ابوشامل
محفلین
معجزے کے حوالے سے میں ایک پوسٹ پر مندرجہ ذیل تحریر لکھ چکا ہوں:
میرے خیال میں اسلام کو اپنی حقانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے معجزات کی ضرورت نہیں۔ قیصرانی بھائی کی بات درست ہے کہ اس طرح کی باتوں کو پھیلانے سے گریز کرناچاہیے کیونکہ ہمارا مقصد اسلام کی اصل تعلیمات کو پھیلانا ہے نا کہ اس طرح سے معجزات کو ظاہر کرکے لوگوں کو اصل چیز سے ہٹانا۔ ہمارے معاشرے میں بہت ساری باتیں بغیر کسی تصدیق کے ایسے ہی پھیلائی جاتی ہیں مثلا چاند پر اترنے والے پہلے خلانورد نیل آرمسٹرانگ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس نے چاند پر اترنے کےبعد اذان کی آواز سنی تھی اور بعد میں مسلمان ہو گیا تھا۔ حالانکہ اس دعوے کا کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا اور بالآخر کیا ہوا؟ نیل نے باقاعدہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں نہ انہوں نے اذان کی آواز سنی نہ وہ مسلمان ہوئے ہیں۔ تو اس طرح کی باتوں سے مسلمانوں کی جگ ہنسائی ہی ہوتی ہے تعریف نہیں۔اگر معجزات کے ذریعے اسلام کی حقانیت ثابت کی جاتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اللہ بڑے بڑے معجزے دکھا کر پورے عرب کو اسلام کی جانب راغب کر دیتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واحد معجزہ "قرآن مجید" ہے جو رہتی دنیا تک تمام انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔
قرآن مجید میں سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 59 دیکھ لیں:
"اور ہم کو نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ ان سے پہلے کے لوگ اُن کو جھٹلا چکے ہیں۔ (چنانچہ دیکھ لو) ثمود کو ہم نے علانیہ اونٹنی لا کر دی اور انہوں نے اس پر ظلم کیا۔ ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں"
اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ایسا معجزہ دیکھ لینے کے بعد جب لوگ اس کی تکذیب کرتے ہیں تو پھر لامحالہ ان پر عذاب واجب ہوجاتا ہے۔ اب یہ سراسر اللہ کی رحمت ہے کہ وہ ایسا کوئی معجزہ نہیں بھیج رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ ہمیں سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے مہلت دے رہا ہے۔
معجزے دکھانے کا مقصود تماشا دکھانا کبھی نہیں رہا اس سے مقصود ہمیشہ یہی رہا ہے کہ لوگ انہیں دیکھ کر خبردار ہوجائیں، انہیں معلوم ہوجائے کہ نبی کی پشت پر قادر مطلق کی بے پناہ طاقت ہے اور وہ جان لیں کہ اس کی نافرمانی کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔
ذرا اسی سورت کی آیت 89 سے 93 تک کی تلاوت کیجیے، جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
"ہم نے اس قرآن سے لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر لوگ انکار پر ہی جمے رہے۔ اور انہوں نے کہا کہ "ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کردے۔ یا تیرے لیے کھجوروں اور انگوروں کا باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کردے۔ یا تو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرادے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے۔ یا خدا اور فرشتوں کو رُو در رُو ہمارے سامنے لائے۔ یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں"۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! ان سے کہو کہ پاک ہے میرا پروردگار! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا بھی کچھ ہوں؟"
یعنی ایمان کی صداقت اور معقولیت کو دیکھ کر ایمان لانا ضروری ہے نہ کہ ماورائے عقل معجزات کا مطالبہ کرکے پھر اسے جادو قرار دینا اور اپنے لیے عذاب کو واجب کرلینا۔
میں یہ ہر گز نہیں کہہ رہا کہ معجزات کی صحت سے انکار ہے اور معجزات نامی کسی چیز کا وجود نہیں بلکہ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ موجودہ دور میں اسلام کی اصل تعلیمات اور صداقت و معقولیت پیش کرکے اس کی تبلیغ کرنا زیادہ اہم ہے نہ کہ اس طرح کے معجزات کو پیش کرکے لوگوں کو اسلام کی جانب راغب کرنا۔
میرے خیال میں اسلام کو اپنی حقانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے معجزات کی ضرورت نہیں۔ قیصرانی بھائی کی بات درست ہے کہ اس طرح کی باتوں کو پھیلانے سے گریز کرناچاہیے کیونکہ ہمارا مقصد اسلام کی اصل تعلیمات کو پھیلانا ہے نا کہ اس طرح سے معجزات کو ظاہر کرکے لوگوں کو اصل چیز سے ہٹانا۔ ہمارے معاشرے میں بہت ساری باتیں بغیر کسی تصدیق کے ایسے ہی پھیلائی جاتی ہیں مثلا چاند پر اترنے والے پہلے خلانورد نیل آرمسٹرانگ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس نے چاند پر اترنے کےبعد اذان کی آواز سنی تھی اور بعد میں مسلمان ہو گیا تھا۔ حالانکہ اس دعوے کا کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا اور بالآخر کیا ہوا؟ نیل نے باقاعدہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں نہ انہوں نے اذان کی آواز سنی نہ وہ مسلمان ہوئے ہیں۔ تو اس طرح کی باتوں سے مسلمانوں کی جگ ہنسائی ہی ہوتی ہے تعریف نہیں۔اگر معجزات کے ذریعے اسلام کی حقانیت ثابت کی جاتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اللہ بڑے بڑے معجزے دکھا کر پورے عرب کو اسلام کی جانب راغب کر دیتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واحد معجزہ "قرآن مجید" ہے جو رہتی دنیا تک تمام انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔
قرآن مجید میں سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 59 دیکھ لیں:
"اور ہم کو نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ ان سے پہلے کے لوگ اُن کو جھٹلا چکے ہیں۔ (چنانچہ دیکھ لو) ثمود کو ہم نے علانیہ اونٹنی لا کر دی اور انہوں نے اس پر ظلم کیا۔ ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں"
اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ایسا معجزہ دیکھ لینے کے بعد جب لوگ اس کی تکذیب کرتے ہیں تو پھر لامحالہ ان پر عذاب واجب ہوجاتا ہے۔ اب یہ سراسر اللہ کی رحمت ہے کہ وہ ایسا کوئی معجزہ نہیں بھیج رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ ہمیں سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے مہلت دے رہا ہے۔
معجزے دکھانے کا مقصود تماشا دکھانا کبھی نہیں رہا اس سے مقصود ہمیشہ یہی رہا ہے کہ لوگ انہیں دیکھ کر خبردار ہوجائیں، انہیں معلوم ہوجائے کہ نبی کی پشت پر قادر مطلق کی بے پناہ طاقت ہے اور وہ جان لیں کہ اس کی نافرمانی کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔
ذرا اسی سورت کی آیت 89 سے 93 تک کی تلاوت کیجیے، جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
"ہم نے اس قرآن سے لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر لوگ انکار پر ہی جمے رہے۔ اور انہوں نے کہا کہ "ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کردے۔ یا تیرے لیے کھجوروں اور انگوروں کا باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کردے۔ یا تو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرادے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے۔ یا خدا اور فرشتوں کو رُو در رُو ہمارے سامنے لائے۔ یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں"۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! ان سے کہو کہ پاک ہے میرا پروردگار! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا بھی کچھ ہوں؟"
یعنی ایمان کی صداقت اور معقولیت کو دیکھ کر ایمان لانا ضروری ہے نہ کہ ماورائے عقل معجزات کا مطالبہ کرکے پھر اسے جادو قرار دینا اور اپنے لیے عذاب کو واجب کرلینا۔
میں یہ ہر گز نہیں کہہ رہا کہ معجزات کی صحت سے انکار ہے اور معجزات نامی کسی چیز کا وجود نہیں بلکہ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ موجودہ دور میں اسلام کی اصل تعلیمات اور صداقت و معقولیت پیش کرکے اس کی تبلیغ کرنا زیادہ اہم ہے نہ کہ اس طرح کے معجزات کو پیش کرکے لوگوں کو اسلام کی جانب راغب کرنا۔