوبستی علاقہ اور دوسری طرف قبائلی علاقہ مہمند ایجنسی ہے۔
لھذا احباب نے اسی پوائینٹ کو سیر کیلئے پسند کیا۔مصیبت وہی پرانی کہ،گاڑی ہمارے حوالے تھی۔اسی لئے مجبورا کیمرہ کو ایک طرف رکھنا پڑا۔لیکن شب قدر پہنچ کرہم نے اپنا کام شروع کردیا،یعنی فوٹو گرافی۔
شبقدر بازار جب پہنچے تو بازار میں ایک جگہ رُک گئے۔ بازار کے دوسری طرف دیکھا تو بالکل اخر میں ایف سی کا ایک قلعہ نظر آیا۔
چنانچہ ہم نے بھی فورا کیمرہ نکالا اور تصویر کھینچی۔
شب قدر بازار سے نکل کر جب ہم نے گاڑی روک کر جب دیکھا تو دور سے آم کے باغ نظر آگئے۔
اور اس وقت تو ایک خوش گوار حیرت ہوئی جب سامنے کی طرف دیکھا کہ یوسف بابا (ایک زیارت) کے پہاڑ سامنے نظر آگئے۔یوسف بابا کی زیارت گاہ اگرچہ پہاڑوں کے درمیان ہے۔لیکن شوقین حضرات سیر و تفریح یا قدرتی ماحول سے لطف اندوز ہونے کیلئے وہاں جاتے ہیں۔لیکن راستہ خراب و پرپیچ ہے۔اسلئے یا تو صبح سویرے جانا ہوگا،تو شام تک واپسی ممکن ہوگی۔ اور یا پھر رات کا پروگرام بنا کر وہاں جانا ہوگا۔
کہتے ہیں کہ یوسف بابا کے قریب پرندوں کا شکار بھی کیا جاتا ہے،اسلئے شکاری حضرات وہاں جاتے تھے۔لیکن اب تو حالات کی خرابی کے بعد شائد ہی کوئی رات گذارنے کیلئے اس طرف کا رُخ کرے۔
دور سے یوسف بابا کی پہاڑوں کی ایک جھلک
منڈا بریج تک جانے والی سڑک کے ایک طرف تو افغانیوں کے کچے گھر تھے۔
اور دوسری طرف آم کے باغ ،ہمارا دل للچایا کہ زندگی میں پہلی بار آم کا باغ دیکھا تھا، اسلئے باغ کی سیر تو لازمی ٹہری۔
لیکن یہ کیا، جب باغ کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ ایک نہر ہمارے اور باغ کے درمیان حائل ہے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ نہر پار جائیں تو کس طرح۔اب تو کوئی پُل وغیرہ تلاشنا تھا ،تاکہ اس پار جایا جاسکے،چنانچہ جلد ہی ایک پُل نظر اگیا۔
باپ رہے ،اس پُل کو پار کرنے کیلئے بھی تو کمانڈو ہونا ضروری ہے۔ورنہ تو ہمارے جیسے آدمی کے تو ہوش اُڑ جائیں۔
اب ہمیں ڈرپوکی کے طعنے دینے سے پہلے پُل پر خود ہی ایک نظر ڈالیں اور پھر فیصلہ کریں
پُل خوب زبردست ہِل رہا تھا ،وہ سامنے جو بندہ نظر ارہا ہے ،سفید ٹوپی والا ۔اس بے چارے نے تو بیٹھ کر ہی پل پار کرلیا۔لیکن اب ہم اتنے بھی ڈرپوک نہیں ،اسلئے ہم نے کھڑے ہوکر پل پر سے گذرنا پسند کیا۔
لیکن ایک دوسری مصیبت سامنے کھڑی تھی۔
اور وہ یہ کہ نہر کے کنارے سڑک سے کافی گہرائی پر تھے،غالب 20 ،25 فٹ۔اسلئے اول تو نہر کنارے اترنا تھا ،اسکے بعد پل صراط پر گذرنے کی کوشش۔
بڑی مشکل سے نہر کے کنارے اترا،سارے ہاتھ بھی گندے ہوگئے تھے۔لیکن دل میں ایک عزم تھا ،کہ جیسے بھی ہو ،بس باغ میں ضرور پہنچنا ہے۔
کہتے ہیں کہ کبھی کبھی بندہ کوئی کام کرے بھی،تو اسکے جاننے والے اسکی حوصلہ افزائی کے بجائے اسکو ڈراتے ہیں،جس کے سبب اس بندے کے حوصلے کی رہی سہی کسر بھی پوری ہوجاتی ہے۔
یہی صورت حال میرے ساتھ پیش آئی۔ساتھی آوازیں دینے لگے ،کہ پل کو بیٹھ کر پار کرو،نہر میں گر جاؤ گے۔
لیکن میں نے ان کی باتوں کی طرف توجہ تک نہیں دی،بس اپنی نظروں میں پل کو دیکھا،تو دماغ نے مشورہ دیا کہ پل کو کھڑے ہوکر پار کرنا آسان ہے۔
تو جناب وہ دیکھتے رہے گئے اور ہم نے کھڑے ہو کر پل پار کرلیا۔
لھذا احباب نے اسی پوائینٹ کو سیر کیلئے پسند کیا۔مصیبت وہی پرانی کہ،گاڑی ہمارے حوالے تھی۔اسی لئے مجبورا کیمرہ کو ایک طرف رکھنا پڑا۔لیکن شب قدر پہنچ کرہم نے اپنا کام شروع کردیا،یعنی فوٹو گرافی۔
شبقدر بازار جب پہنچے تو بازار میں ایک جگہ رُک گئے۔ بازار کے دوسری طرف دیکھا تو بالکل اخر میں ایف سی کا ایک قلعہ نظر آیا۔
چنانچہ ہم نے بھی فورا کیمرہ نکالا اور تصویر کھینچی۔
شب قدر بازار سے نکل کر جب ہم نے گاڑی روک کر جب دیکھا تو دور سے آم کے باغ نظر آگئے۔
اور اس وقت تو ایک خوش گوار حیرت ہوئی جب سامنے کی طرف دیکھا کہ یوسف بابا (ایک زیارت) کے پہاڑ سامنے نظر آگئے۔یوسف بابا کی زیارت گاہ اگرچہ پہاڑوں کے درمیان ہے۔لیکن شوقین حضرات سیر و تفریح یا قدرتی ماحول سے لطف اندوز ہونے کیلئے وہاں جاتے ہیں۔لیکن راستہ خراب و پرپیچ ہے۔اسلئے یا تو صبح سویرے جانا ہوگا،تو شام تک واپسی ممکن ہوگی۔ اور یا پھر رات کا پروگرام بنا کر وہاں جانا ہوگا۔
کہتے ہیں کہ یوسف بابا کے قریب پرندوں کا شکار بھی کیا جاتا ہے،اسلئے شکاری حضرات وہاں جاتے تھے۔لیکن اب تو حالات کی خرابی کے بعد شائد ہی کوئی رات گذارنے کیلئے اس طرف کا رُخ کرے۔
دور سے یوسف بابا کی پہاڑوں کی ایک جھلک
منڈا بریج تک جانے والی سڑک کے ایک طرف تو افغانیوں کے کچے گھر تھے۔
اور دوسری طرف آم کے باغ ،ہمارا دل للچایا کہ زندگی میں پہلی بار آم کا باغ دیکھا تھا، اسلئے باغ کی سیر تو لازمی ٹہری۔
لیکن یہ کیا، جب باغ کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ ایک نہر ہمارے اور باغ کے درمیان حائل ہے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ نہر پار جائیں تو کس طرح۔اب تو کوئی پُل وغیرہ تلاشنا تھا ،تاکہ اس پار جایا جاسکے،چنانچہ جلد ہی ایک پُل نظر اگیا۔
باپ رہے ،اس پُل کو پار کرنے کیلئے بھی تو کمانڈو ہونا ضروری ہے۔ورنہ تو ہمارے جیسے آدمی کے تو ہوش اُڑ جائیں۔
اب ہمیں ڈرپوکی کے طعنے دینے سے پہلے پُل پر خود ہی ایک نظر ڈالیں اور پھر فیصلہ کریں
پُل خوب زبردست ہِل رہا تھا ،وہ سامنے جو بندہ نظر ارہا ہے ،سفید ٹوپی والا ۔اس بے چارے نے تو بیٹھ کر ہی پل پار کرلیا۔لیکن اب ہم اتنے بھی ڈرپوک نہیں ،اسلئے ہم نے کھڑے ہوکر پل پر سے گذرنا پسند کیا۔
لیکن ایک دوسری مصیبت سامنے کھڑی تھی۔
اور وہ یہ کہ نہر کے کنارے سڑک سے کافی گہرائی پر تھے،غالب 20 ،25 فٹ۔اسلئے اول تو نہر کنارے اترنا تھا ،اسکے بعد پل صراط پر گذرنے کی کوشش۔
بڑی مشکل سے نہر کے کنارے اترا،سارے ہاتھ بھی گندے ہوگئے تھے۔لیکن دل میں ایک عزم تھا ،کہ جیسے بھی ہو ،بس باغ میں ضرور پہنچنا ہے۔
کہتے ہیں کہ کبھی کبھی بندہ کوئی کام کرے بھی،تو اسکے جاننے والے اسکی حوصلہ افزائی کے بجائے اسکو ڈراتے ہیں،جس کے سبب اس بندے کے حوصلے کی رہی سہی کسر بھی پوری ہوجاتی ہے۔
یہی صورت حال میرے ساتھ پیش آئی۔ساتھی آوازیں دینے لگے ،کہ پل کو بیٹھ کر پار کرو،نہر میں گر جاؤ گے۔
لیکن میں نے ان کی باتوں کی طرف توجہ تک نہیں دی،بس اپنی نظروں میں پل کو دیکھا،تو دماغ نے مشورہ دیا کہ پل کو کھڑے ہوکر پار کرنا آسان ہے۔
تو جناب وہ دیکھتے رہے گئے اور ہم نے کھڑے ہو کر پل پار کرلیا۔
آخری تدوین: