اس (نظمیہ +رزمیہ ) کاوش ( غزل) پر تو جتنی داد دی جائے کم ہے انکلنہیں اصلاح حاجت اس روداد غزل کو
بس داد سے نوازیں کاوش پر اکمل کو
شکیب احمد تم نے جو لکھ ماری غزل
کیا یاد دلا دیا تم نے وہ گزرا ہوا کل
لگا یوں تھا کہ سر منڈھاتے ہی اولے پڑے
لب شیریں تھے سمجھے جہاں سے گولے پڑے
کیا فاتح ، بھائی خلیل و دیگر اور خاکسار
پڑھ پڑھ کے ہوتے رہے مبتلائے خلفشار
کچھ یوں ہوئے شیر و شکر دشمنوں سے مل کے
چم چم جنھیں سمجھے، نکلے لڈو وہ تل کے
نام ان کا لئے دیتے ہیں وہ تھے حسن ترمذی
پہلی بار ان کو یہاں دیکھا تھا اتنا بزی
کام اگائی بزرگوں کی دانشوری
الف عین صاحب خطا ب سے نکلے بری
یہاں پر ذکر بے محل نہیں اپنے امین کا
قرض بے جگری سے کیا ادا اپنی زمین کا ( یہاں زمین سے مرد محفل ہے )
صاحبوں غم نہ کرو اس نے اڑا ی تھی بے پر کی
ہمیں یقیں ہیں ہم میں نہیں کوئی ٹھ .........................ی ( ۔۔۔۔۔۔۔آپ خود سمجھدار ہیں )
نہیں اصلاح حاجت اس روداد غزل کو
بس داد سے نوازیں کاوش پر اکمل کو
فقیر شکیب احمد محمد فرقان الف عین فاتح محمدابوعبداللہ @عباداللہ حسن محمود جماعتی
محمد امین۔
محمد تابش صدیقی
@نور سعدیہ شیخ حسن ترمذی
محمد وارث
@ محمد خلیل الرحمٰن
تجمل حسین
@راحیل فاروق
گویا محفل نہ ہوئی محلہ ہوگیا۔۔۔ غیر محلہ سے آکر کوئی ہلچل کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے "کھوپچے" میں لے جایا جائے گا۔۔۔۔ اور سر منڈوا کر اولے برسائے جائیں گے۔۔۔۔۔واہ واہ اکمل بھائی۔ لاجواب۔
بھئی ہم تو کہتے ہیں ایشل کا ایک مجسمہ ہی محفل کے کسی گوشے میں بنوادیں۔ ایسا بندہ یا بندی بڑے عرصے بعد محفل پر آیا ہے جس کا ذکر خیر اس کے جانے کے بعد بھی کئی عشروں تک نہیں بھلایا جائے گا۔ اس سے پہلے ایک اس طرح کے صاحب کوئی دو تین سال پہلے وارد ہوئے تھے تو سب اس بندے کو گھیر گھار کر دوسرے دھاگے میں لے گئے تھے پھر وہاں اس کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا کہ بے چارہ خود ہی سر پر پاوں رکھ کر بھاگا اور پلٹ کر نہ دیکھا۔ لیکن اس کے جانے کے بعد بھی اسکا گوشہ کافی عرصہ آباد رہا اور اس دھاگے کے صفحات ستر سے بھی تجاوز کرگئے۔ اس کے بعد اب یہ ایشل وارد ہوا ہے اور محفل پر خوب ہلچل مچا گیا۔
آپ کر سکتے ہیں اس کو بروزن "لڑکی" قیاسآپ کر سکتے ہیں اس کو بر وزن ”فاعل“ قیاس
ہو سکے تو بوجھیے وہ لفظِ صد ذی احترام
”ٹھ“ سے ہے آغاز اور ”ی“ پر ہے اس کا اختتام