موت میں ہے سکوں قرار بہت ۔ رفیق اظہر

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

موت میں ہے سکوں قرار بہت
وہ سکوں جو ہے پائیدار بہت

اتنا پانی کہاں سے آتا ہے
آنکھ رہتی ہے اشک بار بہت

راستہ بھُول بھُول جاتا ہوں
آنکھ رہتی ہے پُر غبار بہت

مرگ و ہستی کی دھُند میں بیٹھا
دیکھتا ہوں میں آربار بہت

باغِ دنیا جسے کہے ہے خلق
جھاڑیاں ہیں یہ خاردار بہت

شہر سے دور مقبروں سے گزر
خامشی ہے یہ پُر وقار بہت

کسی اپنے عزیز کا ماتم
چھیڑتا ہے غموں کے تار بہت

(رفیق اظہر)
 
Top