منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
شام، خوف، رنگ
`
بجلی کڑک کے تیغ شرر بار سی گری
جیسے گھٹا میں رنگ کی دیوار گری
دیکھا نہ جائے گا وہ سماں شام کا منیر
جب بامِ غم سے خوشبو کوئی ہار سی گری​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک خیال
`
دنیا سے دور اس کی بھری محفلو ں سے دور
بھٹکا ہے دل ہوا کی طرح منزلوں سے دور
اُٹھی ہے موجِ درد کوئی دل کے آس پاس
پھرتی ہے اک صدا سی کہیں ساحلوں سے دور​
 

عرفان سرور

محفلین
وصال کی خواہش
`
کہہ بھی دے اب وہ سب باتیں
جو دل میں پوشیدہ ہیں
سارے روپ دکھا دے مجھ کو
جو اب تک نادیدہ ہیں
ایک ہی رات کے تارے ہیں
ہم دونوں اس کو جانتے ہیں
دوری اور مجبوری کیا ہیں
اس کو بھی پہچانتے ہیں
کیوں پھر دونوں مل نہیں سکتے
کیوں یہ بندھن ٹوٹا ہے
یا کوئی کھوٹ ہے تیرے دل میں
یا میرا کوئی غم جھوٹا ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
گیت
٭
ڈوب گیا اب شام کو سورج آئی کالی رات
اب تو دل میں درد بسے گا نینوں میں برسات
آئی کالی رات
پی درشن کر نکلی ہر البیلی نار
دور دیس کی رادھا جائے کس موہن کے دوار
کیسے بنے گی بات
ندی کنارے گانے والو، سُونے دوار بساؤ
بچھڑ گئے جو میت پرانے رو رو انھیں بلاؤ
ہوئی پریت کی مات​
 

عرفان سرور

محفلین
گیت
٭
من مورکھ کی ایک نہ مانو
اس کے موہ کو جُھوٹا جانو
اس کا کام ہے دھوکا کھانا
بنجاروں سے من نہ لگانا
بستی بستی گھومنے والے
رس کے لوبھی یہ متوالے
نرمل سندریوں کے من میں
چاہ کی آگ لگانے والے
ان کی باتوں میں مت آنا
پل بھر کی پہچان ہے ان کی
دو گھڑیوں کا میل
آن کی آن میں مٹ جاتا ہے
ان کی پیت کا کھیل
یہ کیا جانیں لاج نبھانا​
 

عرفان سرور

محفلین
گیت
٭
رات اندھیری، بادل برسے
جیارا دھڑکے موہن ڈرسے
وہ دیکھو! اک سندر ناری
پیا ملن کو نکلی گھر سے
جھوم جھوم کر بادل برسے
پریم نگر کے لو گو آؤ
اس ناری کی دھیر بندھاؤ
ہر سونے اندھیارے پتھ پر
ملن گیت کے دیپ جلاؤ
گوری آئی روپ نگر سے
دیکھو رے اک سندر ناری
پیا ملن کو نکلی گھر سے
جھوم جھوم کر بادل برسے​
 

عرفان سرور

محفلین
گیت
`
بات تو دیکھو پاگل من کی
چاہ کرے اس کے جوبن کی
جس کا بسیرا، سیج گگن کی
باتیں دیکھو پاگل من کی
جندن کا دیپک بجھ جائے
اُمڈ گھمڈ کر بادل چھائے
اک ناری شرماتی آئے
آئیں گھڑیاں مدھر ملن کی
سپنے کب سچے ہوتے ہیں
پریمی تو یونہی روتے ہیں
جلتی رہے گی جو لگن کی
باتیں دیکھو پاگل من کی​
 

عرفان سرور

محفلین
گیت
٭
کس کس سے ہم پریت نبھائیں
کون سی مورت من میں بٹھائیں
سانجھ سویرے کس کو ڈھونڈنے
کنج گلیوں میں جائیں
کس سے پریت نبھائیں
نت نئی اک سندر ناری
ہردے بیچ سمائے
جس ناری کو میں چاہوں
وہ دور کھڑی شرمائے
ایسے بھید سمجھ نہ آئیں
لو پھر سانجھ سہانی آئی
دھیان میں لاکھوں باتیں لائی
سونے گھر میں سندریوں نے
نینن جوت جلائی
کس رادھا سنگ راس رچائیں​
 

عرفان سرور

محفلین
گیت
٭
رادھا کے کومل ہردے میں کرے کامنا زور
اس کے سندر دھیان میں گونجے کوئلیا کا شور
رادھا کے چنچل نینوں میں چھائی گھٹا گھنگھور
آتے جاتے جھونکے اس کو دکھ کے راگ سنائیں
بندرا بن کی چنچل ناریں ہنس ہنس جی کو جلائیں
سوتن کے سنگ راس رچائے نرموہی چت چور
دن ڈھلتے ہی ہر آنگن میں
سکھ کا جادو چھائے
جس کے درس کو رادھا ترسے
وہ موہن کب آئے
بول رے من کے مور​
 

عرفان سرور

محفلین
گیت
٭
تم جلتی رہو
تم جلتی رہو
ساون کی اندھیری راتوں میں
بادل سے بھری برساتوں میں
چپ رہ کر دکھ کی پیڑ سہو
تم جلتی رہو
جب پشپ لتا کا شور پڑھے
اور کامناؤں کا زور بڑھے
تب نرمل، کاپنتے ہردے سے
تم مدھر ملن کے گیت کہو
تم جلتی رہو
پھر پی پر تم کو پیار آئے گا
ہر دکھ پل میں مٹ جائے گا
اس سمے کے دھیان میں مست رہو​
 

عرفان سرور

محفلین
بچوں جیسی باتیں
٭
آج کا کام نہ کل پر ٹالو
جو کچھ لکھنا ہے لکھ ڈالو
ادھر ادھر کی جھوٹی باتیں
ذرا ذرا سی جیتیں ماتیں
جانے پھر کب موت آ جائے
دل کی دل میں رہ جائے​
 

عرفان سرور

محفلین
گیت
٭
لو پھر سانولی رجنی نے تاروں بھرا آنچل لہرایا
بیتے ہوئے سب سمے سہانے
گاتے ہوئے اب گیت پرانے
آ گئے دل کا درد بڑھانے
دھیرے دھیرے سونے نگر پر پھیلی دکھ کی چھایا
روپ نگر کے رہنے والو
جُھوٹے سپنوں کے متوالو
آنکھوں کو کاجل سے سنوارو
پھولوں کو بالوں سے سجا لو
بھور ہوئی تو مٹ جائے گی سندر رات کی مایا
گئے سمے کا سوگ منائیں
چندرماں کی جوت جلائیں
سندرتا کی دھوم مچائیں
ایسی ہی کتنی سوچوں سے جیون کا پنچھی گھبرایا​
 

عرفان سرور

محفلین
رات فلک پر رنگ برنگی آگ کے گولے چُھوٹے
پھر بارش وہ زور سے برسی مہک اٹھے گل بُوٹے
اس کی آنکھ کے جادو کی ہر ایک کہانی سچی
میرے دل کے خوں ہونے کے سب افسانے جُھوٹے
پہلے پہل تو جی نہ لگا پردیس کے ان لوگوں میں
رفتہ رفتہ اپنے ہی گھر سے سارے ناطے ٹُوٹے
یہ تو سچ ہے سب نے مل کر دلجوئی بھی کی تھی
اپنی رسوائی کے مزے بھی سب یاروں نے لُوٹے
میں جو منیر اک کمرے کی کھڑکی کے پاس سے گزرا
اس کی چق کی تیلیوں سے ریشم کے شگوفے پُھوٹے​
 

عرفان سرور

محفلین
میں اور وہ
٭
روز ازل سے وہ بھی مجھ تک آنے کی کوشش میں ہے
روز ازل سے میں بھی اس سے ملنے کی کوشش میں ہوں
لیکن میں اور وہ
ہم دونوں
اپنی اپنی شکلوں جیسے لاکھوں گورکھ دھندوں میں
چپ چپ اور حیران کھڑے ہیں
کون ہے میں
اور کون ہے تُو
بس اسی دور میں کھوئے ہوئے ہیں
صبح کو اٹھنے والے سمجھیں
جیسے یہ تو روئے ہوئے ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک پہلی
٭
آنکھوں میں اندھیری رین بھی ہے
میری ہی طرح بے چین بھی ہے
پر اس کی اپنی شان بھی ہے
اور منہ میں رنگیلا پان بھی ہے
جب دیکھیں تو شرماتی ہے
جب چاہیں تو گھبراتی ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
اپنے گھر میں
٭
منہ دھو کر جب اس نے مڑ کر میری جانب دیکھا
مجھ کو یہ محسوس ہوا جیسے کوئی بجلی چمکی ہے
یا جنگل کے اندھیرے میں جادو کی انگوٹھی دمکی ہے
صابن کی بھینی خوشبو سے مہک گیا دالان
اُف اُن بھیگی بھیگی آنکھوں میں دل کے ارمان
موتیوں جیسے دانتوں میں وہ گہری سرخ زبان
دیکھ کے گال پہ ناخن کا مدھم سا لال نشان
کوئی بھی ہوتا میری جگہ پر، ہو جاتا حیران​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک آسیبی رات
٭
کافی دیر گزرنے پر بھی جب وہ گھر نہیں آئی
اور باہر کے آسمان پر کالا بادل کڑکا
تو میرا دل ایک نرالے اندیشے سے دھڑکا
لالٹین کو ہاتھ میں لے کر جب میں باہر نکلا
دروازے کے پاس ہی اک آسیب نے مجھ کو ٹوکا
آندھی اور طوفان نے آگے بڑھ کر رستہ روکا
تیز ہوا نے رو کے کہا تم کہاں چلے ہو بھائی
یہ تو ایسی رات ہے جس میں زہر کی موج چھٹی ہے
جی کو ڈرانے والی آوازوں کی فوج چھپی ہے
میں نے پاگل پن کی دھن میں مڑ کر بھی نہیں دیکھا
دل نے تو دیکھے ہیں ایسے لاکھوں کھٹن زمانے
وہ کیسے ان بھوتوں کی باتوں کو سچا جانے
جونہی اچانک میری نظر کے سامنے بجلی چمکی
میں نے جیسے خواب میں دیکھا اک خونیں نظارا
جس نے میرے دل میں گہرے درد کا بھالا مارا
خون میں لت پت پڑی ہوئی تھی اک ننگی مہ پارا
پھر گھائل چیخوں نے مل کر دہشت سی پھیلائی
رات کی عفرتیوں کا لشکرمجھے ڈرانے آیا
دیکھ نہ سکنے والی شکلوں نے جی کو دِھلایا
ہیبت ناک چڑیلوں نے ہنس ہنس کر تیر چلائے
سائیں سائیں کرتی ہوا نے خوف کے محل بنائے
سارے تن کا زور لگا کر میں نے اسے بلایا
لیلٰی لیلٰی کہاں ہو تم اب جلدی گھر آ جاؤ
لیلٰی لیلٰی کہاں ہو تم
لیلٰی لیلٰی کہاں ہو تم
عفریتوں نے میری صدا کو اسی طرح دُہرایا​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک پرانی ریت​
٭​
جو بھی گھر سے جاتا ہے​
یہ کہہ کر ہی جاتا ہے​
دیکھو مجھ کو بھول نہ جانا​
میں پھر لوٹ کے آؤں گا​
دل کو اچھے لگنے والے​
لاکھوں تحفے لاؤں گا​
نئے نئے لوگوں کی باتیں​
آ کر تمہیں سناؤں گا​
لیکن آنکھیں تھک جاتی ہیں​
وہ واپس نہیں آتا ہے​
لوگ بہت ہیں اور وہ اکیلا​
ان میں گم ہو جاتا ہے​
 
Top