موبائیل فون کمپنیوں کی انعامی کھیلوں کے ذریعے لوٹ مار

ایم اے راجا

محفلین
موبائیل فون کمپنیوں کی انعامی کھیلوں کے ذریعے لوٹ مار


جوا (قماربازی) شرعی اعتبار سے یقیناً گناہ ہے اور وطنِ عزیز میں قمار بازی ایکٹ مجریہ 1965 کی رو سے ایک مجرمانہ فعل ہے اور قابل ِ دست اندازی جرم ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ جوا کی لت نے بڑے بڑے گھرانے برباد کردیئے اور معاشروں کو تباہی و بربادی سے ہمکنار کیا، اسلام نے جس فعل کو بھی غلط قرار دیا وہ فعل یا جرم نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی خرابی و بربادی کا سبب بھی ہے، اسی طرح جوا بھی نہ صرف جوا کھیلنے والے کے لیئے بربادی کا سبب بنتا ہے بلکہ اس سے وابستہ لوگوں کے لئے بھی تباہی کا مؤجدہوتا ہے۔
فی زمانہ انسان نے بہت ترقی کی ہے اسی کے ساتھ ساتھ جرائم نے بھی کافی ترقی کی ہے اور جوا کے کھیل نے بھی بہت سے ترقی یافتہ صورتیں اختیار کرلی ہیں مثلاً ، سٹہ بازی، آکڑا پرچی، لاٹری وغیرہ، مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں جس کے خطرناک نتائج سامنے آرہے ہیں، اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو جوا کا بھی اسٹریٹ کرائم کے بڑہنے میں خاصہ کردار واضح نظر آئے گا، مگر افسوس کے اس وبا پر متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی حلقے بھی مجرما نہ خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں حتیٰ کے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کی توجہ بھی اس جانب نہ ہونے کے برابر ہے۔
ملک کا شاید ہی کوئی شہر ، قصبہ یا گاؤ ں ایسا ہو جس میں جوا کی وبا نے کسی نہ کسی صورت میں اپنے خونی پنجے نہ گاڑ رکھے ہوں، آج کل آکڑا پرچی جوا کی سب سے بڑی اور مقبول صورت ہے جو کہ خاموشی کے ساتھ لوگوں سے ان کے خون پسینے کی کمائی لوٹنے کا طریقہ بنی ہوئی ہے، یہ گھناؤنا کاروبار کتنا مضبوط ہے اور کتنے بڑے ہاتھ اس کاروبار کی حفاظت کررہے ہیں عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا، اس کھیل میں نہ صرف عام بلکہ سفید پوش اور سرمایہ دار لوگ بھی شامل ہیں اور ُلٹ رہے ہیں، ہر ماہ کی اول تاریخ کی شب اور ۱۵ تاریخ کی رات کو اس کھیل سے منسلک لوگ چاند رات کی طرح مناتے ہیں، اس رات لوگ کروڑوں روپے خرچ کرکے اپنے من پسند نمبروں کی پرچیاں خریدتے ہیں اور صبح چند ایک جیتنے والوں کے علاوہ ہزاروں لوگ کروڑوں روپیہ گنواچکے ہوتے ہیں اور آکڑا پرچی چلانے والی منظم کمپنیاں لوٹے ہوئے مال کا ایک مخصوص حصہ نیچے سے اوپر تک بطور نذرانہ پیش کرکے دوبارہ لوٹ مار کی تیاریاں شروع کردیتی ہیں، اس کام کو چلانے والے لوگ اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کے اگر کوئی افسرِ متعلقہ انہیں روکنے کی کوشش کرے بھی تو یہ اس کی کرسی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور پھر وہ افسر یا تو آنکھیں بند کرکے اسی حمام میں نہانا شروع کردیتا ہے یا پھر اپنے ضمیر کو بچا کر کرسی چھوڑ دیتا ہے اور اگر نہ چھوڑے تو آہنی ہاتھ اس کے نیچے سے کرسی کھینچ کر دھڑام سے اسے زمین پر گرا دیتے ہیں، گویا کے اس وبا کو روکنے اور اِن آہنی ہاتھوں کو پگھلانے کے لیئے ہمیں اپنے ضمیر کی بھٹھی گرم کرنی پڑے گی اور اس کے لیئے اجتماعی طور پر جوت جلانی ہوگی۔
قماربازی کی مندرجہ بالا صورتوں اور دیگر اشکال پر یقینا کافی قلم کاروں نے دستِ قلم دراز کیا ہوگا مگر جوا کی جس صورت کی آج میں بات کرنے جارہا ہوں اس پر شاید ہی کسی نے آواز بلند کی ہو یا قلم اٹھایا ہواور شاید جوا کی یہ قسم قمار بازی ایکٹ کے زمرے میں نہ آتی ہو اور قابلِ گرفت جرم بھی نہ ہو مگر میں اسے بھی جوا کی ایک بھیانک قسم گر دانتا ہوں اور میرے خیال میں یہ زیادہ تباہی پھیلارہی ہے اور اس کے ذریعے بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ لوگوں کو بیوقوف بنا کر اور طرح طرح کے انعامی لالچ دے کر لوٹا جارہا ہے۔ یہ جوا ہے، ملک میں مختلف موبائیل فون کمپنیوں کی طرف سے موبائیل فون پر بھاری انعامات کا لالچ دے کر سوال جواب کے کھیل کے ذریعے کروڑوں روپے بٹورنا ، اس کھیل سے یقینا سرکاری خزانے کو بھی ٹیکس کی صورت میں بھاری رقم ملتی ہوگی مگر یہ کمپنیاں کس طرح لوگوں کو شکار بنا رہی ہیں شاید اس بارے کسی نے سوچنے کی زحمت ہی نہ کی ہو، موبائل فون کمپنیاں (تمام نہیں) اپنے مقصد سے ہٹ کر کام کررہی ہیں، ایک ہی ملک میں مختلف موبائل فون کمپنیوں کو اپنی سروس شروع کرنے کی اجازت دینے کا مقصد مقابلہ کا رجحان پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ صارفین کو معیاری اور سستی سے سستی فون سہولت میسر آسکے اور ان کمپنیوں کا مقصد صرف اور صرف ملک کی عوام کو رابطے کا معیاری اور سستا ذریعہ فراہم کرنا ہونا چاہیے نہ کہ صارفین کو جوا کی ترغیب دے کر کروڑوں روپیہ بٹورنا ۔
کچھ موبائل فون کمپنیاں سیروں سونے اور دوسرے قیمتی انعامات کا لالچ دے کر سوال جواب کا سلسلہ شروع کرتی ہیں اور 8/10 روپے فی جواب ریٹ مقرر کرکے کھیل شروع کرتی ہیں اور درست جواب دینے والوں کو پوائنٹس دیتی جاتی ہیں اور پھر اس کھیل کو بیجا طول دے کر کروڑوں روپے ہتھیا لیتی ہیں اور بعد میں قراندازی کے ذریعے شاید انعام بھی دیتی ہوں مگراس کی تصدیق نہیں کہ واقع کسی کو انعام ملتا بھی ہے یا نہیں، چونکہ لالچ انسان کی فطرت میں شامل ہے اس لیئے لوگ آسانی سے ان کمپنیوں کا شکار بن جاتے ہیں، اور اگر کسی کو انعام دیا بھی جاتا ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہیکہ ہزاروں لوگوں سے کروڑوں ہتھیا کر صرف چند لوگو کو لاکھوں کا انعام دے دیا جائے۔
میرے ایک جاننے والے نے اس کھیل میں اپنی پوری تنخواہ ہی گنوادی اور ادھار لے لے کر اس امید پر گذارہ کررہا ہے اور مذید کھیل رہا ہے کہ اسے ضرور سونے کا بھاری انعام ملے گا مگر یہ سلسلہ ہے کہ طول ہی پکڑتا جارہا ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا اور مجھے یقین ہے کہ ہزاروں روپے کی بربادی کے باوجود اسے شاید ہی انعام ملے گا، یہ المیہ تو صرف ایک شخص کا ہے مگر نہ جانے ایسے کتنے ہی لوگ ہوں گے جو اس کھیل کا شکار ہوچکے ہونگے یا ہونے والے ہونگے اور اگر اس کھیل کو جلد از جلد نہ روکا گیا تو مزید جانے کتنے ہی افراد شکار ہوتے رہیں گے۔
سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ یہ موبائل فون کمپنیاں اپنی فون سروس کو بہتر بنانے کے بجائے ایسے کھیلوں پر زیادہ توجہ دے رہی ہیں اور دن بہ دن ان کی سروس روبہ زوال ہے اور یہ کمپنیاں اپنے صارفین کو معیاری فون سروس فراہم کرنے میں ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہیں جس کے لیئے انہیں لائسنس جاری کیا گیا ہے، جبکہ یہ اس کام کو سرانجام دینے میں دن رات کوشاں ہیں جس کاانہیں لائسنس نہیں دیا گیا۔
اس وقت ملکی خزانے کو یقینا آمدن کی سخت ضرورت ہے اور ان فون کمپنیوں کے اس کھیل سے خزانے کو بھاری منافع ٹیکس کی صورت میں ملتا ہوگا مگر حکومت اپنی عوام کی جان ، مال اور عزت کی محافظ ہوتی ہے لہذٰحکومت کو ایسے کسی کام کی اجازت نہیں دینی چاہیے جو عوام کی جان ، مال اور عزت کے لیئے نقصان دہ ثابت ہواور حکومت کو اپنے مذہبی اقدارکو بھی ذہن و نظر میں رکھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔
حکومت ِوقت کو فوری طور پر ملک میں جوا پر پابندی پر سختی سے عمل کروانے کے لیئے راس اقدامات کرنے ہونگے اور ایسی تمام موبائل فون کمپنیوں کو جو ایسے مکروہ کھیل میں ملوث ہیں سختی سے روکنا ہوگا تاکہ وہ عوام کو لالچ دے کر ان کے خون پسینے کی کمائی کو لوٹ نہ سکیں اور ایسے تمام کھیلوں کو قماربازی ایکٹ کے تحت قابلِ گرفت اور قابلِ سزا جرم قرار دیاجانا چاہیے اور مرتکب ہونیوالوں کو قانونی گرفت سے بچنے کا کوئی بھی موقع ہرگز نہیں دینا چاہیے۔
حکومت کو اپنے فضول اخراجات پر کنٹرول کیساتھ ساتھ غیر ترقیاتی اخراجات کو واضح حد تک کم کرنا چاہیے، بجلی، تیل، گیس وغیرہ کے علاوہ عام آدمی کے روزمرہ کے استعمال کی اشیا پر بھاری ٹیکس لگا کر اور موبائیل فون کمپنیوں کے ایسے کھیلوں کے ذریعے ٹیکس وصول کر کے اپنی آمدنی بڑھانے کے بجائے ٹیکس کے دائرے کو ممکنہ حد تک بڑھانا چاہیے ورنہ بیجا ٹیکسوں کا سیلاب نہایت تباہ کن ثابت ہوگا، ٹیکس پالیسی مرتب کرنے والے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ مندرجہ بالا چیزوں پر روزبہ روز ٹیکس بڑھا کر مہنگائی کا طوفان لانے کے بجائے زمینداروں، سرمایہ داروں، صنعتکاروں اور ٹیکس کے دائرہ میں آنے والے دوسرے افراد سے بلا تفریق جائز ٹیکس کی وصولی کو ہر صورت میں یقنی بنائیں اور ٹیکس کی مد میں کسی کو بھی کوئی چھوٹ نہیں ملنی چاہیے اسکے لیئے ٹیکس وصولی کے ایک موثر اور جدید نظام کی اشد ضرورت ہے جسکے لیئے نادرا اہم کردار ادا کر سکتی ہے ، اس ضمن میں بھارت کا ٹیکس سسٹم ہمارے لیئے ایک مثال ہے۔

( ایم اے راجا )


 

شمشاد

لائبریرین
راجا صاحب بات یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر لوگوں کے نزدیک حلال و حرام کا فرق مٹ چکا ہے۔ انہیں تو بس پیسہ چاہیے چاہے وہ کہیں سے بھی آئے، جوئے سے آئے، چوری سے آئے یا سینہ زوری سے آئے اور اس کی واحد وجہ مذہب سے دوری ہے۔
 
راجا صاحب بات یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر لوگوں کے نزدیک حلال و حرام کا فرق مٹ چکا ہے۔ انہیں تو بس پیسہ چاہیے چاہے وہ کہیں سے بھی آئے، جوئے سے آئے، چوری سے آئے یا سینہ زوری سے آئے اور اس کی واحد وجہ مذہب سے دوری ہے۔
اوہ۔۔۔۔۔۔ !
 

میر انیس

لائبریرین
راجا صاحب نہایت ہی اہم مسئلہ کی نشاندہی کرانے کا شکریہ۔ کچھ عرصہ پہلے ٹیلی نور والوں کی طرف سے تو باقاعدہ یہ پیغام موصول ہوا تھا کہ ایک سے لے کر نناوے تک کی بِٹ دیں اور انعام جیتیں لیکن یہ تو رہا موبائیل کمپنیوں کا مسئلہ۔ میں ایک اور کہانی آپ کو سناتا چلوں پچھلے اتوار کو میں ایک میلے میں جو ناظم آباد کے پل کے نیچے جو گراؤنڈ ہے اس میں لگا ہوا تھا بچوں کے ساتھ گیا تو اس میں دو اسٹال کافی بڑے پیمانے پر لگے تھے جس میں بیس روپے کا ایک اسکریچ کارڈ مل رہا تھا اسکریچ کرنے پر انعام کی ایک رقم جو شاید 10 روپے سے ہزار روپے تک تھی مل رہی تھی ہر دو اسٹالوں پر کافی رش تھا لوگ جاتے اور اپنی قسمت آزماتے جسکا بڑا انعام نکلتا وہ لالچ میں بار بار کارڈ خریدتا اور انعام میں حاصل کی ہوئی رقم بھی بعض اوقات داؤ پر لگادیتا تھا یعنی جوئے کو قسمت آزمائی اور جوئے سے ملنے والی رقم کو انعام کہا جارہا تھا اور جوا ہارنے والے کو دوبارا قسمت آزمائی کیلئے اکسایا جارہا تھا جو کم لالچ میں آتے وہ پہلے انعام پر ہی نکل لیتے تھے اور تو اور میں نے کئی با شرع ہستیوں کو بھی کارڈ خریدتے ہوئے دیکھا تھا ایک دفعہ تو میں نے سوچا کہ ان میں سے ایک کو روک کر میں کہوں کہ مولانا صاحب دوسرے تو خیر نا سمجھ ہیں کم از کم آپ تو حرام حلال کا فرق اور انعام اور جوئے کا فرق سمجھتے ہیں آپ کو دوسروں کو روکنے کے بجائے خود ہی کارڈ خریدنا زیب نہیں دیتا پر بس کچھ ہمت نہیں ہوئی۔ پھر ایک صاحب نے اسکے جائز ہونے کی دلیل یہ دی کہ جسطرح ہمارے بچپنے میں لاٹری ہوتی تھی چار آنے کی ایک تہ کی ہوئی پرچی ہم لیتے تھے اگر اس پر کوئی نمبر لکھا ہوا ہوتا تو ہم چارٹ پر لگے ہوئے انعام کے نمبر سے اسکو ملاتے تھے اور وہ انعام جو بعض اوقات کوئی چشمہ غبارہ یا کوئی انگھوٹی ہوتی تھی ہم کو مل جاتا تھا ورنہ اک چھوٹا سی بسکٹ اس میں بند ہوتا تھا یہ بھی اسی طرح ہی تو ہے بس ایک نئے طریقے سے ہے جس پر میں نے کہا کہ وہ تو چلیں ایک انعام ہوتا تھا کسی چیز کی صورت میں ورنہ بسکٹ تو ملتا ہی ملتا تھا نا (ویسے اسکے بھی حرام یا حلال ہونے کے بارے میں مجھ کو شک ہی ہے) پر یہاں تو معاملہ برعکس ہے کہ رقم لگانے پر رقم ہی مل رہی ہے ورنہ آپ کی رقم ضائع ہورہی ہے ۔ واللہ اعلم باالصواب
 

شہزاد وحید

محفلین
بلکل صحیح۔ موبائل فون کمپنیز نے پچھلے کچھ سالوں سے مختلف طریقوں سے لوٹ مار جو بازار گرم کیا ہے اس کی کوئی حد نہیں۔ کال ریٹ شاید ضرور کم ہو گئے ہوں لیکن کال ریٹ کے علاوہ جو بھی سروس ہے اس کے اس قدر ناجائز چارجز وصول کیئے جاتے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ ان چارجز کے متعلق صاف صاف معلومات بھی فراہم نہیں کی جاتی اور اگر کبھی ریٹ پالیسی میں تبدیلی کی جائے تو اس سے بھی صارف کو مطلع نہیں کیا جاتا۔ میں شروع دن سے یوفون کا کنکشن استعمال کرتا ہوں اور یار دوستوں کے کہنے پر انہیں کبھی کبھی بیلنس بھی شیئر کر دیتا ہوں۔ پچھلے ہفتے میں بیلنس شیئر کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ہر بار سروس کی طرف سے یہ میسج آتا کہ کوشش ناکامیاب۔ چار پانچ بار کی کوشش کے بعد میں نے اپنا بیلنس چیک کیا تو پندرہ روپے کٹ چکے تھے لیکن بیلنس بھی شیئر نہیں ہوا تھا۔ میں نے ہیلپ لائن سے پتا کیا تو پتہ چلا کہ کم سے کم بیلنس شئیر کرنے کی حد تبدیل ہو چکی ہے اور بیلنس شیئر ہو نہ ہو چارجز ضرور کٹے گیں۔ آج سے دو تین سال پہلے تک ایک ایسا نہیں تھا لیکن شاید پھر کمپنیز نے آپس کی ملی بھگت سے یہ کام کرنے شروع کیئے ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
پسندیدگی پر تمام احباب کا شکریہ، یہ کالم کل کے روزنامہ شرعیاحتساب راولپنڈی گوجرخان میں چھپ چکا ہے اور کافی حوصلہ افزائی ہوئی جبکہ کچھ دو اخبارات نے چھاپنے سے معذرت کر لی۔
 
Top